کالمز

غریب صرف بھوک نہیں، شرم سے بھی مرجاتے ہیں‌

تحریر:  صابر حسین
”غریب صرف بھوک سے نہیں شرم سے بھی مر جاتے ہیں“
بولنے والو کے لۓ یہ صرف ایک خوبصورت فقرا ہے۔ جبکہ دانشور اور مفکرین کے نزدیک یہ ایک ایسا موضوع ہے جس پر لکھنے کے لۓ الفاظ کم پڑتے اور سوچنے کہ کوٸی حد نہیں ہوتی۔
ایک طرح عالمی وبا کا ڈر تو دوسری طرح میرے شہر اور ملک میں غرباء کے غربت پر سیاست اور سستی شہرت حاصل کرنے کے خاطر عزت نفس کو ٹھیس پہنچانا عروج پر ہے۔ جو نہایت ہی لمحہ فکریہ ہے۔ آج پوری دنیا جس مرض کے لپٹ میں ہے میرے نزدیک محض یہ ایک مرض  ہی نہیں بلکہ اللہ تعالٸ کا اپنے بندوں پر آزماٸش ہے۔ ہم نام نہاد انسان٬ انسانیت کے اعلی درجے سے گر کر درندے اور جِن سے بدتر بن چکے ہیں، احساس نام کی چیز ختم ہوا ہے۔ آج کہ اس دنیا میں سب ظالموں کے یار اور مظلموں کے دشمن بنے ہے٬ غریب کا مذاق اور امیر کا پردہ داری ہورہی ہے٬ حق پہ چپ اور ناحق آواز بلند کرتے۔ اس طرح بہت سارے اور پہلو ہیں جو انسان اور انسانیت کے درمیان موازنہ کرنے میں آسانی پیدا کرتا ہے۔ میں چند ان پہلو پہ غور کرکے دیکھتا ہوں کہ انسان اپنے اصل معیار سے گر کر منافقت کے آخری درجے پر پہنچ گیا ہے۔ بےشک منافقین پر اللہ کا عذاب کوٸی بڑی بات نہیں۔
   اگر میں بات اپنی ملک پاکستان کہ کروں تو پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک میں ہوا کرتا ہے۔ وہ اس لۓ نہیں کہ یہاں وساٸل کہ کمی ہے نہ کہ اس لۓ کہ یہاں معیاری تعلیم کہ شرح کم ہے۔ بلکہ پاکستان ہر لحاظ سے بہتر ہے اگر کمی ہے تو یہاں بہترین انسان کے کمی ہے۔ ہمارے خادم عوام کی خدمت اور ترقی کے بجاۓ راتوں رات کروڈ پتی بنے کا سوچتے ہے۔ جب خادم ہی کرپشن کے لپٹ میں آۓ تو ماتحت لوگوں کو گلہ نہیں٬ کیونکہ جیسے دیس ویسے بھیس۔
میں نے اس تحریر کے آغاز میں بتایا تھا کہ موضوع اتنا وسیع ہے کہ بولنے کو الفاظ کم اور سوچنے کہ حد نہیں۔ کچھ ایسا ہی ہورہا ہے میں لکھتے لکھتے زیادہ گہراٸی میں جانے کہ کوشش کر رہا ہوں جو کہ ایک تحریر کے اندر بیاں کرنا مشکل نہیں بلکہ میرے لۓ ناممکن ہے۔لحاظہ میں بات کو مختصر کرتے ہوۓ اصل موضوع کہ طرف آرہا ہوں۔
جیسا کہ سب جانتے ہیں، موجودہ صورت حال کے پیش نظر وفاقی حکومت کے جانب سے احساس پروگرام اور صوباٸی حکومت نے غریب طبقہ کے لۓ کچھ راشن کا اہتمام کیا ہے۔ جس پر سیاست اور سستی شہرت حاصل کرنے کے داوڈ میں ایک سے بڑھ کر ایک آگے ہے۔ غریب کے تذلیل کرنے میں کوٸی کسر نہیں چھوڈیں ہے۔ ہمارے بھاٸیوں کو لگتا ہے کہ وہ لوگ بہت بڑے خدمت گار ہیں اور مشکل کے اس کڑی میں انسانیت کے خدمت میں مصروف ہیں۔ اوۓ  ناداں تمہیں خدمت کے سلیقے کا نہیں معلوم ہے یا شہرت کے بھوکے ہو خدمت میں نماٸش نہیں ہوتی تم تو نماٸش کرنے لگے ہیں۔ اپ نے کبھی یہ بات نہیں سُنا ہے کہ ”نیکی کر دریا میں ڈال“، یہ جملہ ہر کوٸی سن چکا ہوگا٬ لیکن کبھی کسی نے غور نہیں کیا ہوگا۔ اگر انسان کوٸی نیکی کرتا ہے تو اللہ کی ذات کے خاطر کرتا ہے کیونکہ اللہ نے اسے یہ مواقع فرہم کیا ہے اور اس اہل بنایا ہے کہ وہ کسی دوسرے انسان کے مشکل وقت میں کام آسکے۔ ایک بات واضع رہے کہ میں سارے انسان کو برُے بلا نہیں کہتا، ہم نے کچھ ایسے بھی لوگ دیکھے ہیں جو اس مشکل وقت میں انسانیت کا خدمت کرتے ہیں کسی کو احساس دلاۓ بغیر اور کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو انسانیت کے خدمت میں لگے ہیں اور کوٸی ان کے بارے میں جانتا تک نہیں ہے۔
لیکن میں جہاں رہتا ہوں یہاں ان دنوں انسانیت کہ خدمت اور نماٸش برابر ہورہی ہے۔ وقت کے پیش نظر مستحقین کے لۓ گورنمنٹ کہ جانب سے چند کچھ مقدار میں راشن کا بندوبست کیا گیا تھا۔ لیکن ہمارے کچھ لوگ اس موقع پر مستحقین کے خدمت کے بجاۓ سوشل میڈیا پر تصویرے آوزاں کر کے عزت نفس کو تذلیل کر رہیں ۔ کچھ دوست اس چیز کو اپنے فراٸض سمجھتے ہوۓ کہتے ہے کہ انہوں نے سوچ بچار سے چند ایک تصویرے اپلوڈ کٸے ہیں صرف یہ بات ثابت کرنے کے لٸے کہ راشن صیع مستحقین کو ملا ہے٬ کسی کو کوٸی اعتراض نہ ہو اور اداروں پر الزمات نہ لگاۓ۔ ایسے میں٬ میں اپنے ان بھاٸیوں سے پوچھتا ہوں کیا تم نے اداروں کو شفاف قرار دینے کا ٹھکہ لیا ہے یا ادارے خود پیچھے ہٹ کر اپ کو یہ کام سونپ دیٸے ہے۔ اپ دس تصویرے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر کے یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ حق حقدار کو ملا ہے۔ اگر ایسا ہے تو ان سب تصویروں کو اپلوڈ کریں جتنے لوگوں کو راشن ملا ہیں۔ مجھے تصویر لینے پہ کوٸی اعتراض نہیں٬ کیونکہ میں اس بات سے واقف ہوں گورنمنٹ ہو یا دیگر آرگناٸزیشن٬ اپنے ریکاڈ اور رپوٹینگ کے لٸے مواد اپنے پاس رکھ لیتے ہیں اور پالیسی کے مطابق پرنٹ میڈیا پر کوریج بھی دیتے ہے۔ لیکن ایک عام شخص کو ہر گز یہ اختیار حاصل نہیں، ہاں البتہ کسی کے ساتھ زیادتی ہونے کے صورت میں اپ اس چیز کو ایک ایشو بنا کر میڈیا پر بےنقاب کرنے کے حق رکھتے ہے۔
دوسری بات یہ کہ راشن اتنے زیادہ مقدار میں نہیں ملا تھا کہ پورے مستحقین تک پہنچایا جاسکے۔ جہاں تک میرے علم میں ہے یاسین کے اندر کوٸی 350 کے تعداد سے راشن کے تھیلے ملیں تھیں جو سب تک پہنچانا ممکن نہیں٬ کیونکہ یہاں کی آبادی کٸ گناہ زیادہ ہیں آبادی کے نسبت سے غربت بھی زیادہ ہے۔ میرے نزدیک 350  راشن کے تھیلے آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ہر کسی تک یہ راشن پہنچانا مشکل تھا بہت سارے مستحقین اس سے محروم رہیں ہونگے۔ ایسے میں ہمارے لوگوں کو ورغلا کر اور بےقوف بنا کر سیاست اور سستی شہرت حاصل کرنے سے بعض آۓ، بے شک اپ ان مستحقین کے عزت نفس کا خیال رکھتے ہوۓ حقوق دلانے لۓ آواز اٹھاۓ اور گورنمنٹ سے مطالعبہ کریں تاکہ کہ گورنمنٹ وافر مقدار میں راشن فرہم کریں٬ نہ کی اپ کسی کے پرسنل ڈیٹا کو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر کے حقوق دلانے کے بجاۓ توہین کریں۔
”ہیں اور بھی دنیا میں سخن وار بہت اچھے۔۔۔
کہتے ہے کہ غالب کا انداز بیاں اور۔۔۔“
آخر میں جہاں تک میں امید رکھتا ہو حق حقدار کو ملا ہوگا۔ کیونکہ یہ کام ہمارۓ انتظامیہ نے اپنے ہاتھوں میں لے کر سفارشات کے بنیاد پر من پسند لوگوں کو نوازنے سے بچنے کے لٸے (فارمز) تصدیق کرنے کا کام جماعت خانے کے مکھی٬ مسجد کے امام اور شیخ کے سپرد کر دیا تھا تاکہ وہ دیہی سطح پر مستحقین کے نشاندہی کریں۔ باوجود اس کے اگر اس کام میں شفاف نہ ہونے کا انکشاف ہے تو اللہ ہم سب پر رحم کریں کیونکہ آٸندہ بھی ہم کسی کے کام کے شفاف ہونے کا امید نہیں رکھتے ہیں۔
 آخر میں ایک پھر میں ان تمام حضرات کا حوصلہ شیکنی کے ساتھ اتھ شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں جہنوں نے راشن تقسیم کرنے کے تصویرے بنا کر تو کوٸی راشن نہ ملنے والوں کا تصویرے بنا کر سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر کے لوگوں کے عزت نفس کو نقصان پہنچا رہیں، خیال رکھے کہ غریب صرف بھوک سے نہیں شرم سے بھی مرجاتے ہیں۔
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button