کالمز

جمہوریت اور میرٹ کا قتل عام

تحریر: محبوب حسین 
پاکستان ایک جمہوری ملک ہے۔ جس میں بسنے والے شہری ووٹ کے زریعے نمائندوں کا انتخاب کرتے ہیں، اور ان نمائندوں کو منتخب کرنے کے لیے باقاعدہ الیکشن  کمپین کا انعقاد کیا جاتا ہے اور یہ منتخب نمائندے ملک میں  پانچ سال کے لیے حکمرانی کرتے ہیں۔ اس عمل میں ملک کے مختلف قسم کے نامور سیاسی پارٹیاں الیکشن میں حصہ لیتے ہیں۔ پھر ووٹ کے زریعے ان ہی نمائندوں کی مدد سے صوبائی اور قومی اسمبلی تشکیل دیا جاتا ہے۔ نیشنل اسمبلی کے منتخب نمائندے کی مدد سے نیشنل یا فیڈرل گورئمنٹ بناتے ہے۔اور صوبائی ممبران کی مدد سے صوبائی اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔
 فیڈرل اور صوبائی گورئمنٹ کیوں ضروری ہے۔ اس پہ بات خرنے سے پہلے جب ہم پاکستان کی آبادی کی بات کریں تو پاکستان آبادی کے اعتبار سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے، جسکی آبادی 2017 کی مردم شماری کے مطابق  تقریبا22 کروڑ آبادی پہ مشتمل ہیں، اور اتنے بڑے آبادی پہ حکومت بھی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اور ان میں بسنے والے شہریوں کو ایک یونٹ بنا بھی کافی مشکل ہے، اسلیے تمام صوبوں کی اپنی اپنی حکومت ہوتی ہے اور ان صوبائی حکومت کی زمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپبے صوبوں کی نگرانی کریں اور اپنے اپنے صوبوں کو خودمختار بنائے تاکہ وہ بلا جھجک کام کریں۔اور اسی طرح فیڈرل گورئمنٹ کا بھی یہ فرض بنتا ہے کہ وہ بلا امتیاز تمام صوبوں کی نگرانی کریں اور ان کے حقوق انکے آبادی کے مطابق مہیا کریں۔ اسی طرح تمام صوبائی حکومتیں وفاقی حکومت کے زیر کنٹرول آجاتے ہیں اور وفاقی حکومت ان صوبائی حکومت پہ نگرانی کرتی ہے۔
فیڈرل گورئمنٹ پہ یہ زمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک میں تمام تر معملات کو دیکھے جس میں معاشیت، سکیورٹی کے معاملات، کمیونیکیشن کا نظام اور دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات وغیرہ شامل ہیں۔ فیڈرل گورئمنٹ صوبائی حکومت کے تعلقات میں مداخلت نہیں کرسکتی ہے ۔
فیڑرل گورنمنٹ یہ بھی فیصلہ کرتی ہے کہ لوگوں کے پیسوں کو کہاں کہاں انوسٹ کرنی ہے۔کون کون سے منصوبے بنانے ہیں اور لوگوں سے ٹیکس کس طرح اکٹھا کرنا ہے،اور ان ٹیکس کے پیسوں کو کن کن ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ہے یہ تمام معملات وفاقی حکومت طے کرتا ہے۔
اور مختلف نوعیت کے پلان ترتیب دییے جاتے ہیں کہ کس طرح ملکی حالت کو بہتر سے بہتر بنایا جائے۔اس کے لیے مختلف نمائندوں کو مختلف قسم کے عہدے دیے جس میں ministry of defence جسکا کام سکیورٹی امور کا جائزہ لینا، اورForeign Office جس کا کام ملک کے تعلقات دوسرے ممالک کے ساتھ اور دنیا کے ساتھ مظبوط سے مظبوظ تر بنانا وزیر خزانہ جسکا کام معشیت کی بہتری کے لیے کام کرنا شامل ہے۔
فیڈرل گورئمنٹ کی ساخت کچھ اس مطابق ہے۔  نیشنل اسمبلی کو ایوان زرین lower house کہا جاتا ہے۔ نیشنل اسمبلی کے ممبرز MNAs اور صوبائی اسمبلی MPAs ووٹ کے ذریعے سنیٹ  کے ممبران منتخب کرتے ہےجس کو ایوان بلا upper House  بھی کہا جاتا ہے۔
نیشنل اسمبلی اور سینیٹ ایوان بالا کی باہمی اشتراک سے پارلیمنٹ کو تشکیل دیا جاتا ہے۔
اور جس سیاسی پارٹی نے زیادہ ووٹ لیا ہو اور اکثریت میں ہو وفاق میں انکی حکومت ہوتی ہے اور وہ اپنے وزیراعظم کو منتخب کرتے ہیں اور ملک پہ پانچ سال کے لیے حکمرانی کرتے ہیں۔ ووٹ تو بیجارے عوام سے لیتے ہیں عوام اپنی ضمیر دیکر انکو ان سیاسی نمائندوں کو اعلی عہدوں پر فائز کرتے ہیں جب کہ یہ لوگ اقتدار کے جود چک لیتے ہیں۔
گورئمنٹ کی ساخت، Functions اور Branches کی بات کریں تو، دونوں صوبائی حکومت اور وفاقی حکومت کے تین بہت ہی اہم اور بنیادی ستون  ہیں۔ ان میں The Lgegislature یا پارلیمنٹ، The Executive، اور عدلیہ Judiciary پر مشتمل ہے۔
 Legislature کا کام یہ ہے کہ ہے کہ قانون بنانا یا نیا قانون ہو یا موجودہ قانون میں تبدیلی کرنا ہو جو ضروری یو۔ فیڑرل لیول پہ قانون کی منظوری کرنا سینیٹ کا کام ہے جبکہ صوبائی سطح پہ قانون پہ عملدرآمد
کروانا یا منظوری کرنا گورنر کا کام ہوتا ہے۔Executive کا کام یہ ہے کہ وہ قانون پہ عملدرآمد کروائے اور جو قانون پارلیمنٹ نے منظور کروایا ہے اس کو ملک میں لاگو کرنا Executive کا کام ہے۔Executive میں صدر، وزیراعظم، کابینہ ممبران، پبلک اور سول سروس اسٹاف پہ مشتمل ہے۔
عدلیہ، ایک آزاد اور خودمختار عدلیہ کو جمہوریت کے بنیادی ستون کی حیثیت حاصل ہے اور عدلیہ کام ملک میں تمام شہریوں کو برابری کی بنیاد پر انصاف فراہم کرنا ہے۔
سپریم کورٹ ملک کی سب سے بڑی کورٹ ہے۔ہائی کورٹ تمام صوبوں کی اپنی اپنی علیحدہ علیحدہ ہائی کورٹس ہیں۔سیشن کورٹ ہر تحصیل لیول پہ موجود ہیں۔
اگر ہم موجودہ سیاسی حالات پہ بات کریں تو بہت مشکل ہے اس پہ پھر کبھی نظر ثانی کرتے ہے۔ لیکن یہاں بات کرنا یہ لازم ہے کہ پاکستان میں اس وقت وفاقی حکومت پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ہے جسکی سربراہی موجودہ وزیراعظم عمران خان کر رہے ہے۔ صوبوں کی بات کریں تو ان میں پاکستان کے مختلف سیاسی جماعتیں حکومت کر رہے ہیں، ان  میں پنجاب میں پاکستان تحریک انصاف، خیبرپختون خوا  کے پی کے میں پاکستان تحریک انصاف، کراچی میں پاکستان پیپلز پارٹی آزاد جموں کشمیر اور گلگت بلتستان میں مسلم لیگ نواز کی حکومت ہے۔
اب بات کرتے ہے گلگت بلتستان میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت کی تو اس جون 2020 کو انکی پانچ سالہ مدت اختتام کو پہنچتی ہے ۔ان پانچ سالوں میں نواز حکومت نے پورے گلگت بلتستان میں کن کن ترقیاتی منصوبوں کو پایہ تکمیل تاک پہنچایا اور گلگت بلتستان لیجیسلیٹیو اسمبلی GBLA  سے کن کن قانون کو پاس کیا اور کن کن حقوق کے بارے میں قانون پاس کروانے میں کامیاب ہوئے، گلگت بلتستان میں کون کونسے پروجیکٹ ان کے دور حکومت میں مکمل ہوئے اس پہ بھی اب سب کو بخوبی معلوم ہے۔ لیکن میں یہاں پہ ایک بات بتانا مناسب سمجھتا ہوں کہ نواز حکومت نے جاتے جاتے GBLA سے ایک ایکٹ پاس کر کے پانچ سالہ کارکردگی کو خیرباد کہ رہے ہے، اس ایکٹ کے تحت ون ٹائم ایکٹ جس کے تحت پورے گلگت بلتستان میں جتنے بھی سرکاری ملازمین عارضی بنیاد پر کام کر رہے تھے انکو مستقل کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور بل کو اسمبلی سے منظور کروا کے گورنر کو ارسال کیا ہے ۔ جو سیاسی جماعت یہاں پہ حکومت کرتی ہے انکا یہی کلچر رہا ہے کہ پسند، رشتہ داری تعلق اور سیاسی نزدیکی کی بنیاد پر عارضی طور پر سرکار کے مختلف اداروں میں اپنے بندوں کو برتی کرواو اور اخر باتے جاتے ان کے حق میں ایک بل نام نہاد اسمبلی سے پاس کرو، ان کو مستقل کرو۔چاہے وہ سابقہ پیپلزپارٹی کی حکومت ہو یا موجودہ مسلم نواز حفیظ سرکار کی حکومت۔
اسی طرح موجودہ حکومت نے بھی سابقہ رکارڈ کو توڑ کر ایک نیا میرٹ کا کھلم کھلا قتل کیا ہے۔ گلگت بلتستان  اسمبلی کے ممبران نے اپنے من پسند افراد کو نواز کر اقتدار کے آخری دنوں میں عارضی ملازمین کو مستقل کرکے بےروزگار افراد کے ساتھ زیادتی کا ایک اور کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ ممبران اسمبلی علاقے کے بہترمستقبل اور مفاد کےلیے آج تک کوئی  قانون سازی نہیں کر پائے ہیں, اور اس شرمندگی سے خود کو بچانے کے لیے عرصہ دراز سے چور دروازے سے آئے ہوئے عارضی ملازمین کو مستقل کرکے قانون بنانے والوں میں اپنا نام شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، آج سے پہلے بھی انہوں نے کوئی کارنامہ سرانجام نہیں دیا ہے صرف اقتدار میں آتے ہیں اور اپنے من پسند لوگوں کو سرکاری نوکریوں کا تحفہ اور ٹھیکے رشتہ داری کے بنیاد پر تقسیم کر کے اقتدار کے مزے چک لیتے ہیں۔
 اس اسمبلی کے ممبران ہر پانچ سال بعد  اپنے رشتہ داروں،عزیزوں اور تعلق داروں کو نوازنے کے لیے قانون سازی کا ڈرامہ کرکے میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے ہیں۔
اس نا انصافی،ناجائز،مفاد پرستانہ قانون سازی کی وجہ سے گلگت بلتستان کے ہزاروں اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان روزگار کےلیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
اس لیے پاکستان سپریم کورٹ، میرٹ کی بات کرنے والے ہمارے ملک کے وزیراعظم عمران خان اور ہائی کورٹ گلگت بلتستان کے چیف جسٹس جناب حق نواز سے اپیل ہے کہ اس معاملے کا نوٹس لے کر اس  قانون کو کالعدم قرار دے دیں۔ کیونکہ اس سے پہلے کی حکومت نے بھی یہی کارنامہ سرانجام دیا تھا جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے اعلی تعلیم یافتہ اور سند یافتہ نوجوان طبقہ ڈگریاں ہاتھ میں لیے دربدر پھر رہے ہیں۔ اور میرٹ کا قتل عام روکا جائے۔
Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button