کالمز

(کتابی جائزہ) اکیسویں صدی کے لیے اکیس اسباق – پہلی قسط

مولامددقیزل

ہم سب تاریخ کے ایک اہم موڑ سے گزر رہے ہیں۔ شاید ہم نے کبھی زندگی میں یہ سوچا بھی نہ ہوگا کہ کوویڈ19 نامی وائرس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گا اور ہم سب کو گھروں میں مقید ہونا پڑے گا۔ انسانی تاریخ میں ایسے کئی وبا  آئے ہیں جن کا مقابلہ انسان نے بالاخر کر ہی لیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ان وباوں نے کروڑوں انسانوں کی جانیں لی ہیں۔ امید واثق ہے کہ انشااللہ اس وبا پر بھی  انسان جلد یا بدیر خرد مندی سے قابو پائے گا ۔

اس عالمی وبا نے گلوبل ویلیج کامنظرنامہ  تبدیل کر  رکھ دیاہے .شرق سے غرب تک ہر ملک وقوم پر سکتہ طاری ہے۔ مچھر سے بھی ہزاروں گنا چھوٹے وائرس نے دنیا کو عالم گیر لاک ڈائون پر مجبور کر دیا ہے۔موجودہ حالات میں ہم سب جانتے ہیں کہ ورک فرام ہوم کے سوا، تقریبا ہر ایک کے پاس معمول کی مصروفیت موجود نہیں ہے۔

ان فراغت کے لمحات کو غنیمت جان کر میں نے چند کتابوں سے روشنی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سے آج  میں  بیسٹ سیلر کتاب ۲۱  لیسنز فار ۲۱ سنچیری     کا خلاصہ بیان کررہا ہوں۔

زیر بحث کتاب کا سرورق

کہتے ہیں کہ کتب بینی  ذہن کو تازگی، روح کو بالیدگی اور خیالات کو توانائی بخشتی ہے۔  وہی قومیں زندگی کی معراج پاتے ہیں جنکا تعلق کتاب اور علم سے مظبوط ہو۔ مردہ دلی اور سطحی سوچ  کے حامل اقوام   یا معاشروں کا عظمت و رفعت سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔

ذہن کے بند دریچوں کو کھولنے کے لیے یہ بہت لازمی ہے کہ کتاب بینی کی جائے اور نئی علوم کی جستجو  میں رہنے کیساتھ ساتھ علم کی روشنی جتنی ہو سکے ایک دوسرے کے ساتھ بانٹا جائے۔

تو  دوستو !

زیر نظر کتاب  یوول نواح ہراری نامی اسرائیلی مورخ نے لکھی ہے۔ ہراری مقبوضہ بیت المقدس  یعنی یروشلم (اسرائیل) کی عبرانی یونیورسٹی کے شعبہ تاریخ میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے آکسفورڈ یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی  کررکھی ہے۔ انکی تین کتابیں سیپین، ہوموڈیوز   اور زیر بحث کتاب عالمی سطح پر شہرہ آفاق شہرت حاصل کرچکی ہیں۔ مجموعی طور پر ان کی کتابوں کی ایک کروڑ سے زائد کاپیاں بک چکی ہیں، جبکہ ان کتابوں کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی کئے جاچکے ہیں۔

21 ویں صدی کے لیے 21 اسباق  نامی یہ کتاب   ٹیکنالوجی کی وجہ سے  آج کے سب سے زیادہ دباؤ ڈالنے والے سیاسی ، ثقافتی اور معاشی چیلنجوں پر روشنی ڈالتی ہے اور   ہمیں غیر یقینی مستقبل کی تیاری کے لیے سوچ و بچار کرنے پر مجبور کرتی ہے۔

مختلف نظریات  (آیئڈیولوجیز) نے ہمیشہ انسانوں کو دنیا  دیکھنے ، پرکھنے اور چلانے کے انداز یا گر سیکھائے۔ جس نظریے نے زیادہ تر لوگوں کو اپنی گرفت میں لیا وہی کئی دہائیوں تک ہماری تاریخ کا تعین کرنے میں کامیاب ہوا ۔ہراری اس کتاب کے پہلے چپٹر  ڈس ایلوژنمنٹ  میں کہتا ہے کہ انسان ہمیشہ کہانیوں میں سوچتاہے۔ کہانی جتنی آسان اور سادہ ہوگی اتنی ہی اچھی لگے گی۔ 20 وی صدی میں گلوبل ایلیٹ یعنی عالمی اشرفیہ نے تین کہایناں وضع کیں ۔ جس میں  ماضی کی وضاحت اور مستقبل کی پیشن گوئی کا دعوی کیا گیا  ۔وہ کہتے ہیں کہ عالمی اشرفیہ  ہمیں ایک نوسٹلیجک فنٹیسی میں رکھتے ہیں اور وہ فینٹسی یا تو براہ راست قوم پرستی سے جڑی ہوی ہے یا پھرمذہب سے۔

پہلی کہانی ہٹلر کی فاشسٹ کہانی ہے، جسکا آغاز جرمنی کے شہر برلن میں 1938 کو ہوا. اس کہانی کا انجام یعنی خاتمہ دوسری جنگ عظیم کے بعد   ہوا۔اس کے  بعد دوسری کہانی یعنی کمیونزم (اشتراکیت) اور پھر تیسری کہانی یعنی لبرلیزم میدان جنگ بنی رہی۔ دوسری کہانی مارکس سے لینن تک کی،  یعنی کمیونسٹ کہانی ہے جو روس کے شہر ماسکو میں شروع ہوا، جو   1980 تک  روس و چین میں برسر اقتتدار رہا ۔بہت جلد یہ کہانی بھی اپنے انجام کو پہنچی۔ اوراخری (موجودہ) کہانی لبرل کہانی رہ گئی ،جسے ہم لبرل ڈیموکریسی بھی کہتے  ہیں جو عالمی اشرافیہ کی نظر میں ماضی کی رہنما اور مستقبل کی اٹل قوت کا مظہر ہے۔ اس کہانی نے انسان کو 5 ہزار سال کی غلامی سے آزادی دلائی جس میں بولنے کی آذادی ،  کے علاوہ کئی اجتماعی و انفرادی آزادیا ں قابل ذکر ہیں لیکن اب جمہوریت نے سفاکانہ آمریت کا روپ دھار لیا ہے۔ تاہم، 2008 کے مالی بحران نے، اس لبرل کہانی کو بھی مشکوک بنا دیا۔ 2018 میں اب یہ کہانی زیرو پرہے جس کہانی کو عالمگیر بنانا چاہتے تھے جس نظام کو انسانی حقوق کا علمبرار ہونا تھا وہ خواب چکنا چور ہوگیا۔

 امیگریشن پر پابندیاں لگنے لگیں۔ تجارتی معاہدے بڑھنے لگے۔ جمہوری حکومتیں عدالتی نظام کی آزادی پراثر انداز ہونے لگیں۔ ذرائع ابلاغ کی آزادی خواب و خیال ہونے لگی۔ ہرقسم کی بغاوت یا مزاحمت غداری قرار دی جانے لگی۔برطانیہ میں بریگزٹ کا واقع ہو یا ڈونلڈ ٹرمپ جیسے شخص کا امریکی صدر منتخب ہونا، دونوں واقعات نے لبرل کہانی کو مغربی یورپ اور امریکا میں مزید کمزورکر دیا۔

قصہ مختصر  اب صورتحال یہ ہے کہ لوگ اس لبرل کہانی سے بھی نفرت کرتے ہیں، اب کچھ  نے قدیم روایتی دنیا میں پناہ لی، کچھ نسل پرستی اور قوم پرستی سے جڑ گئے ہیں، جبکہ باقیوں  یہ نے یہ باور کرلیا ہے کہ لبرل ازم اور عالمگیریت محض اکثریت پراقلیتی اشرافیہ کی حکمرانی کا عنوان ہے۔ بظاہر تینوں کہانیوں نے دم توڑ دی ہے۔  یعنی  اب اشرافیہ سکتے میں ہیں۔ پریشان ہیں کہ ڈیموکریسی کو آگے کیسے لے کرجائیں۔

ہراری نے ایک لفظ استعمال کیا ہے کہ  گلوبل اشرافیہ ڈیس اورینٹیشن (خیالی انتشار) کا شکار ہیں۔ انہیں سمجھ نہیں آرہی ہے کہ اس کہانی کو آگے بڑھایا جائے کہ نہیں۔

اب کیا ؟؟؟؟

(جاری ہے)

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button