کالمز

”یہ وقت بھی گزر جائے گا“

تحریر: ایم کثیر رضا بگورو

سلطان محمود غزنوی نے ایک دن اپنے دربار میں ایک انگوٹھی دکھائی اور اپنے تمام درباریوں سے کہا ”میں چاہتا ہوں آپ میں سے کوئی شخص اس انگوٹھی پر کوئی ایسا فقرہ لکھ دے جسے میں خوشی کے وقت پڑھوں تو میں اداس ہو جاؤں اور جب میرے اوپر اداسی کا وقت آئے تو میں یہ فقرہ پڑھوں تو میں خوش ہو جاؤں“ دربار میں سے کسی نے یہ چیلنج قبول نہیں کیا۔ جب سب ہار گئے توسلطان محمود غزنوی نے انگوٹھی اپنے غلام ایاز کے حوالے کر دی‘ایاز نے بادشاہ سے انگوٹھی لی ایک دن کی مہلت طلب کی اوردوسرے دن بادشاہ کو انگوٹھی واپس کر دی۔ بادشاہ نے انگوٹھی دیکھی تو اس پر لکھا تھا ”یہ وقت بھی گزر جائے گا“۔ یہ فقرہ اس قدر جاندار تھا کہ جب بادشاہ اداس ہوتا تھا تو وہ اپنا ہاتھ اوپر کر کے انگوٹھی پر نظر ڈالتا تھا اور یہ پڑھ کر کہ ”یہ وقت بھی گزر جائے گا“ خوش ہو جاتا تھا اور وہ جب خوشی کے عالم میں یہ پڑھتا تھا ”یہ وقت بھی گزر جائے گا“ تو وہ اداس ہو جاتا تھا۔ وقت واقعی ایک ایسی خوفناک حقیقت ہے جس کے معمول میں دنیا کے کسی شخص کیلئے کسی قسم کی تبدیلی نہیں آتی۔ کائنات کی سوئیاں آج تک واقعہ معراج کے علاوہ کبھی نہیں رکیں۔ وقت گزر جاتا ہے اور ہمارے پاس اس وقت کی یادوں کے علاوہ کچھ نہیں بچتا۔ انسان اپنے برے وقت کو ٹال نہیں سکتا لیکن یہ اپنی حکمت دانائی اور سمجھداری کے ذریعے اس برے وقت کی شدت کم کر سکتا ہے۔ یہ وقت کی دی ہوئی مہلت کو اچھا بھی بنا سکتا ہے تا کہ آنے والے لوگ اسے زمانوں تک یاد رکھ سکیں۔وقت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ برے سے برے وقت میں ایک خوبی ہوتی ہے اور اچھے سے اچھے وقت میں ایک خامی ہوتی ہے۔ برے وقت کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ گزر جاتا ہے اور اچھے وقت میں یہ خامی ہوتی ہے کہ یہ بھی گزر جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان کیا کرے؟ انسان برے وقت کو صبر‘ خوش دلی اور حوصلے کے ساتھ گزارے جبکہ یہ اپنے اچھے وقت کو عاجزی‘ خدمت اوردوسروں کی فلاح و بہبود میں صرف کرے۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں قسموں کے لوگوں کی قدر کرتا ہے‘ وہ برے وقت میں حوصلے کا مظاہرہ کرنے والوں کو بھی پسند کرتا ہے اور اچھے وقت میں عاجزی کا دامن پکڑے رکھنے والوں کو بھی۔اگر انسان پر برا وقت آئے تو یہ بس اپنے رویئے کی تھوڑی سی اصلاح کر لے تو یہ برا وقت بھی اچھا بن جائے گابس رویہ اور سوچ مثبت کرنا ہوگا۔ محترم قارئین! آج آپ جانتے ہیں کہ پوری دنیا کو برے وقت کا سامنا ہے ایک معمولی سا وائرس جو نظر بھی نہیں آتا ہے نے دوسرا سال چل رہا ہے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے پوری عالم انسانیت پریشان ہے ایسے میں اگر ہمارا کوئی عزیز ہم سے حالات کے بارے میں پوچھے تو ہمیں ان کو تسلی دیتے ہوے فرمانا چاہئے ”گھبرانا نہیں یہ وقت بھی گزر جائے گا“ چونکہ حالات جیسے بھی ہوں لیکن بدل جاتے ہیں حالات انسان کی زندگی میں ہوا کے جھونکے کی طرح آجاتے ہیں اور گزر جاتے ہیں لیکن آپ کا حوصلہ دینے سے اگر کسی کو سکون میسر ہو تو اللہ آپ سے خوش ہوجاے گا۔ البتہ حالات تو ویسے بھی پریشان کن ہیں بُرا ہو کرونا وائرس کا کہ اس نے نہ صرف پاکستانیوں بلکہ عالم انسانیت کو گھبرانے پر مجبور کر دیا ہے۔ پچھلے سال آپ سب نے مشاہدہ کیا تھا ہر سمت ایک بے چینی تھی۔ اضطراب تھا۔ گھبراہٹ تھی۔ بے سکونی تھی۔ خوف تھا۔ سناٹا تھا۔ بڑے بڑے بازار، جوّا خانے، پارک حتیٰ کہ عبادت گاہیں خواہ چرچ ہوں یا مساجد ہو امام بارگاہ ہو یا جماعت خانہ ہو ویراں و سنسان نظر آرہی تھیں۔ پریشانی انسانی حواس پر قابض تھی۔ حکمران عجلت میں فیصلے کرنے پہ مجبور تھے۔ لوگ راشن لینے کے لیے سڑکوں پر کھڑے نظر آرہے تھے۔ ان میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو کاروبار، تجارت، فیکڑیاں اور دفاتر بند ہونے اور دکانیں اور چھابڑی، ریڑھی کا کاروبار منجمد ہونے کی وجہ سے راشن اور ضروریات زندگی کی بھیک مانگنے پر مجبور تھے حالانکہ یہ لوگ محنت کش لوگ تھے لیکن حالات کے ھاتھوں اتنے بے بس ہوگئے تھے تندرست اور صحت مند ہونے کے باوجود گھروں پہ محسور ہو کر رہئگئے تھے۔ حکومت اور فلاحی ادارے اپنے طور پر لوگوں کو رلیف دینے میں مصروف عمل تھے۔ حکمران جماعت کی ٹائیگر فورس بھی بننے جارہی تھی۔ مگر ہر کس و ناکس جو اس ابتلا میں پریشان تھا یا اس سے متاثر تھا یہ ضرور سوچ رہا تھا کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ بے شمار لوگ جن کے عزیز و اقارب اس نا گہانی آفت کی زد میں آ کر دنیا سے چلے گئے اور جن کے بے نام لاشے بے گور و کفن دنیا کے مختلف ملکوں میں پڑے رہے۔ وہ بھی سوچ رہے تھے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ ایسے تمام لوگ جو اس کرونا وائرس کی وجہ سے کسی نہ کسی جگہ پر متاثر ہوئے تھے۔ علاج معالجہ ٹیسٹوں کے مرحلہ سے گزرے مگر زندگی بچ گئی۔ وہ بھی کہہ رہے تھے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ ایسے لاکھوں لوگ جو اُس وقت قرنطینہ سنٹروں میں موجود تھے وہ بھی اس امید میں تھے کہ اللہ نے چاہا تو یہ وقت بھی گزر جاے گا۔ ایسے بے شمار لوگ جو اپنا کاروبار چھوڑ کر اپنی ملازمتوں سے فارغ ہو کر کسمپرسی کی حالت میں گھروں میں دبکے پڑے تھے۔ وہ بھی سوچ رہے تھے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا۔ وہ طالب علم جو اپنے تعلیمی میدان میں مصروف تھے امتحان ہونے والے تھے لیکن انکا تعلیمی نظام بھی رک گیا تھا وہ بھی دل ہی دل میں اپنے آپ کو تسلی دے رہیے تھے کہ یہ وقت بھی گزر جاے گا۔ ہمارے ڈاکٹر۔ پیرا میڈیکل سٹاف۔ قانون کا نفاذ کرنے والے ادارے۔ ہمارے ڈیوٹی پر موجود تمام سرکاری و غیر سرکار اہلکار۔ ہماری پاک فوج، ہماری پولیس، ہمارے جج یہ سوچ کر اپنے فرائض دلجمعی سے ادا کر رہے تھے کہ یہ وقت ابتلا ہے۔ آزمائش ہے۔ گزر ہی جائے گا اور برا وقت گزر بھی گیا تھا چونکہ وقت نے تو بہر حال گزرنا ہی ہوتا ہے۔ یہ تو ہماری ذہنی کیفیت ہوتی ہے اُسے ہنس کر گزارو یا رو کر ایسے امتحان میں وہی لوگ اور قومیں سرخرو ہوتی ہیں جو ایسی آزمائشوں اور مشکلات کا خندہ پیشانی اور جرات اور منصوبہ بندی سے مقابلہ کرتی ہیں۔ ہماری قوم اللہ کے فضل سے بڑی جرات مند ہے۔ خیر کا عنصر یہاں غالب ہے۔ لوگ اتنے خوف زدہ نہیں جتنے یورپ اور امریکہ میں اور بھارت میں ہے۔ ماشاءاللّہ پاکستانیوں کا جسمانی و دماغی نظام مضبوط ہے۔ یا جذبہ حُریت یا جہالت کا غلبہ ہے کہ ابھی تک کرونا وائرس کو اُتنی سنجیدگی سے نہیں لے رہے جتنی اس کی ضرورت ہے۔ اور غالباً اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے۔ کہ یہ وقت بھی گزر ہی جائے گا۔ ہاں البتہ وقت نے تو گزرنا ہی ہے لیکن اللہ نہ کرے ہماری یہ بے احتیاطی کہی ہمیں کسی بڑی مصیبت میں نہ ڈالے جیسے آجکل ہندوستان کے حالات ہے اس لئے ہمیں چاهیے تھا انتظاميہ کے ساتھ مکمل تعاون کرتے اور ہوسکے تو انتظامیہ کے شانہ بشانہ رضاکارانہ طور پہ خدمات انجام دیتے یقیناً ہمارے نوجوان نے پچھلے سال اُس مشکل وقت میں انتظامیہ کے شانہ بشانہ کھڑے تھے لیکن ہم نے پھر سے ایک دفعہ غلطی کر ڈالی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا وقت کے گزر جانے کے بعد بھی ہم احتیاط کرتے اور عوام کو بھی ترغیب دیتے لیکن بدقسمتی سے حکومت سمیت عوام نے اُس معاملے کو ہلکا لیا جس کی وجہ سے ایک دفعہ پھر حالات اپنے آپ کو دہراتے ہوے نظر آرہے ہیں ایک مرتبہ پھر لاک ڈاون شروع کیا جا رہا ہے تعلیمی ادارے ایک مرتبہ پھر بند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس لئے ایک مرتبہ پھر ایسے حالات میں یوتھ کی زمداری سب سے زیادہ بنتی ہے تاکہ وہ عوام کو ان مشکل حالت میں رہنمائی فراہم کریں خصوصاً گلگت بلتستان جیسے پسماندہ علاقے میں جہاں تک حکومت کی رسائی بھی بہت کم ہو رہی ہے یہاں کی یوتھ کو ایک مرتبہ پھر اپنا کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ عوام کو ان مشکل حالات سے مقابلہ کرنے میں مدد مل سکیں۔ اور انشاءالہ وتعالیٰ بہت جلد یہ برا وقت بھی گزر جاے گا اور ایک مرتبہ پھر حالات معمول پہ آئنگے۔

آخر میں ہم خدا سے دعا کرتے ہیں اے اللہ جلّہ شانہ ہم آپ کے کمزور اور گناہ گار بندے ہیں ہمیں اس کڑی ازمائیش سے آپ ہی نجات دلا سکتے ہیں اپنی قدرت سے اس عالمی وبا کا پوری دنیا سے خاتمہ کر دیں۔ آمین

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button