کالمز

ذاتی دشمنی نہیں، انسانی قتل عام

تحریر: عنایت ابدالی

نلتر واقعے کو فرقے سے جوڑنے کے بجائے اسے انسانی قتل عام کہا جائے۔اس بچے کا تصویر دیکھ کے لگتا ہے کہ ہم کسی صورت مسلمان، صاحب ایمان کہلانے کے مستحق بالکل نہیں ہے۔ کیا یہ ذاتی دشمنی ہے؟ کیا یہ انتقام ہے ؟؟ نہیں نہیں ہرگز نہیں۔اندازہ لگائے تو لگتا ہے کہ یہ ذاتی دشمنی ہے ، پچھلے سال کے نوجوان کے قتل کا انتقام ہے مگر حقیقت یہ ہے نہ اس طرح انتقام لینا ہم نے دیکھا ہے اور نہ ہی ذاتی دشمنی میں ایسا ہونا ممکن ہے یہ بالعموم

گلگت بلتستان بالخصوص نلتر کے عوام کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش ہے اور اس سازش میں وہ سرمایہ دار طبقہ ملوث ہے جو اونے پونے نلتر کو ہتھیانے کی کوششوں میں پچھلے کئی سالوں سے مصروف ہے۔

ایک سال پہلے بھی ہمارے ایک قیمتی نوجوان( فرجاد جو شہر لاہور میں شیعہ, سُنی اور اسماعیلی فرقے کا سفیر تھا. گلگت بلتستان کے ایک نوجوان نے فیس بک پہ لکھا ہے کہ فریاد ممتو دی ہنزہ کے نام سے اپنا ایک ریسٹورنٹ چلا رہا تھا جس کے دروازے تمام گلگیتیوں کے لیے اُن کے اپنے گھر کے دروازوں کی طرح کھلے تھے. اپنے ہاتھ سے ممتو بناتا تھا اور انتہائی خوش مزاجی کے ساتھ پیش کرتا تھا. گلگت بلتستان کا کوئی ثقافتی پروگرام ہو یا کوئی سیاسی ایشو پہ احتجاج, یہ بندہ صف اول میں کھڑا ہوتا تھا. اس کے اندر انسانیت تھی اسلئے ہر فرقے کے ساتھ مل کے رہتا تھا, فرقوں کی اتحاد و اتفاق کی بات کرتا تھا اور عملی طور پر اُس کے لیے کام بھی کرتا تھا) کو اس طرح بے دردی سے شہید کیا گیا تھا۔

ہم نلتر شہدا لواحقین سے اظہار تعزیت پیش کرتے ہیں اور ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس واقعے میں ملوث افراد کو سخت سے سخت سزا دی جائے۔

یہ بات خارج الامکان نہیں ہے کہ باہر سے آنے والے سرمایہ دار نلتر کے زمینوں پہ قابض ہونے کیلیے نلتر کو اس آگ میں دھکیل رہے ہیں جیسا کہ 88 سے 2005 تک گلگت شہر میں کیا گیا تھا۔

خدارا اس حوالے سے ہمیں یعنی نوجوانوں کو سوچنے کی اشد ضرورت ہے بالعموم گلگت بلتستان بالخصوص نلتر کےباسیوں کو ہوش کا ناخن لینے کی ضرورت ہے وہ آپس میں اتحاد و اتفاق قائم کرکے باہر سے نلتر کے زمینوں پہ قابض ہونے والے سرمایہ داروں کا مقابلہ کریں ورنہ نلتر کے مقدر میں نعشیں اٹھانے کے اور کچھ نہیں ہوگا۔

ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت نلتر کے پرامن اور شریف النفس باسیوں کو آپس میں لڑانے کی کوشش ہو رہی ہے۔

یہ بات نوٹ کرنے کی ہے کہ جب گلگت شہر جل رہا تھا اس وقت نلتر میں کوئی فرقہ وارنہ فسادات نہیں ہوئے اب گلگت شہر میں امن و آشتی ہے تو اچانک نلتر والے کیسے فرقہ پرست ہوگئے؟ وہ ایک دوسرے کے گلے کاٹنے لگے۔

شنید ہے کہ سرمایہ دار طبقہ نلتر کو مکمل اپنے قبضے میں لے لیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ مقامی لوگ ان کے خلاف مزاحمت نہ کریں، آپس میں لڑتے رہے اور وہ آسانی سے نلتر کے بیش بہا زمینیں ہتھیانے میں کامیاب ہو۔ وہ قیمت دینگے مگر وہی قیمت نہیں دینگے جو نلتر کے عوام کے آپس میں اتحاد و اتفاق سے ممکن ہوتا وہ چند پیسوں کے عوض نلتر کو خرید لیں گے اور جب نلتر پر سرمایہ دار قابض ہونگے تو گلگت کی طرح نلتر میں بھی آمن و آشتی قائم ہوگا اور غیر مقامی سرمایہ دار نلتر کے افراد کو اقلیت میں تبدیل کرکے اپنے لیے مزے اڑائیں گے۔

نلتر کے نوجوانوں سے درخواست ہے کہ وہ آگے آئیں اور نلتر کو سرمایہ داروں کی شر سے محفوظ رکھیں۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button