کالمز

کورونا کا نہیں، پہلے محکمہ صحت کا علاج کرو

تحریر: اسرارالدین اسرار

آپ گلگت شہر میں یا گلگت بلتستان کے کسی بھی ٹاٶن ، دیہات یا گاٶں میں رہتے ہیں اور خدا نخواستہ آپ میں کورونا کی علامات اچانک ظاہر ہونا شروع ہوجاٸیں تو ظاہری بات ہے آپ اپنے کسی بھی قریبی ڈاکٹر سے رجوع کریں گے۔ وہ ڈاکٹر آپ کے ساتھ کیا سلوک کرے گا اس پر پوری کتاب لکھی جاسکتی ہے۔ لیکن، ہم اگر فرض کریں کہ وہ ڈاکٹر فرض شناس ہے اورآپ کو کورونا ٹسٹ کرانے کا مشورہ دیتا ہے تو پھر یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کے ساتھ اس کے بعد محکمہ صحت کاکیا سلوک ہوگا ؟

آپ کو سب سے پہلے یہ معلوم کرنے میں ایک پورا دن لگ جاۓ گا کہ یہ کورونا ٹسٹ ہوتا کہا ں سے ہے۔ جب آپ کو معلوم ہوجاۓ کہ آپ کے متعلقہ ضلع میں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی زیر نگرانی ٹیم پہلے ایک لسٹ میں آپ کا نام درج کرتی ہے اور اس کے بعد اگلے دن آپ کے گھرآکرسیمپل لے جاتی ہے تو اب آپ نے اس پراسس کو فالو کرنا ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ بس اس سے آگے آپ کی اصل مشکل شروع ہونے والی ہے۔ کیونکہ ایک طرف آپ بیماری کی وجہ سے تکلیف میں ہیں دوسری طرف آپ کو محکمہ ہیلتھ جیسے عجیب و غریب ادارے سے واسطہ پڑنے والا ہے۔

اب پہلے مرحلے میں آپ اپنا نام کورونا کی ٹسٹ والی لسٹ میں ڈالوانے کے لۓ تگ و دو شروع کریں گے۔ آپ کو معلوم ہوجاۓ گا کہ یہ کام تو کسی بڑی سفارش کے بغیر ممکن نہیں ہے چانچہ آپ اپنے جاننے والے تمام احباب اور رشتہ داروں سے رابطے شروع کریں گے۔ اگر آپ بہت با اثر ہیں تو آپ کا نام ایک دن میں لسٹ میں شامل ہو جاۓ گا ۔ آپ درمیانہ درجے کے با اثر ہیں تو اس مقدس لسٹ میں نام شامل کرانے میں دو دن لگ سکتے ہیں اور اگر آپ کی کہیں سے بھی سفارش کا امکان نہیں تو بہت ممکن ہے کہ آپ کا نام کھبی بھی اس لسٹ میں شامل ہی نہیں ہوسکے گا یا کم از کم پانچ دن بعد ہوسکتا ہے کہ محکمہ صحت کے کسی اہلکار کو آپ پر ترس آجاۓ تو آپ کا نام اس لسٹ میں شامل ہوجاۓ گا۔ یہ لسٹ چونکہ ایک دن پہلے بنتی ہے اسی لۓ خوش قسمتی سے اگر آپ کا نام کورونا کے سیمپل جمع کرنے والی ٹیم کی لسٹ میں شامل ہوگیا تو اگلے دن ٹیم آپ کے گھر آجا ۓ گی۔ مگر یہاں بھی سو فیصد کنفرم نہیں ہے کہ وہ ٹیم اگلے دن آپ کے گھر آۓ گی یا نہیں۔ اگر آپ با اثر نہیں ہیں اور بار بار محکمہ صحت کے بڑوں کے ساتھ رابطہ میں نہیں تو سیمپل جمع کرنے والی ٹیم آپ سے رابطہ کیے بغیر اپنے بڑوں کو یہ رپورٹ دے سکتی ہے کہ ہم نے فون کیا تھا لسٹ میں شامل شخص کا فون نمبر بند جا رہا تھا۔ اس رپورٹ کے اوپر جاتے ہی آپ کا نام لسٹ سے خارج کیا جاۓ گا اور آپ کی جگہ کسی بااثر شخص کا نام شامل کیا جاۓ گا اور آپ سیمپل جمع کرنے والی ٹیم کے انتظار میں اپنا ایک قیمتی دن مزید ضاٸع کرنے کے بعد محکمہ صحت سے رابطہ کریں گے تو آپ کو بتایا جاۓ گا کہ آپ کا نمبر کل بند جارہا تھا اس لۓ لسٹ سے آپ کا نام خارج کر دیا گیا ہے۔ لہذا آپ ڈی ایچ او سے دوبارہ رابطہ کر کے اپنا نام شامل کرواسکتے ہیں۔ اِدھر آپ کی بیماری تکلیف دیتی رہے گی اور اُدھر محکمہ صحت کا رویہ آپ کو مسلسل تکلیف دیتا رہے گا۔ گھبرانا نہیں ہے۔

اسی کشمکش میں تین سے چار دن لگ جاٸیں گے ۔ اگر آپ کی قسمت اچھی ہے تو جس دن آپ کا سیمپل لیا جاۓ گا آپ خوشی سے پھولے نہیں سماٸیں گے۔ مگر آپ کو کیا معلوم ایک کڑا امتحان ابھی اور بھی باقی ہے جو اعصاب شکن ہونے کے علاوہ آپ کے لۓ جان لیوا بھی ہوسکتا ہے۔ کیونکہ تب تک آپ کی بیماری اپنے عروج تک پہنچ چکی ہوگی۔

وہ امتحان کورونا کے ٹسٹ کے رزلٹ کا طویل انتظار کرنے کاہے ۔ اگر آپ کے پاس افرادی قوت موجود ہے تو آپ اپنے ٹسٹ کے رزلٹ کے لۓ ایک بندے کی ڈیوٹی لگا دیں گے جو صبح سے شام تک ڈی ایچ او آفس کے باہر بیٹھ کر رزلٹ کا انتظار کرے گا ۔ اگر آپ کے پاس افرادی قوت کی کمی ہے تو آپ سیمپل لے جانے کے اگلے دن سے رزلٹ کے لۓ فون پر رابطے شروع کریں گے۔ ہر رابطہ کے دوران آپ کو مختلف معلومات ملیں گی۔بعض حضرات آپ کو چوبیس گھنٹے کا انتظار کرنے کا کہیں گے بعض دو اور بعض چار دنوں کا۔ یوں آپ اپنے کورونا ٹسٹ کے رزلٹ کے لۓ پورے چار دن انتظار کریں گے۔ آپ اس دوران سیکریٹری محکمہ صحت ، ایک دو ڈپٹی سکریٹریرز ، ڈی ایچ او، ڈی ایچ او آفس کا تمام عملہ ، متعلقہ ڈاکٹر، ہسپتال کا ایم ایس سمیت محکمہ صحت کے آدھے سے زیادہ لوگوں سے رابطہ کرچکے ہونگے اور سفارش کے لۓ ان سب کے خاندانوں کی تفصیلات بھی جمع کررکھی ہونگی۔ مگر رزلٹ ندارد۔

بے حسی کے اس نہ ختم ہونے والے سلسلے میں آپ پیناڈول کھاتے ہوۓ کسی معجزہ کی مانند ٹھیک بھی ہوسکتے ہیں یا کسی غلط ڈاکٹر کے ہتھے چڑھ کر یا سیلف میڈیکیشن کے نتیجے میں وینٹی لیٹر کی نو بت بھی آسکتی ہے۔ اس دوران کٸ دن گزر چکے ہونگے ۔ آپ کو پوری طرح نہیں معلوم ہوگا کہ آپ کو کورونا ہے یا کوٸی اور بیماری ہے۔ آپ غلط دواٸی کھانے کی وجہ سے اپنے ایمیون سسٹم (مدافعتی نظام) کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

کٸ دن گزرنے کے بعد اگر آپ کا رزلٹ مثبت آیا اور آپ ابھی تک خوش قسمتی سے زندہ ہیں تو آپ وہ رپورٹ لیکر کسی ڈاکٹر کے پاس جاٸیں گے ۔ ڈاکٹر آپ کو اپنی باتوں سے ڈرانے کے بعد آٸسولیشن میں جانے اور ایڈمٹ ہونے کا مشورہ دے گا۔ جس کو لیکر آپ ہسپتال جاٸیں گے ۔ اس ساری کاررواٸی میں آپ کا پورا ہفتہ لگ جاۓ گا۔ اب ہسپتال والے پہلی فرصت میں آٸسولیشن وارڑ کی دستیابی کے سلسلے میں آپ کو ریڈ سیگنل دیکھاٸینگے ۔ ہسپتال کا عملہ اپنے طویل لیکچر میں اچھے اچھے کھانے کھانے اور گھر والوں سے دور الگ کمرہ میں رہ کر آرام کا نیک مشورہ بھی دیں گے۔ وہ فرماٸیں گے کہ ہسپتال میں بہت سیریس مریض پڑے ہیں۔ جگہ بھی نہیں ہے ۔ وینٹی لیٹرز کی بھی کمی ہے۔ اس لۓ جب تک آخری سانس باقی ہے آپ گھر پر رہیں اور اگر سانس بند ہوگٸ تو ہمارے پاس لازمی تشریف لانا ہے۔ یہ ساری باتیں سن کر آپ مایوس گھر لوٹیں گے اور پیناڈول یا ہسپتال والوں کی تجویز کردہ کوٸی دواٸی لینے کے ساتھ کھانے پر زور دیتے ہوۓ بیٹھ جاٸیں گے۔ اگر آپ پر کورونا کا شدید حملہ نہیں تو قدرت آپ پرمہربان ہوگی آپ چند روز میں اس مشکل سے نکل جاٸیں گے اور اگر شدید حملہ ہے تو کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ آپ بااثر ہیں تو ہسپتال تک پہنچ جاٸیں گے اور وہاں آپ کے ساتھ کیا کچھ ہوگا وہ الگ کہانی ہے اور اگر آپ با اثر نہیں تو گھر پر ہی پڑے رہیں گے۔ آپ کے گھر میں صحت مند کھانا دستیاب نہیں ہے یا آٸیسولیشن کے لۓ الگ جگہ میسر نہیں ہے تو یہ محکمہ صحت کا قصور تصور نہیں ہوگا۔

نتجہ یہ نکلا کہ خدانخواستہ آپ کو کورونا ہوا تو محکمہ صحت پر بھروسہ کرکے مت بیٹھیں یہ آپ کی تکلیف کم نہیں بلکہ زیادہ کرے گا۔ اس محکمہ سے وابسطہ زیادہ تر لوگوں کو یہ تک احساس نہیں کہ ان کی غفلت سے کسی کی قیمتی جان جاسکتی ہے۔ ان کی تربیت میں شاید احساس کا عنصر شامل نہیں ہے۔ حالانکہ دنیا بھر میں صحت کے شعبہ سے وابسطہ افراد کو بیماری کے دوران مریض کی تکلیف محسوس کرنے کی خاص تربیت دی جاتی ہے۔گلگت بلتستان میں اس وقت کورونا سے پہلے محکمہ صحت کی اوور ہالنگ اور علاج کی ضرورت ہے۔ کون ہوگا جو اس محکمہ کا قبلہ درست کرے گا۔ ہر نیا  سکریٹری آجاتا ہے اور ہمت ہار کر بھاگ جاتا ہے۔ ایک سابق سیکریٹری با ضابطہ رورہا تھا اور دعا کر رہا تھا کہ میرا جلد از جلد اس محکمہ سے تبادلہ ہوجاۓ۔ ایسی حالت میں مجھ نہیں لگتا ہے کہ گلگت بلتستان کا کورونا زدہ محکمہ صحت قابل علاج ہے۔ شاید اس محکمہ پر سالانہ کروڈوں کا فنڈ خرچ اس لۓ ہوتا ہے تاکہ یہ لوگوں کی مشکلات میں یوں اضافہ کرتا رہے۔

کورونا کی مانیٹرنگ کے لۓ ایک ادارہ سابق وزیر اعلی نے بھی بنایا تھا جس کا اب کام یہ رہ گیا ہے کہ ہر شام کو کتنے مرے کتنے زندہ ہیں ، کتنے لوگوں کو کورونا ہوا اور کتنے ٹھیک ہوۓ اس کے اعدادو شمار جاری کرتا ہے اس کے علاہ اس ادارہ کے زمہ داروں کو کوٸی کام بتا ٶ تو وہ گدھے کے سر سے سینگ کی طرح غاٸب ہوجاتے ہیں۔ تاہم کورونا کے ابتداٸی دنوں میں پی پی ایچ آٸی نے نمایاں کام کیا تھا مگر محکمہ صحت اور انتظامیہ کے غلط رویے کی وجہ سے پی پی ایچ آٸی نے کورونا سے نمٹنے کی اپنی زمہ داریاں واپس کر دیں۔ اس وقت کورونا جس تیزی سے پھیل رہا ہے اس رفتار سے محکمہ صحت کی کارکردگی تنزلی کا شکار نظر آتی ہے۔ نہ تو بروقت ٹسٹ کی سہولت موجود ہے اور نہ ہی آٸسولیشن وارڑز اور ان میں وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔ کورونا کے تمام مریض خدا کے حوالے ہیں۔ گزشتہ دنوں سے گلگت بلتستان میں اموات کی شرح میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے جوکہ تشویشناک ہے۔ کورونا کے ان مشکل دنوں میں گلگت بلتستان کے عوام کا کوٸی پرسان حال نہیں ہے۔

کورونا کے دنوں میں پراٸیوٹ کلینکس میں کیا کچھ ہوتا ہے اور جعلی دواٸیوں کی کیا کہانی ہے اس کا ذکر اگلے کالم میں کریں گے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button