کالمز

رحمت للعالمین ﷺ کے پیروکار

عافیت نظر

کسی بھی اچھے معلّم کے سٹوڈنٹ یا پیروکار کیسے ہونگے؟

اچھے!

یقیناً توقع تو یہی کی جاتی ہے اور کی جانی چاہیے کہ ان کے ساتھ وابستہ افراد کی سوچ اور عمل میں اس معلّم کی کچھ نہ کچھ جھلک ہوگی۔ اور اگر ان افراد کے طرزعمل معقول نہیں ہونگے تو اس اُستاد کے بارے میں شاید لوگ اچھی آراء قائم نہیں کرینگے۔ اگرچہ اُستاد کو کلّی طور پر ان سے وابستہ لوگوں کے طرز عمل کا ذمہ دار قرار دینا مناسب نہ ہوگا۔ تاہم اُستاد کو معمار قوم کہا جاتا ہے۔ اس لیےعام طور پر لوگوں میں توقعات کا یہی رواج ہے کہ اچھے اُستاد، اچھے پیروکار۔ یہی وجہ ہے کہ ایک اچھے معلّم کی اہمیت اپنی جگہ پر مسلَّم ہے۔ ان کی اہمیت نہ ہوتی تو لوگ سیکھنے کے لیے ایسے اداروں کو ترجیح کیوں دیتے جہاں کی تعلیم معیاری اور اچھی ہو؟ اورمعیّاری تعلیم کے عمل میں معلّم کے کلیدی کردار سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔  یہ باتیں تو ہوئی ایک عام اُستاد کے بارے میں۔

لیکن سب عظیم معلّمؐ کے شاگردوں اور آپؐ سے وابسطہ افراد یا آپؐ کی پیروکاروں کی بات کی جائے تو اُن کے طور طریقوں، اندازِ فکر، عہد و پیمان، اور اخلاقی اقدار کا کیا معیار ہونا چاہیے؟ خصوصاً اخلاقی اقدار کا، جس کے بارے میں آپؐ نے فرمایا کہ: بے شک مجھے اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا۔

یہ بات قابل غور ہے کہ آپؐ رحمت للمسلمین نہیں، بلکہ رحمت للعالمینؐ ہیں۔ اور آپؐ کی رحمت کا احاطہ کائنات کی ابتداء اور انتہا سے ماورا معلوم ہوتا ہے۔ جب آپؐ کی رحمت کی وسعت کا یہ عالم ہے تو کیا آپ سے وابسطہ عوام و خواص کے اندر رحمت کے اُس پہلو کی جھلک کا نظر آنا لازمی امرنہیں ہے؟

یہ بات بلاشبہ تاریخ میں عیاں ہے کہ انسانی حقوق اور دوسرے بڑے بڑے  معیارات کےلیے اسلام  نے وسیع پیمانے پر راہنمائی کی ہے۔ جس کا اظہار غیر مسلم سکالرز نے برملا کیا ہے۔ دی اسپرٹ آف ٹالرنس اِن اسلام کے محقق رضا شاہ کاظمی نے بہت سے مغربی سکالرزمثلاً سر ہملٹن گب، برنارڈ لیوس، جان لاک اور دوسرے افراد کے اسلامی تعلیمات کی وسعت قلبی اور مسلمانوں کی طرف سے غیر مسلمانوں کے لیے رواداری کے اظہارات سے متعلق آراء اپنے تجزیہ و تحلیل کےحصّے بنائے ہیں۔ جھنیں پڑھ کر مسلمانوں کو اپنے ترکہ پر یقیناً فخر محسوس ہوگا۔

مثلاً برنارڈ لیوس کا کہنا ہے کہ:

"سترھویں صدی تک بلاشبہ مسلم حکومتوں اور عوام کا رویّہ ان لوگوں کے ساتھ جو کسی اور مذہب کو مانتے تھے، یورپ کے مقابلے میں زیادہ روادارانہ اور احترام پر مبنی تھا۔۔۔اسلامی تاریخ میں ایسی کوئی چیز نہیں جس کا موازنہ ان قتل عاموں، جلاوطنیوں، ظلم و جبر اورعواقب و سزاؤں سے کیا جائے، جو عیسائی عادتاً غیر عیسا ئیوں اور اس سے بڑھ کر ایک دوسرے پر ڈھاتے تھے۔ اسلامی ممالک میں ظلم و جبر شاذ و نادر تھا جبکہ عیسائی دنیا میں افسوسناک حد تک یہ ایک عام روش تھی۔”

مگر ماضی کے جن مسلم معاشروں کے حوالے سے ان سکالرز نے باتیں کیں ہیں، وہ معاشرے ترقی کی جانب گامزن تھے یا کم از کم اس قدرانحطاط کے شکار نہیں ہوئے تھے۔ ان کے مقابلے میں آج کے مسلم معاشرے ترقی کی بجائے تنزلی کی جانب رواں دواں ہیں۔  اور لیوس نے ماضی میں جن معاشروں میں جبر و ظلم اورناانصافیوں کی باتیں کیں وہ اب مسلمان معاشروں میں عروج پر نظر آتے ہیں۔   کیا آج کے مسلمانوں کا دوسرے مذہب کے پیروکاروں کے لیے رحمت کے پَرتو بننا ممکن ہے؟

اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں آج کے  مسلمان معاشروں کی طرف دیکھنا ہوگا۔ جہاں بدقسمتی سے سوائے چند مستثنیات کے اکثر مسلمان ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نظر آتے ہیں۔ اورآپس میں دشمنی اور مخاصمانہ رویہ نہ صرف مختلف مسلمان ممالک کے درمیان موجود ہیں، بلکہ مختلف ممالک کے اندر مختلف مسلمان مسالک ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہیں۔ سعودی، یمنی تنازعہ ہوں یا شام، عراق، افغانستان یا پاکستان کے صورتحال، مسلم معاشروں کے اندر جب مسلمان، مسلمان کے لیے باعث زحمت ہیں، تو کہاں سے رحمت للعالمینؐ کے ایسے پیروکاروں کو لائیں جو نہ صرف مسلمانوں پر بلکہ غیر مسلمانوں کے لیے بھی تھوڑا ساسہی ، باعث رحمت ہوں۔ ایسے اعلیٰ ظرف والے رحمت للعالمینؐ کے پیروکاروں کو ہم کہاں سے ڈھونڈ لائیں۔ جہاں انصاف کے منتظر ایک فرد کو یقین ہو کہ وہ رحمت للعالمینؐ کے پیروکاروں کے ملکوں میں عدالتوں سے داد رسی کے لیے اس لیے رجوع کریں گے کہ انھیں اپنے دفاع کا پورا پورا حق دیا جائیگا۔ اورانصاف کے لوازمات اور تقاضا کو پورا کیے بغیر قتل نہیں کیا جائیگا۔ کیونکہ معاشرتی انصاف رحمت للعالمیںؐ کی تعلیمات کی بنیادی تعلیمات میں سے ہیں۔ اور جب انصاف کی بات کی جاتی ہے تو کتنے ایسے بے گناہ مسلمان اپنے ناکردہ گناہوں کے سزا بھگت چکے ہیں یا بھگت رہے ہیں۔ پاکستان میں موجودہ برسر اقتدار حکمران جماعت نے نا انصافیوں کے ازالے کی خاطر اپنی جماعت کا نام تحریک انصاف رکھا۔ عمران خان اکثر اپنے تقریروں میں اس بات کا اعادہ کرتے رہے ہیں کہ: کفر کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے لیکن ظلم و ناانصافی پر مبنی حکومت قائم نہیں رہ سکتی۔ مگر عملاً پاکستان میں اب بھی ناانصافیاں اپنے عروج پر ہیں۔ اس کی تازہ مثال جج کے سامنے ہونے والے ایک ملزم کی قتل ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایسے مقتول اور نا انصافیوں کے شکار افراد اور ان کے عزیز و اقارب انصاف کے لیے فریاد کر رہے ہیں اور انھیں انصاف نہیں مل رہا۔

رحمت للعالمینؐ نے  جب صفائی اور طہارت کو نصف ایمان قرار دیے اور شیعہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق امام جعفر الصادقؑ نے اسے دین کے سات ستونوں میں سے ایک ستون قرار دیا ہے۔ تو ہونا تو یہی چاہیے کہ مسلم معاشروں میں ماحول فرحت بخش اورصاف ستھرا ہوں۔ لیکن اس کے باوجود اکثر مسلمان صفائی کے کام کو ایک قبیع عمل کے طور پر دیکھنے کے عادی ہیں۔ بدقسمتی سے رحمت للعالمینؐ کے امت کے ماحول کو خوبصورت بنانے میں کردار ادا کرنے والے بنی آدم سے محض اس بات پر نفرت کرنے کا رجحان ہے کہ وہ ہمارے محلوں اور شہروں کی طہارت بڑھانے میں اپنا حصّہ جانفشانی کے شامل کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمارا کام انجانے میں، یا جان بوجھ کر اپنے ماحول کو آلودہ اور غلاظت کے ڈھیر میں منتقل کرنے پرمرتکز ہے۔

مسلم معاشروں کی اکثریت، سب سے اعلیٰ و بالا معلّمؐ کے پیروکار، اگر آپؐ کی تعلیمات، تدّبر و تفکر، غور و فکر، تحقیق، علم و حکمت، انصاف، حلیمی، انکساری اور برداشت جیسے اوصاف سے عاری ہوں تو وہ کیسے آپؐ کے پیروکار ہوئے؟ اور اگر آپؐ کی تعلیما ت پر مسلمانوں کے عمل کا یہ معیّار ہے تو اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے ناقدین کی رائے کا کیا کیا جائے؟ ایسے کیسے ہوسکتا ہے کہ شہرِعلّمؐ کے ماننے والے جہالت کے گٹھا ٹوپ اندھیروں میں گِر گیے ہوں اور رحمت للعالمینؐ کی تعلیمات میں اس کا مداوا نہ ہو؟

مذکورہ بالا غیرمسلم سکالرز کے آراء اس جانب اشارہ ہے کہ شہرعلمؐ کی تعلیمات میں ہرمسٗلہ کا حل موجود ہے، مگراس کے لیے علماء، خواص اور عوام کو اپنے ترکہ کا از سرنو کھوج لگانا ہوگا، جس کے ذریعے وہ رحمت للعالمینؐ کے حقیقی پیروکار ہونے کے دعویٰ عملی طور پر اس کی مضمرات کو سمجھتے ہوئے کرنے کے قابل ہوسکیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے مسلم معاشروں سے ظلم و نا انصافیوں اور دوسرے بہت سے مسائل کا حل ڈھونڈنے کے لیے معیاری تعلیم اورتحقیق کی روایات کو فروغ دے کر مسلم معاشروں کا رخ ترقی کی جانب گامزن کیا جاسکتا ہے۔

عافیت نظر ایک محقق اور لکھاری ہیں ان کے کالم انگریزی اخبارات ڈیلی ڈان، ڈیلی ٹائمز اور فرنٹیرپوسٹ کے علاوہ دوسرے اخبارات میں چھپتے رہے ہیں

یہ مضمون ہم سب میں پہلے شائع ہوا ہے۔

https://www.humsub.com.pk/336950/aafiyat-nazar-7/

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

عافیت نظر

عافیت نظر تعلیم و تربیت اور پیشےکے لحاظ سے ماہر تعلیم ہیں۔

متعلقہ

Back to top button