کالمز

ماہ رمضان: تقویٰ الٰہی کے حصول کا بہترین ذریعہ

تحریر : راجہ حسین راجوا

رمضان عربی زبان کا لفظ  جسکے  معنی  ہے ” جھلسا دینے والا“ اس مہینے کا یہ نام رمضان المبارک اس لیے رکھا گیا ہے جب اسلام میں روزہ فرض ہوئی تھی اسوقت موسم بہت ذیادہ گرم تھا، لیکن بہت سارے علماء اس کی تشریح کچھ یوں کرتے ہیں اس مہینے اللہ اپنی خاص رحمت سے روزہ رکھنے والوں کے گناہوں کو جھلسا دیتے ہیں اور معاف کرتے ہیں اسلیے اس مہینے کو رمضان کہتے ہیں. اسلامی کیلنڈر کا نواں مہینہ ہے یہ ایک عظیم مہینہ ہے مسلمانان عالم کیلے اللہ کی طرف سے بہت بڑا نعمت ہے۔ اس مہینے میں انوار و برکات کا سیلاب آتا ہے اور اسکی رحمتیں موسلادھار بارش کی طرح برستی ہیں. اسی با برکت مہینے میں قرآن کا نزول ہوا جس سے دنیائے انسانیت بلخصوص مسلمانان عالم ہدایت حاصل کرتے ہیں. اسلیے اللہ نے اس مہینے کو باقی مہینوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے اور شب قدر کی رات کو باقی تمام راتوں سے افضل قرار دیا ہے۔ اللہ تعالٰی سورہ قدر میں ارشاد فرماتے ہیں ”تم کیا جانو شب قدر کیا ہے شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے“ اس سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہ کتنا با برکت اور با فضیلت مہینہ ہے۔

ارشاد ربانی ہے ”ہم نے تم پر روزے فرض کیے ہیں جیسے تم سے پہلے والوں پر کیے تھے تاکہ تم متقی اور پرہیز گار بن جاؤ “ بانی اسلام  ہم سب کے آقا سرور کونین حضرت محمد ارشاد فرماتے ”جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطان کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔“ ایک اور مقام پر نبی کریم ارشاد فرماتے ہیں. ” جو شخص ثواب کی نیت سے روزے  رکھتا ہے خدا اسکی تمام سابقہ گناہوں کو معاف فرماتے ہیں.“

اللہ تعالٰی نے اس مہینے کو اسلیے عطا فرمایا ہے باقی گیارہ مہینوں میں دنیوی معاملات میں گم ہو جاتے ہیں جس سے دل میں غفلت پیدا ہوتی ہے روحانیت اور اللہ تعالٰی کی قرب میں کمی واقع ہوتی ہے اس  مہینے میں انسان عبادتوں کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کر سکتے ہیں. روزے رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اللہ تعالٰی کے احکام کے مقابلے میں نفس کی خواہشات پیٹ اور شہوتوں کے تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالی جائے۔ باقی گیارہ مہینوں میں ہم شکم پوری میں مگن ہوتے ہیں ہم اللہ پاک کے ان نعمتوں کو ذرا بھی اہمیت نہیں دیتے ہیں اور غریبوں کی بھوک کا بلکل بھی احساس نہیں ہوتا ہے۔ ایک مہینہ فاقہ کشی کرنے سے غریبوں کے بھوک کا احساس ہو جاتا ہے یہی روزہ رکھنے اصل مقصد ہے کہ ہم غریبوں کی بھوک کا احساس کرے اور ضرورت مند افراد کی ہر ممکن مدد کرے۔

اس با برکت مہینے میں صرف فاقہ کشی کرنا کافی نہیں ہوگا ہمیں اپنے اردگرد بسنے والے ضرورت مند افراد پر نظر رکھنا ہو گا تاکہ کوئی بھی بھوکا روزہ نہ رکھ سکے، اس سال کرونا وائرس کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہے دیہاڑی پہ کام کرنے والے افراد کافی مشکل میں ہیں سماجی فاصلے کے بہانے سے ہمیں غریبوں سے فاصلہ نہیں رکھنا ہے جتنا ہو سکے  اپنے غریب رشتہ دار ہمسایہ اور علاقہ مکینوں کی مدد کرے یہی تقویٰ الٰہی کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے کیونکہ اس مہینے میں ایک نیکی کا دس گنہ ثواب ملتا ہے ہماری ایک چھوٹی نیکی ہمارے عاقبت کو سنوار سکتی ہے۔ یہ عبادتوں کا مہینہ ہے اللہ پاک سے راز نیاز کرے اور اپنے گناہوں کا معافی مانگیں، مولانا طارق جمیل اپنے خطاب میں فرما رہے تھے یہ کرونا خدا  کی طرف سے ایک امتحان ہے اس سے لڑنا نہیں بلکہ خدا سے گڑآ گڑا کر دعا کرنے ضرورت ہے کیونکہ وہی رحیم کریم ہیںاور  کن فکین کے مالک ہیں۔ اللہ پاک سے دعاگو ہیں کہ وہ  ہماری تمام عبادتوں اور نیکیوں کو  اپنے درگاہ میں قبول فرمائے اور اس با برکت مہینے کے طفیل عالم بشریت کو اس کرونا وائرس سے نجات دلا دے۔آمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button