اہم ترین

"کواردو کراس” مسیحی صلیب ہے یا کچھ اور؟ بلتستان یونیورسٹی میں "دریافت” کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد

سکردو: بلتستان یونیورسٹی اورسائبان پاکستان کے "تحت تنوع میں وحدت: امن ، ہم آہنگی اور ثقافتی ورثے” کے عنوان پربلتستان کواردو        دریافت شدہ قدیم کراس پر علمی گفتگو کے لیے سیمینار منعقد ہوا، جس میں پاکستان کرسچن چرچ کے نمائندے فادر گلشن برکت اور میڈیم جنیفر کرسٹین نے شرکت کی اور مقالے پیش کیے۔ سمینار کی خیر مقدمی اور تعارفی کلمات پیش کرتے ہوئے بلتستان یونیورسٹی کے اعزازی پروفیسر ایمریٹس پروفیسر محمد یوسف حسین آبادی نے بلتستان کی تاریخ پر روشنی ڈالی اور اس خطے میں مختلف تہذیبوں کی موجود گی ، ان کے آثار اور عروج و زوال پر اہم تاریخی شواہد سے سامعین کو آگاہ کیا۔ پروفیسر حسین آبادی نے کہا کہ بلتستان میں قبل از اسلام  بدھ مت، بون مت، ہندو ازم، زرتشتی جین مت وغیرہ کے آثار ملتے ہیں۔ اگرچہ دو سو سال سے پہلے اس خطے میں مسیحی آبادی کی موجودگی کے بارے میں تاریخ خاموش ہے، تاہم کواردومیں دریافت شدہ کراس کے مسیحی صلیب ہونے کے کافی امکانات موجود ہیں۔

میڈیم جنیفر کرسٹین چیف ایکزیکٹیوکرسچن سٹڈی سنٹر راولپنڈی نے بلتستان یونیورسٹی کو کواردو کراس کی دریافت  اور اس کو متعارف کرنے پر خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ یہ تاریخی ورثہ اہل بلتستان کے لیے ایک غیر معمولی آثار قدیمہ ہے۔ اس کی اصل نوعیت پر تحقیق ہوگی تاہم اس کراس کی دریافت نے بلتستان یونیورسٹی، بلتستان اور پاکستان کے لیے غیر معمولی امکانات کے درواز ے کھول دیئے ہیں۔ تعلیم کا کام ہی پوشیدہ رازوں کا انکشاف ہے۔  تحقیق، سیاحت، تعلیمی سرگرمیوں میں شراکت داری اور دیگر بہت سے امکانات نے یونیورسٹی کے دروازے پر دستک دی ہے۔ بلتستان کی پر امن اور تکثیرت پسند عوام کے تعاون سے ان آثار پر تحقیق کو مزید آگے بڑھانے میں مدد ملے گی۔

اس موقع پر اپنا پر مغز تحقیق مقالہ پیش کرتے ہوئے، کاتھولک انسٹیٹیوٹ آف تھیا لوجی کراچی کے استاد اورنمائندے فادر گلشن برکت نے کہا  کہ کواردو کی مقام پر دریافت ہونے والی ” صلیب” پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ مکمل یقین کے ساتھ  کسی نتیجے پر پہنچا جا سکے کہ کیا واقعی یہ مسیحی صلیب ہے؟ اس ضمن میں یورپی اور امریکی آثارِ قدیمہ کے ماہرین، تاریخِ کلیسیاکے مؤرخین اور خصوصی طور پر دنیا بھر میں پاپائی یونیورسٹیوں  کے ماہرین بلتستان یونیورسٹی کے ساتھ تعاون کرتے ہوئےپوشیدہ تاریخی رازوں سے پردہ اٹھائیں۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بلتستان کے شمال اور مغرب میں مسیحی مذھب موجود تھا سلطنتِ فارس اور شمال میں سجستان اور ترکستان، کاشغر اور قدیم مرو میں بڑی تعداد میں مسیحی بستے تھے۔ ممکن ہے کہ مسیحی مبلغین کواردو وادی میں مسیحیت کا پیغام لے کر آئے ہوں۔ "صلیب” کی ساخت اور بناوٹ مسیحی صلیب سے مماثلت رکھتی ہے اس صلیب کا عمودی طور پر نچلا حصہ ٹوٹا ہوا ہے۔ اگر کچھ حصے کو ساتھ ملا دیا جائے تو لاطینی صلیب بن جاتی ہے۔ عموماً صلیب کے نچلے حصے پر بائبل مقدس کی کوئی نہ کوئی آیت تحریر ہوتی ہے چونکہ ہمارے پاس ٹوٹا ہوا حصہ نہیں ہے اس لیے اس موقع پر کسی حتمی نتیجے پر پہنچنا ممکن نہیں ۔

ضلع گانچھے دُم سُم میں موجود حجری نشان سے بھی اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ مسیحی مبلغین کا ادھر سے گزر ہوا ہوگا۔   سمینار کے اختتامی کلمات ادا کرتے ہوئے بلتستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفسیر ڈاکٹر محمد نعیم خان نے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ کواردو کراس کی دریافت پر ملکی اور بین الاقوامی میڈیا میں غیر معمولی پذیرائی اس تاریخی ورثے کی اہمیت کا پتہ دیتی ہے۔ پاکستان کیتھالک انسٹیٹیوٹ کےوفد کا دورہ  اس کراس پر تحقیق کے لیےبارش کا پہلا قطرہ ہے۔ بلتستان قدیم تہذیبوں کی ایک قدرتی عجائب گھر ہے۔ہم امید کرتے ہیں کہ یورپی، امریکی اور دیگرممالک کے ماہرینِ آثارِ قدیمہ،مسیحی تاریخ دانوں اورمحققین ‘کواردو کراس’ سمیت بلتستان کی دیگر تہذیبی آثار پر تحقیق اور ان کو منکشف کرنے میں بلتستا ن یونیورسٹی کے ساتھ تعاون کرے گی۔ بلتستان یونیورسٹی ہر قسم کی تحقیق کے لیے بطور ایک بیش کیمپ میزبانی کے کے لیے تیار ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button