کالمز

فقیہان شہر سے سوال

خاطرات: امیرجان حقانی

آج سے ٹھیک آٹھ سال پہلے 2012 میں گلگت بلتستان میں کشت و خون کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔پھر گلگت شہر کے اہل تشیع و اہل سنت علماء و شیوخ کے درمیان مناظرہ و مباہلہ کا بازار گرم ہوا تھا۔ تب کی تفصیلات ہم نے انہیں تحریروں اور اخباری کالموں میں تفصیل سے لکھا تھااور امن و یکجہتی کی صدا دی تھی۔ آج 2021 مئی کے مہینے میں عیدالفطر کے دن سے ایک دفعہ پھر گلگت میں مباہلوں اور مناظروں کا شغل میلہ لگنا شروع ہوا ہے۔ 13مئی کو اہل تشیع کےمرکزی جامع مسجد امامیہ کے امام جمعہ و جماعت جناب آغاراحت حسین الحسینی صاحب نے اہل تشیع کے مرکزی عیدگاہ جوٹیال میں خطبہ عید دیتے ہوئے اہل سنت والجماعت اور اسماعیلوں کو شیعہ بننے کی دعوت دی اور ساتھ ہی ماضی کے مناظروں مباہلوں کا ذکر چھیڑا اور پھر دعوت مناظرہ و مباہلہ دے دیا۔ان کی ویڈیو وائرل کردی گئی۔ ان کے جواب میں اہل سنت کے مولانا آصف عثمانی، مولانا فراز حیدری اور محفوظ اللہ نے ویڈیو پیغامات کے ذریعے مناظرہ و مباہلہ کا چیلنج قبول کیا۔آغاراحت نے جواب آن غزل کے طور پرایک بڑے پروگرام میں، ان کے چیلجز کو رد کردیا اور اہل سنت کی مرکزی قیادت کو مناظرہ و مباہلہ کی دعوت مبارزت دے دی اور ویڈیو وائرل کردی گئی۔ یوں اہل سنت والجماعت نے مشاورت کے بعد آغا راحت صاحب کے چیلجز کے جواب میں آغا صاحب کو تحریری طور پر لکھ کر چیلج قبول کرلیا۔اہل سنت و الجماعت کے مرکزی امیر و خطیب مرکزی جامع مسجد گلگت کے قاضی نثاراحمدصاحب نے بنفس نفیس مناظرہ کرنے کا تحریری نوٹیفکیشن جاری کردیا اور گلگت انتظامیہ کو بھی تحریری طور پر مطلع کردیا گیا۔پھر آغا راحت نے شاہی پولو گروانڈ میں آگ میں کود کر مباہلہ کے ذریعے اپنی اپنی حقانیت کو ثابت کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔جواب آں غزل کے طور پر اہل سنت کی طرف سے بھی شاہی پولوگراونڈ گلگت میں مناظرہ و مباہلہ کو تحریری طور پر قبول کرکے 21مئی 2021 کو شاہی پولوگراونڈ میں میدان مباہلہ ومناظرہ کا تحریری اظہار کیا گیا۔ یوں شاہی پولو گروانڈ گلگت کو شمشان گھاٹ بنانے پر فریقین کا اتفاق رائے ہوا۔ اس تمام ترمبارزاتی پروسیجر میں اسماعیلی مکتب فکر کے الوعظین اور کونسلات نے خاموشی اختیار کرکے خود کو اس ہیجانی کیفیت سے دور رکھا۔اہل سنت اور اہل تشیع نے بدقسمتی سے آج تک ان سے سماجی زندگی بہتر طریقے سے گزارنے کا گُر نہیں سیکھا۔

انتہائی خوش آئند بات یہ ہوئی کہ اب کی بار سوشل میڈیا صارفین نے طرفین کی طرف سے گلگت بلتستان کے امن کو تاراج کرنے اور شاہی پولوگراونڈ کو شمشان گھاٹ بنانے والوں کے ساتھ یکجہتی کرنے کی بجائے ان کا سنگین مزاق اڑایا اور شاندار مزاحیہ ادب تخلیق کیا۔بات پورے ملک میں پھیل گئی تو ملکی سطح پر بھی گلگت کے ”شمشان گھاٹ” میں خود کو جلانے والوں کے متعلق مزاحیہ تحریریں لکھی جانے لگی۔یوں مناظروں اور مباہلوں کے ذریعے گلگت بلتستان کو شمشان گھاٹ کا تحفہ دینے والوں کو پذیرائی نہ مل سکی۔یہ سچ ہے کہ اب کی بار جیت شعور و آگاہی کی ہی ہوگی۔ تاہم ان فقیہان شہر سے میرے چند معروضات ہیں۔ گلگت بلتستان میں قیام امن کے لیے میں نے بہت محنت سے تحقیق کی ہے۔اس تحقیق میں قاضی نثاراحمد اور آغاراحت حسین کے تفصیلی انٹرویوز بھی شامل ہیں جو میں نے خود ان سے کیا ہے۔اپنے اس تحقیقی پروجیکٹ کے دوران فقیہان شہر سے چند سوالات دل و دماغ میں وارد ہوئےتو مقالے کا حصہ بنالیا۔وہ من و عن آپ سے بھی شیئر کرنا چاہتا ہوں اس امید سے کہ شاید کے تیرے دل میں اتر جائے میری بات۔ملاحظہ کیجیے:

”گلگت بلتستان میں قیام امن اور بین المسالک ہم آہنگی اور سماجی رواداری کے حوالے سے عوام الناس سے بھی گفتگو کیا، سیاسی و سرکاری اہلکاروں سے بھی گفتگو کی اور مذہبی رہنماؤ ں اور مساجد و مدارس کے آئمہ سے بھی تفصیلی نشستیں ہوئی۔ہر ایک کی بظاہر یہی خواہش ہے کہ سماجی ہم آہنگی بھی ہو اور قیام امن بھی ممکن ہو۔ مگر دل میں دبی دبی فرقہ وارانہ خواہش اور اپنے مذہب ومسلک کی برتری اور دوسروں کو زیر کرنے کی خواہش معلوم ہوتی ہے۔ اور کسی نہ کسی دلیل ، حیلہ بہانہ سے اس کا اظہار بھی کیا جاتا ہے اور فرقہ وارانہ سوچ کے لیے دلائل بھی دیے جاتے ہیں۔

آج میں ان اصحاب علم وفکر ، صاحبان بست وکشاد اور جمہور عوام سے کلام اللہ، احادیث نبوی اور حضرت اقبال کی تعلیمات کی روشنی میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ سنجیدگی سے لیں گے۔اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرقہ واریت اور مذہبی تشدد و تنگ نظری اور عدم برداشت اور دین کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور انتشار پھیلانے کی ممانعت کی ہے۔:

وَمَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَنُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيْرًا (النساء/116)
اور جو شخص اپنے سامنے ہدایت واضح ہونے کے بعد بھی رسول کی مخالفت کرے ، اور مومنوں کے راستے کے سوا کسی اور راستے کی پیروی کرے ، اس کو ہم اسی راہ کے حوالے کردیں گے جو اس نے خود اپنائی ہے ، اور اسے دوزخ میں جھونکیں گے ، اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے ۔

اللہ نے دوسری جگہ ارشاد فرمایا:
اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ (الانعام 156)
بیشک جن لوگوں نے اپنے دین ( کے اعتبار ) سے تفریق ڈالی اور ( کئی ) گروہ بن گئے آپ ( ﷺ ) کو ان سے کوئی تعلق نہیں ان کا معاملہ اﷲ ( تعالیٰ ) ہی کے حوالے ہے پھر وہ انہیں جو کچھ وہ کیاکرتے تھے بتلادے گا ۔

ارشاد باری ہے:
وَاعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِيعًا وَلاَ تَفَرَّقُواْ (النساء/103)
اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔

آپ ﷺ نے فرقہ واریت اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کی واضح طور پر ممانعت فرمائی ہے۔
يَدُ اﷲِ مَعَ الجَمَاعَةِ، وَ مَنْ شَذَّ شَذَّ اِلَی النَّارِ(ترمذی، حدیث نمبر 2167)
اللہ کا ہاتھ ( اس کی مدد و نصرت ) جماعت کے ساتھ ہے، جو شخص جماعت سے الگ ہوا وہ جہنم میں گرا۔

شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ارشاد فرمایا ہے۔ ان کا کلام ملاحظہ کیجیے:

مذہب کی حقیقت بتلاتے ہیں:

قوم مذہب سے ہے مذہب جو نہيں’ تم بھي نہيں
جذب باہم جو نہيں’ محفل انجم بھي نہيں

قوم کا نفع نقصان کس چیز میں ہے، یہ بھی حضرت اقبال بتلا گئے ہیں اور اتحاد و اتفاق کا درس بھی دیا:

منفعت ايک ہے اس قوم کی نقصان بھی ايک
ايک ہی سب کا نبی دين بھی ايمان بھی ايک
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھي ايک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ايک

فرقہ پرستی اور نفرت و تعصب کو شر انگیز قرار دیتے ہوئے مسلم امہ کی رسوائی اور تنزلی کا سبب بتایا:

فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کی يہی باتيں ہيں

حضرت اقبال یہ بھی بتلا گئے کہ عمل کا معیار کیا ہے؟ اور کونسی چیز ہے جو عملی زندگی کے ہر شعبہ میں نافذ کرنے سے عزت بحال ہوگی اور انسانیت کو وقار ملے گا۔اور ہماری رسوائی بتلا گئے کہ ہم نے آئین رسول اور آئین الہی چھوڑ کر کہاں پہنچے ہیں:

کون ہے تارک آئين رسول مختار؟
مصلحت وقت کي ہے کس کے عمل کا معيار؟
پیغام محمد ﷺ کا ہمیں کتنا پاس ہے:
قلب ميں سوز نہيں’ روح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں
ہم سبھی کچھ ہیں مگر نہیں ہیں تو مسلمان نہیں ہیں:
يوں تو سيد بھي ہو، مرزا بھي ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو ، بتائو تو مسلمان بھی ہو
تم مسلماں ہو يہ انداز مسلمانی ہے
حيدري فقر ہے نے دولت عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کيا نسبت روحاني ہے؟

اور مسلمانوں کا اعزاز اور ان کی رسوائی کس چیز میں پوشیدہ ہے یہ بھی واضح کرکے دنیا سے چلے گئے:

وہ زمانے ميں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر

اللہ تعالیٰ کے فرامین ، محمد عربی ﷺ کی بیان کردہ وعید اور حضرت اقبال کی تنبیہات کا مختصر جائزہ لیا گیا۔ اگر پھر بھی فرقہ واریت کا کلی خاتمہ نہیں کیا جاسکتا ہے تو خاتمہ کا آغاز تو کیا جاسکتا ہے۔ یہ امت وسط ہے۔ اس کی پوری تعلیمات اعتدال اور امن و آشتی اور سلامتی سے تعبیر ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس امت کا نام ہی مسلم ، مسلمین رکھا اور یہی امت اپنے تعلیمات اور آفاقی اصولوں کی بنیاد پر معتدل ترین امت ہے۔اسی کا تقاضہ ہے کہ اس امت کو ٹکڑیوں میں تقسیم کرنے سے بچایا جائے۔اور ملت وحدت کی طرف سفر کا آغاز کیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے ملت ابراہیمی سے تعلق رکھنے والوں کا نام مسلمان رکھا ہے۔اللہ کا ارشاد ہے:

ملَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَ هُوَ سَمّٰكُمُ الْمُسْلِمِيْنَ (الحج 78)
دین اپنے باپ ابراہیم ( علیہ السلام ) کا قائم رکھو اسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے ۔

میرا ان تمام اہل علم وفکر ، آئمہ مساجد ومدارس، اصحاب بست و کشاد اور صاحبان عقل و دانش سے ایک طالب علمانہ سوال ہے۔ ہم نے دلائل سے یہ بحث سمجھ لیا کہ فرقہ واریت، مذہبی و علاقائی تعصب، لسانیت، بین المسالک عدم ہم آہنگی اور دیگر خرافات کی دین اسلام میں کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اور ان لوگوں کی ظاہری خواہش بھی ہے کہ ملت کا شیرازہ نہ بکھرے۔تو پھر ہر انسان ان طبقات میں بٹا ہوا کیوں ہے؟ ہر ایک نے ڈیڑھ انچ کی مسجد کیوں بنائی ہے؟ ہر ایک نے اپنا اپنا مذہبی و مسلکی جتھہ کیوں تشکیل دیا ہے؟ ہر ایک کیوں جگہ جگہ بیریئر کھڑا کررہا ہے؟ ہر ایک دین و ملت کو اپنے مسلک میں کیوں منحصر کررہا ہے؟ میرا سوال یہی ہے کہ کیا ہمارے یہ طبقات بتاتے ہیں یہی محمدعربی ﷺ علیہ وسلم کا دین اور دین فطرت دینی ابراہیمی ہے؟ آپ صرف یہی ایک آیت پر غور و فکر فرمائیں ، تمام اشکالات حل ہونگے اور اندازہ ہوجائے گا کہ ہم نے دین ابراہیمی ومحمدی کو چھوڑ کر کچھ اور تھام لیا ہے۔اللہ کا ارشاد ہے:

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ (التوبہ 31)
انہوں نے اللہ کی بجائے اپنے احبار ( یعنی یہودی علماء ) اور راہبوں ( یعنی عیسائی درویشوں ) کو خدا بنا لیا ہے ۔

اللہ تعالیٰ نے یہ بیان یہودیوں اور عیسائیوں کے متعلق دیا ہے۔انہوں نے دین کا چہرہ بگاڑ کر مسخ کرکے اپنے اپنے جتھے بنالیے تھے اور اپنے ان علماء اور درویشوں کو اپنا نجات دھندہ اور رب تسلیم کرکے سب کو جھٹلا دیا تھا۔ آج امت محمدیہ ﷺ کے پیرو کاروں کا بھی یہی حال ہے۔ ہر جتھہ کا اپنا اپنا عالم و شیخ ہے۔ جس کی پیروی میں اصل دین کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں سینکڑوں جتھے، گروہ اور فرقے وجود میں آجاتے ہیں۔ ستر فرقوں اور طائفوں کا ذکر تو آپ ﷺ علیہ وسلم نے ارشاد کیا۔ مگر عبدالخالق تاج تو کہتے ہیں کہ صرف کشروٹ میں ستر جتھے ہیں جن میں ہر ایک کی الگ مسلکی، ومذہبی اور سیاسی و سماجی تشریحات ہیں۔ اب اندازہ لگالیا جائے کہ پورے گلگت بلتستان میں ان جتھوں کی کیا تعداد ہوگی۔ پوری دنیا کا اندازہ لگانا تو ناممکن ہی ہے۔

میری ہر اس انسان جو فطرت سلیم رکھتا ہے سےدرمندانہ گزارش ہوگی کہ خدا کے لیے ملت اور دین ابراہمی کا شیرازہ مت بکھیریں۔ اگر تمہیں اپنا مذہب و مسلک پسند ہے اور ہر حال میں اس پر قائم و دائم رہنا چاہتے ہیں تو دین نے آپ کو اس پر قائم رہنے کی مکمل گنجائش دی ہے۔ آپ کے حدود مقرر ہیں۔ بس آپ اپنے اپنے حدود میں رہیں اور اپنے پیروں کو بھی حدود میں رہنے کی تلقین کریں۔ تجاوز اور تعدی سے گریز کریں۔ آپ کا پوری قوم پر احسان ہوگا۔ کیا یہ احسان کریں گے؟۔”

یہ چند الفاظ اپنے تحقیقی مقالے سے آپ کی خدمت میں پیش کیا ہے۔ اس طرح کے سینکڑوں صفحات ہیں جو درد دل کے ساتھ لکھے ہیں۔ ان شاء اللہ وقتا فوقتا آپ قارئین سے شیئر کرتا رہونگا۔اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button