کالمز

ہزاروں سال کی بوڑھی یہ دنیا – کھا گئی نوجوان کیسے کیسے

تحریر : زین الملوک

نوے کے عشرے کے اواخر کا کوئی سال تھا۔  کچھ ناسازیٔ طبیعت کی بنا پر میں سپلائی ایریا ابیٹ آباد میں اپنی رہائش گاہ کے قریب رحمت میمورئیل ہسپتال سے منسلک ایک میڈیکل اِسٹور جا پہنچا اور کچھ ضروری ادویات خریدنے کا آرڈر دے دیا۔ ادویہ ایک چھوٹی سی تھیلی میں بند کرکے میری طرف بڑھا دیا گیا اور اُن کی قیمت بتائی گئی ۔ یہی کوئی چالیس روپے کے قریب رقم۔ پیسے دینے کے لیے جیبیں ٹَٹولیں تو انکشاف ہُوا کہ بٹوہ ندارد۔ میں نے مارے ندامت کے وہ تھیلی واپس کردی۔ میڈیکل اِسٹور والے نے پُوچھا: ’’ کیا ہوگیا بھائی؟‘‘۔ میں نے کہا: ’’ پیسے لانا بھول گیا ہوں۔‘‘ اُنھوں نے دریافت کیا: ’’ گلگتی ہو؟‘‘ میں نے چُھوٹتے ہی جواب دیا: ’’ نہیں، چترال سے ہوں۔‘‘ اُنھوں نے تھیلی مجھے پکڑاتے ہوئے کہا: ’’ مہ جان! خیر شیر۔ پیسے بعد میں دے دینا۔‘‘ میں حیرت سے اُنھیں تکنے لگا تو فرمایا: ’’ ناچیز کو عادل غیاث کہتے ہیں اور میں گلگتی ہوں۔‘‘ اُس ناگہانی ملاقات اور گفتگو کے بعد ہماری جان پہچان شروع ہوگئی جو بعد میں دوستی میں تبدیل ہوگئی۔ کچھ عرصہ بعد عادل غیاث منظر سے غائب ہوگئے۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ گلگت گئے ہوئے ہیں اور واپسی کا کچھ پتہ نہیں، اور واپسی ہوئی بھی نہیں۔

زندگی کی گاڑی آگے چلتی رہی اور اپریل 2004 میں میں نے بھی ایبٹ آباد کو 14 سال قیام کرنے کے بعد خیرباد کہہ دیا اور آغا خان ہائیر سیکنڈری اسکول (اے کے ایچ ایس ایس)، گلگت سے درس و تدریس کے پیشے میں قدم رکھا۔ کچھ دنوں بعد گلگت بازار میں ایک دفعہ میں نے عادل غیاث کو ایک گاڑی کی اگلی نشست میں براجمان دیکھا۔ مگر افسوس! گاڑی تیز رفتاری سے آگے نکل گئی اور ہماری ملاقات نہ ہوسکی۔دل میں ایک آرزو اور امید نے انگڑائی لی کہ گلگت میں رہے تو ان شا اللہ اُن سے ضرور ملاقات ہوگی۔

کچھ عرصے بعد میرا تبادلہ اے کے ایچ ایس ایس، گاہکوچ میں ہوگیا۔ گاہکوچ میں پہلے دن ہی بازار میں اچانک اُن سے ملاقات ہوگئی اور اُس وقت ہم دونوں کی خوشی دیدنی تھی۔ میں نے اُن سے پُوچھا: ’’ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟‘‘ اُنھوں نے کہا: ’’ بھائی! میں تو آپ کو اپنے علاقے میں خوش آمدید کہنے کے لیے یہاں حاضر ہوا ہوں۔ آپ بتائیے، آپ یہاں کیسے؟‘‘ میں نے جب اپنا بتا دیا تو بہت خُوش ہوئے اور فرمایا کہ ہمارے اسکول سے اُن کی بہت ساری امیدیں اور توقعات وابستہ ہیں اور وہ امید کرتے ہیں کہ ہم لوگ اُسے ایک مثالی ادارہ بنائیں گے۔ عادل غیاث نے اپنے بارے میں بتایا کہ وہ صحافت کے ساتھ ساتھ چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں۔ اپنے گھر اور دفتر کے فون نمبرز (اُس وقت جی بی میں موبائل نہیں آیا تھا) دے کر مجھے اپنے علاقے میں ہر طرح کے اخلاقی ، مادی اور گھریلو سَپورٹ کی یقین دہانی کروائی۔

اُس کے بعد ہمارے مابین ملاقاتوں اور رابطوں کا سلسلہ چل نکلا۔ ہمارے ادارے کے کئی پروگراموں میں آکے بہترین رپورٹنگ کی اور اِس کے علاوہ اپنے کئی پروگراموں مجھے شرکت کی دعوت دی۔ کچھ میں میں شریک ہوسکا اور زیادہ تر میں میں نہ جا سکا ۔ اپنے پروگرام کے اختتام پر اکثر مجھ سے ناقدانہ فیڈ بیک کا تقاضا کرتے تھےاور میری رائے کا بے حد احترام کرتے تھے۔ کچھ مقامات پر وہ بہتری لانے کا وعدہ کرتے تھے اور کچھ الفاظ کی ادائی کے حوالے سے جَھٹ سے کہتے تھے کہ یہ ٹیڑھی کھیر ہے جو اُن سے نہیں نگلی جائے گی۔

میں نے عادل غیاث کے ساتھ مل کر گاہکوچ میں کافی پروگراموں میں تقریری مقابلوں میں جج کے فرائض انجام دیے اور اُن کی کمپنی اور زیرک مزاجی کے مزے لُوٹے۔ عادل غیاث مجھے اپنے ساتھ اسٹیج سیکریٹری کے فرائض نبھانے کی اکثر دعوت دیتے تھے اور میں اکثر ٹالتا رہتا تھا۔ ہزار جتن کرنے کے بعد آخر کار اُنھوں نے شکست تسلیم کرلی اور میں نے اپنا دامن بچالیا۔ اب جب سوچتا ہوں تو اُن کی باتیں اور نصیحتیں بہت یاد آتی ہیں کہ: ’’ زین صاحب! آپ کی اردو اچھی ہے۔ آپ اسٹیج اچھا سنبھال سکتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ آپ سیکھتے جائیں گے اور ایک دن آئے گا کہ آپ منجھے ہوئے فن کار بن جائیں گے۔‘‘ مگر میں نے ایک بہترین استاد اور بے شمار مواقع کے ہوتے ہوئے سیکھنے کا مفت اور سنہری موقع ضائع کردیا، جس کا اب مجھے بے حد افسوس ہو رہا ہے۔

عادل غیاث چترالی ثقافت ،موسیقی اور فن کاروں کے بڑے قدر دان تھے۔ منصور علی شباب کو 2005 میں اُنھوں نے ہاشم صاحب کے ساتھ مل کر گاہکوچ مدعو کیا تھا اور گلگت بلتستان کے تمام فن کاروں کے ساتھ اپنے فن کا مظاہرہ کرنے کا موقع دیا تھا۔ اس پروگرام کے بعد اُنھوں نے منصور کے ساتھ ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں الگ سے ایک شان دار پروگرام کا انعقاد کیا تھا جس کا چرچا ابھی تک علاقے میں پایا جاتا ہے۔آپ اکثر مجھ سے کھوار محافلِ موسیقی کی سی ڈیز مانگ کر لے جایا کرتے تھے اور پرائم کیبل نیٹ ورک سے بلا ناغہ نشر کروایا کرتے تھے۔ گاہکوچ میں چترال کی کھوار موسیقی کو مستقل جگہ مہیا کرنے میں عادل غیاث اور امتیاز کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔

2010 میں جب میں اے کے ایچ ایس ایس ، گاہکوچ کا پرنسپل بنا تو میرے لیے پھولوں کا گل دستہ لے کر آئے اور میری کامیابیوں کے لیے ڈھیر ساری دعائیں کیں۔ مجھ سے اسکول کے مسائل اور اُن کے حل کے حوالے سے تفصیلی گفتگو کی اور ضرورت پڑنے پر ہر طرح کی مدد کی یقین دہانی کروائی۔ اُسی سال ہم نے اسکول میں Annual Day کا انعقاد کیا جس میں اُس وقت کے گلگت بلتستان کے قائم مقام گورنر وزیر بیگ صاحب نے بہ طورِ مہمان خصوصی شرکت کی تھی۔پروگرام شان دار تھا۔ ہر طرف سے خُوب پذیرائی ملی اور عادل غیاث نے دوسرے صحافیوں کے ساتھ مل کر مختلف اخبارات اور نیوز چینلز میں اس پروگرام کے بارے میں خاطر خواہ کوریج دینے میں بہترین کردار ادا کیا۔

آپ اکثر فون کرکے مجھے سے پوچھتے تھے کہ کچھ نادار اور مستحق بچوں کی فیس کی ادائی میں وہ چُپ چاپ حصہ ڈالنا چاہتے ہیں۔ میں اکثر نفی میں جواب دیتا تھا۔ تاہم دو یتیم بچے اُنھوں نے اَز خود منتخب کیے اور 2014 (میرے اسکول میں قیام تک) تک باقاعدگی سے اُن بچوں کی فیسیں پیشگی بینک میں جمع کروا کے فیس سلپ مجھے بھیجواتے رہے۔ اُن کی تاکید یہ تھی کہ اس کارِ خیر کے بارے میں کسی کو کچھ نہ بتایا جائے۔ میں نے بھی آج تک اپنے وعدے کی پاس داری کی تھی اور اب نہ جانے کیوں اس کے بارے میں آگاہ کر رہا ہوں۔ کچھ لوگوں کو اُن سے فضول کی خار تھی اور وہ ایسے لوگوں کی باتیں ایک کان سے سُن کر دوسرے کان سے نکال دیا کرتے تھے اور نیکی کا کام برابر جاری رکھتے تھے۔ وہ کہتے تھے: ’’ ایسے لوگوں کی سطح پر گرنے کے لیے اُن کے پاس وقت نہیں ہے۔‘‘

اُن کے پاس واقعی میں فضول کاموں اور لغو باتوں کے لیے وقت نہیں ہوتا تھا۔ وہ بہ یک وقت صحافی، تاجر، کھلاڑی، اسٹیج آرٹسٹ، سماجی ، سیاسی اور مذہبی شخصیت کے مالک تھے۔ وہ زکواۃ کمیٹی کے رکن بھی تھے اور اس فورم سے بھی بے تحاشہ لوگوں کی مدد کیا کرتے تھے۔ عادل غیاث ضلع غذر کے بین المسالکی ہم آہنگی کمیٹی کے بھی فعال اور اہم رکن تھے۔ اُن کی کاوشوں سے ہی ضلع غذر میں اسلام کے تین مسالک سے تعلق رکھنے والے لوگ انتہائی ہم آہنگی ، اُخوّت، بھائی چارے اور امن کے ساتھ رہ رہے ہیں۔معاشرے میں بہ یک وقت کئی کردار بہ خوبی نبھاتے ہوئے آپ اعتراضات، غم و غصہ، نفرت انگیز سوالات اور شدید تنقید کی زَد میں رہتے تھے۔ تاہم ایسے حالات میں بھی آپ نے کبھی بھی صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا۔ انتہائی خوش اخلاقی اور ٹھنڈے مزاج سے تنقید کا سامنا کرتے اور نہایت مدّلل انداز میں اپنے مخالفین کو قائل کرتے کہ اصل حقائق کیا ہیں۔ اُن کی انتہائی بے وقت رحلت سے جو خلا پیدا ہوا ہے اُسے پُر ہونے میں بہت وقت لگے گا۔

عادل غیاث فٹ بال، کرکٹ، والی بال، بیڈمینٹن اور ٹیبل ٹینس کے بہترین کھلاڑی تھے۔ مجھے اُن کے ساتھ غذر پبلک اسکول اور ڈسٹرکٹ کونسل ہال میں متعدد بار بیڈمینٹن کھیلنے کا اتفاق ہوا۔ بہ ظاہر موٹے نظر آنے والے عادل غیاث دراصل بہت پُھرتیلے اور شاطر کھلاڑی تھے۔ بیڈمینٹن کھیلنے کےلیے اُن کی ٹیکنِیک اور اُن کا stamina نہایت مثالی تھا۔ مخالف کھلاڑیوں کی کمزوریوں کو وہ فوراً بھانپ لیتے تھےاور اکثر اُن کی کمزوریوں کے ساتھ کھیل کر اُنھیں تھکا دیتے، فراسٹریٹ کرتے اور آخر کار اُنھیں زیر کرتے۔اُن کے ساتھ کھیلنے سے نہ صرف میرے کھیل میں نکھار آتا تھا بلکہ اسی بہانے ضلع غذر کے ڈی سی، ایس پی اور دوسرے اعلیٰ افسران سے بھی میری جلدی دوستی ہو جایا کرتی تھی اور ضرورت پڑنے پر وہ میری مدد کیا کرتے تھے۔

تقریباً چھے سات ماہ قبل اسماعیلی نیشنل کونسل اور اے کے ڈی این نے مل کر گلگت بلتستان اور چترال کے صحافیوں کو پاکستان بھر میں اے کے ڈی این کے مختلف اداروں کا تعارفی دورہ کروایا۔ اس گروہ کے ساتھ عادل غیاث بھی کراچی تشریف لائے تھے۔ اُن سے ملاقات اور اُن کے سوالات سے محظوظ ہوئے۔اس سال گرمیوں کی چھٹیوں میں فیملی سمیت گاہکوچ چکر لگانے کا وعدہ لے کر چلے گیے تھے لیکن مجھے کیا علم تھا کہ یہ ہماری آخری ملاقات ہوگی۔ ابھی تین روز قبل ہی میں نے اُن کو فیس بُک میسینجر پر یہ پیغام بھیجا تھا: ’’ نا پائی جان، پہلے تے اے دسو کہ جنم دن دی مبارک باد دیواں یا عید مبارک کہہ دیواں؟ چلو چھڈو، دونوں ہی مبارکاں ہویں‘‘۔ ابھی اُن کے مخصوص انداز میں جواب کا منتظر تھا کہ آج فیس ہی کے ذریعے اُن کی وفات کا سُن کر دل چھلنی ہوگیا۔

عادل غیاث کسی ایک گھر کا بیٹا نہیں بلکہ وہ پورے گلگت بلتستان کا اثاثہ تھے۔ اُن کے یوں جانے سے بہت سارے کام ادھورے رہ جائیں گے اور کسی دوسرے عادل غیاث کو develop ہونے میں کئی عشرے لگیں گے۔ بنا کسی اسکول میں پڑھائے وہ بے شمار لوگوں کے استاد تھے۔ افسوس ایسا ہیرا ہم سے روٹھ گیا۔ اب میرے فیس بک پہ شئیر کیے گیے اشعار پہ برجستہ مماثل اشعار کون چسپاں کرے گا۔

اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے اور اُنھیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے اور خاندان کے جتنے پسماندہ گان ہیں اُنھیں صبرِ جمیل عطا فرمائے، آمین۔

تعویذ نما ہوتے ہیں کچھ لوگ
گلے ملتے ہیں تو شفا ملتی ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button