کالمز

سائنس اور ہماری دنیا

تحریر: محبوب حسین

سائنس ایک ایسا علم نہیں، جس کا تعلق دوسرے علوم کے ساتھ نہ ہو، یہ کوئی بن ماں یا باب کی اولاد نہیں ہے، بلکہ اسکا تو پورا شجرہ نسب موجود ہے اور اسے تھوڑے بہت اختلاف کے ساتھ باربار دہرایا بھی جا سکتا ہے، اگر چہ نیچے سے اوپر کی طرف جائیں، یعنی حال سے ماضی کی طرف سفر کریں تو جوں جوں ہم جدا امجد کی طرف بڑھتے ہیں نام غیر واضح ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور اگر ان ناموں کو واضح کرنے کی کوشش کی جائے تو کھلتا ہے کہ یہ تو جانے پہچانے نام ہیں۔اس میں یونانی، چینی، ہندوستانی اور اسلامی ناموں کے علاوہ بھی کچھ نام آتے ہیں مگر خاص طور پر سائنس کے حوالے سے یونانی اور اسلامی ناموں کو ہی زیادہ اہمیت حاصل ہے۔

جارج سارٹن نے George Sarton نے سائنس کی یادگار پانچ جلدوں میں لکھی ہے، اسکی پہلی اور تیسری جلد کا ترجمہ اردو میں ہو چکا ہے اور اسے امتیاز علی تاج صاحب کے زمانے میں مجلس ترقی ادب لاہور نے شائع کیا تھا۔ اور اس میں کچھ یوں لکھا ہوا ہے کہ سائنس کی تاریخ کو بیان کرنے کے لیے اصول یہ واضح کیا گیا تھا کہ سائنس کو چھوٹے چھوٹے ادوار میں تقسیم کر دیا گیا، ہر عہد نصف سنچری پر مشتمل تھا، پھر ہر نصف صدی کے ساتھ کسی ایک سائنسی کا تلازمہ بنادیا گیا۔ جس کا مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ متعلقہ شخصیت نے سائنس کو آگے بڑھانے میں کوئی نہ کوئی غیر معمولی خدمت انجام دی تھی۔ چنانچہ یہ تاریخ اپنی موجودہ شکل میں 900 قبل مسیح سے شروع ہوتی ہے اور بارہویں صدی عیسوی تک آتی ہے۔یہ وہ زمانہ ہے جب سائنس کی ترقی کی زمام اہل مغرب کے ہاتھوں میں جانی شروع ہوجاتی ہے اور اسکا تعلق پوری مغرب ہی سے شروع ہوجاتا ہے، 450 سے 400 قبل مسیح کو سارٹن، افلاطون کا عہد قرار دیتا ہے، اسکے بعد آدھی صدی ارسطو کی آتی ہے پھر اقلیدس Euclid کی پھر ارشمدس Aarchimedas  وغیرہ کی۔ اس کے بعد چینی صدی ہے، ستان سانگ Hsitan Tsang اور آئی چنگ IChing کی اور 750 عیسوی سے لے کر 1100 عیسوی تک ساڑھے تین سو سال ایک مسلسل اور نہ ٹوٹنے والے عہد کی کڑیاں ہیں، یعنی ‘جابر ابن حیان’ خوارزمی’ رازی’ المعسودی’ ابوالوفا’ البیرونی، ابن سینا، ابن الھیشم، اور عمر خیام یہ سبھی شخصیتیں مسلمان تھیں مگر ان کا تعلق دنیا کے مختلف جغرافیائی خطوط سے تھا یہ عرب، ترک، افغان اور ایرانی تھے، یعنی یہ اس وقت کی اسلامی دولت مشترکہ کے افراد تھے۔ انکے بعد سارٹن کی تاریخ میں پہلی بار کوئی مغربی نام ظاہر ہوتا ہے، گیراٹ آف کریمونا Gerard of Cremonaپھر راجر بیکن Roger Bacon مگر اسکے بعد اڑھائی سو برس تک یہ اعزاز تقسیم ہوتے رہتے ہیں، ان میں ایسے نام آتے ہیں جن میں ابن رشید، نصیرالدین توسی، اور ابن نفیس شامل ہیں، ابن نفیس وہ شخصیت ہے جس نے ہاروے  Harvey کے نظریے سے پہلے خون کی گردش کا زکر کیا تھا، یہ الگ بات ہے کہ اس کا کریڈٹ اب صرف ہاروے کو ہی دیا جاتا ہے۔

اہل مغرب کے ہاں یہ رجحان موجود تھا کہ وہ ہر چیز کا آغاز مغرب ہی سے کرتے ہیں، یونان کا اس قدر ذکر بھی اسلیے کیا جاتا ہے کہ وہ بھی مغرب ہی میں شمار ہوتا ہے، حالانکہ عملی طور پر یونان اور خاص طور ہر تاریخی یونان میں وہ علاقے بھی شمامل تھے جو اب مشرق کےبہت قریب ہیں، اگر اس تقسیم کو شمال اور جنوب کے حوالے سے دیکھا جائے تو یونان کو شمال میں شمار نہیں کیا جاتا، بہت سے مشرقی ممالک کی طرح وہ بھی ایک ترقی پذیر ملک ہے جو ترقی یافتہ ہونے کی کوشش کر رہا ہے اور چند برس پہلے ہی اس نے بعض ایسے اداروں کا رکن بننے کی کوشش کی ہے جو سائنس کی ترقی میں خصوصی کردار ادا کر رہے ہیں ۔

اگر چہ یونان کو سائنس کی ابتدائی تاریخ میں بھی خاص اہمیت حاصل ہے ۔کیونکہ یونان کی حکمت کی بنیاد ان کا استخراجی Deductive طریق کار تھا، وہ پہلے اولیات یا مسلمات Universal یا Axiom تلاش کرتے اور پھر انکی مدد سے نتائج نکالتے چلے جاتے تھے، ایک ایک چیز کا مطالعہ کرکے اس سے اصول واضح کرنا، مخصوص یونانی راویہ نہیں تھا ، اس لئے یونانی علم کی روشن استخراجی  تھی، وہ استقرائی Inductive طریق کار کو گھٹیا درجے کی شے سمجھتے تھے، انکا یہی رویہ قرون وسطی کے دوران بھی رواج پاگیا تھا، خاص طور پر مغرب کے ممالک اس سے ذرا سا انحراف کرنے کو بھی تیار نہیں تھے۔ مگر مسلمانوں نے استقرائی رویہ نہ صرف قبول کیا تھا بلکہ اسے علم کی بنیاد بنانے کی بھی کوشش کی تھی۔ یہی رویہ اب جدید سائنس کی بنیاد ہے، اس بات سے عام طور پر انکار تو نہیں کیا جاتا کہ مسلمانوں نے استقرائی رویے کو علم کی بنیاد بنایا تھا، البتہ رسل Russell  کی طرح یہ ضرورت کہا جاتا ہی کہ مسلمان سائنس دان جو مواد جمع کرتے تھے اس سے نتائج اخذ کرنے کی صلاحیت ان میں نہیں تھی، یعنی وہ سائنسی اصول واضح نہیں کرسکتے تھے۔

میں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہتا ہوں کہ یہ اعتراض درست ہے یا نہیں ، البتہ ایک بات عرض کرنا ضروری ہے کہ جو کچھ مسلمانوں نے یونان سے حاصل کیا تھا جب وہ یورپ تک پہنچا تو اسکی نوعیت تبدیل ہوچکی تھی۔ اب وہ ایک ایسی حالت میں تھا کہ اس پر جدید سائنس کی بنیاد رکھی جا سکتی تھی اور بہت حد تک رکھی جاچکی تھی۔

سپنگلرSpengler اور ٹائن بی Toynbee نے فلسفہ تاریخ میں یہ متعین کرنے کی کوشش کی تھی کہ تاریخی ادوار میں ترقی اور زوال کی نشاندہی کی جاسکتی ہے،۔

مگر یہ نظریہ بنیادی طور پر ابن خلدون نے متعارف کروایا تھا، اس وقت ہم جس دور میں سے گزر رہے ہیں، اس میں مغرب اور خصوصا امریکا اپنے کمال کی طرف سفر کرتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ مگر ہر عہد کا گراف ایک خاص مدت تک اوپر اٹھتا رہتا ہے، پھر گرنا شروع ہوجاتا ہے، اسی طرح ترقی کا یہ رجحان اپنے مقامات تبدیل کرتا رہتا ہے، اور بقول آرتھر کوسلر Arthur Kosetler انسانی تاریخ کے دوران کبھی ایک علاقے کو دبارہ عروج حاصل نہیں ہوا، عروج و زوال کی یہ کہانی عمودی بھی ہے اور افقی بھی، عمومی ان معنوں میں کہ یہ گراف بتدریج اوپر کی طرف اٹھتا ہے، ترقی کرنے والے ہر علاقے یا قوم کا ایک بچپن ہوتا ہے، جوانی ہوتی اور پھر اسکے بعد اس پر بڑھاپا آجاتا ہے، مگر مکمل طور پر موت واقع نہیں ہوتی ہے۔ جب ایک علاقہ یا قوم ترقی پذیر ہوتی ہے، تو اسی زمانے میں کوئی اور علاقہ یا قوم زوال پذیر ہوسکتے ہیں۔

انسانی تاریخ کو مجموعی طور پر ایک عمل کے حوالے سے دیکھنا ابن خلدون نے شروع کیا تھا۔ یعنی مسلمانوں کے زمانے میں دنیا بھر کے تاریخی حوالے بیک وقت مطالعے میں آئے تھے، اور دنیا سکڑنا شروع ہوگئی تھی، جو حدود و قیود وسائل کی کمی کے باعث انسانی ذہن پر عائد ہوگئی تھی وہ ٹوٹنے لگی تھی، مگر تاریخی طور پر یہ ممکن نہیں تھا کہ شمع ہمیشہ ایک ہی انجن میں رہتی ہے۔ چنانچہ یورپ نے مسلمانوں سے وہ مشعل حاصل کی، جو انہیں کئی ادوار سے گزرنے کے بعد یونانی اور دوسری تہذیبوں سے ملی تھی۔ مسلمانوں نے یونامیوں کی عظمت  کو تسلیم کیا اور انکے کام کو آگے بڑھایا، لیکن ان کے پاس چونکہ قران کی روشنی بھی تھی، لہذا انہوں نے یونانی فلسفے پر تنقیدی نظر بھی ڈالی اور دوسری اقوام کی طرح محض افلاطون یا ارسطو کے مقلد ہو کر نہ رہ گئے۔ یورپ نے اگرچہ ایک مدت تک مسلمانوں کے کام کو مشعل راہ بنائے رکھا مگر بعض مذہبی جھگڑوں کی وجہ سے انہوں نے یہ قبول کرنے سے انکار کیا کہ مسلمانوں نے قرون وسطی کے دوران کوئی قابل زکر خدمت سرانجام دی تھی۔جن جھگڑوں کو مزہبی سمجھا گیا ان کے پس منظر میں زیادہ تر دنیاوی اغراض ہی تھے، اور صلیبی جنگیں بعض مراعات حاصل کرنے کے لیے لڑے گئ تھیں۔

ترقی کی یہ جنگ ہم نے صرف سمندروں میں نہیں ہاری ، بلکہ ہم ہر عملی میدان میں شکست سے دوچار ہوئے ہیں،تاریخ کے جابر Determinism کے علاوہ اس کی وجہ فرقہ وارانہ جھگڑے بھی تھے، جو خلفا اور دلاطین کے درباروں میں راہ پا گئے تھے، اس زمانے میں اہل علم والوں کی بہت زیادہ قدر ہوتی تھی، وزرا اور امرا بھی انکی خدمت کرنا اور انکے کام کو آگے بڑھانا سعدت خیال کرتے تھے، مگر جب درباروں میں ریشہ دوانیاں شروع ہوئیں تو اس کے اثرات زندگی کے ہر شعبے میں مرتب ہوگئے۔

مسلمانوں کی عظیم سلطنت بڑہ کر رہ گئی اور ان کے درمیان نفاق نے راہ پالی، مگر سب سے زیادہ نقصان اس زمانے کی علمی تحریک کو پہنچا ، مسلمانوں نے اپنے لیے جو تحقیق اور تخلیق کی جو راہ متعین کی تھی وہ اس سے بھٹک گئے اور یوں علم کی مشعل غیر محسوس طور پر ان سے چھین گئی۔ ابن خلدون جیسے روشن دماغ دانشور کو جب یہ معلوم ہوا کہ فرانس میں ایک علمی مرکز کام کررہا ہے ، تو اسکے دل میں اس مرکز کے بارے میں جانے کی خواہش بیدار نہ ہوئی اور حیرت انگیز طور پر اس نے یہ سمجھ لیا کہ مغرب والے ہمارے علم میں کیا اظافہ کرسکتے ہیں؟ سترھویں صدی میں جب ہندوستان میں تاج محل تعمیر ہوا تھا اور اسے اب تک دنیا کے عجائبات میں شمار کیا جاتا ہے، اسی زمانے میں نیوٹن کی کتاب پرنسیپا  Principia بھی شائع ہوئی تھی، مگر یہ آخری تقابل ہے جو ہم کرسکتے ہیں۔

اس کے بعد سورج نے صرف یورپ کے علاقے میں چمکنا شروع کر دیا تھا اور ہم اپنے اندھیروں سے مطمئن ہو کر بعض مذہبی واہموں میں پناہ تلاش کرتے رہے، اس سے کچھ برس پہلے اکبر بادشاہ کے دربار میں مذہبی مباحث شروع ہوچکے تھے جن کے نتیجے میں دین الٰہی  سامنے آیا تھا مگر بوجہ وہ چل نہ سکا، صوفیا کا کردار اگرچہ قابل تحسین خیال کیا جاتا ہے مگر علم و عمل کے سلسلے میں ترقی بلکل رک گئی تھی، انگریز ہندوستان میں قدم جما چکا تھ اور اس نے یہ تہیہ کیا ہوا تھا کہ وہ کسی صورت میں بھی یہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کو پھلتے پھولتے ہوئے نہ دیکھے گا۔ وہ صنعتیں جو بنگال میں لگ چکی تھیں اور جدید ترقی کا نقطہ  آغاز ثابت ہوسکتی تھی تباہ کروادی گئی تھیں، بنگال کا علاقہ جو اس زمانے میں برصغیر کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ علاقہ تھا پسماندہ بنادیاگیا، اور اس کے بعد بنگال کو جان بوجھ کر غربت کے گھڑے میں پھینک دیا گیا، جس سے نلکنے کی جدوجہد تقسیم شدہ بنگال سے لیکر ابھی تک ہو رہی ہے اور دونوں حصوں کے درمیان اتنے مسائل پیدا کر دیے گئے ہیں کہ ان کا کوئی ممکن حل دوردور تک نظر نہیں آتا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button