کالمز

گلگت بلتستان ۔۔۔۔ تہذیب اور ثقافت

تحر یر: سلیم جمیل

تہذیب و ثقافت کسی بھی قوم کا آئینہ ہوتی ہے قوموں کے درخشاں مستقبل کے تہذیبی اقدار چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ماہرینِ عمرانیات کے مطابق ثقافت میں علم، عقیدہ، فن، اخلاق، قانون، زبان، رسم و رواج، آداب مجلس، خورو نوش، لباس، کھیل کود، اٹھنا بیٹھنا اور وہ تمام چیزیں شامل ہیں جو انسان نے معاشرے کے رکن کی حیثیت سے تخلیق کی ہیں۔ اگر کوئی معاشرہ ثقافت کے ان عوامل سے آگاہ ہو اور ان پر عمل پیرا ہو تو اس معاشرے کو تہذیب یافتہ خیال کیا جاتاہے۔ اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ مثبت تہذیبی و ثقافتی اقدار کے فروغ سے سماج میں امن و سلامتی کے پھول کھلتے ہیں۔ دنیا میں وہی قومیں زندہ و پائندہ کہلاتی ہیں جو تہذیب یافتہ ہوں۔ وہی معاشرہ کامیاب و کامران ہوتا ہے جس کی ثقافت پائیدار ہو۔ وہی ملک ترقی کر سکتا ہے جس کی جڑوں میں جاندار تہذیب اور مثبت ثقافت کی آبیاری ہورہی ہو۔ وہی معاشرہ امن کا گہوارہ بن سکتا ہے جہاں صحیح معنوں میں مثبت تہذیب و ثقافت فروغ پا رہی ہو۔ہمیں بجا طور پر فخر ہے کہ سندھ کے ساحل سمندر سے سیاچن کے دامن تک اور چاغی کے پہاڑوں سے خنجراب تک پھیلی ہوئی اس دھرتی میں رنگا رنگ تہذیب و ثقافت کے جلوے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

پاکستان کی تہذیب و ثقافت میں رنگا رنگی اور بو قلمُونیّت ہے ۔ فنون ہوں یا دستکاریاں، نغمے ہوں یا لوک گیت، زبانیں ہوں یا لباس ہر چیز ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ جتنی رنگا رنگی پاکستان کی رسوم و تقریبات ، تہواروں ، لباسوں اور زبانوں میں ہے، اتنی ہی رنگا رنگی علاقائی ادب ، لوک کہانیوں ، لوک داستانوں ، لوک رومان اور دیگر ثقافتی اقدار میں بھی ہے۔ عرسہائے شاہ لطیف بھٹائی اور شہباز قلندر سے گلگت بلتستان قومی کھیل پولو تک، بیساکھی، بسنت، میلہ مویشیاں سے گلگت میں رسم شاپ، گیننی وبونونوتہوار، ہنزہ نگر میں بوپھائو اور بلتستان کے جشن نوروز، میندوق ہلتنمو اور مے پھنگ تک، بلوچی و سندھی کشیدہ کاری جیسے لوک ہنر ، پنجاب کے چرواہوں کے لوک گیت اور ہیر رانجھا ، ٹرکوں و تانگوں پر بنے ہوئے خوبصورت رنگوں کے نقش و نگار، پشاور کے چپلی کباب اور رباب پر چھیڑی جانے والی داستانیں ، یہ سب پاکستانی ثقافت کے شاہکار اور مختلف رنگ ہیں۔وطن عزیز کے تاریخی آثار میں موہنجوداڑو اور ہڑپہ کے کھنڈرات سے لے کر دو سو سال قبل مسیح کی کھوئی ہوئی بدھ مت کی گندھارا تہذیب کے مجسّموں تک، شیر شاہ سوری کے تعمیر کردہ قلعۂ روہتاس سے بلتستان کے خپلو محل و چقچن مسجد، شگر فورٹ، گوپس، چلاس اور ہنزہ کے التت و بلتت قلعے تک فن تعمیر کے عظیم شاہکار عالمی سیاحوں کو دعوت نظارہ دے رہے ہیں۔ سکردو کے قلعۂ کھرپوچو کو تو انیسویں صدی کے اواخر تک ناقابل تسخیر سمجھ کر غیر ملکی سیاحوں نے اسے جبرالٹر سے تشبیہہ دی ہے۔ خپلو کی چقچن مسجد کا شمار آج بھی پاکستان کی بعض اہم تاریخی اہمیت کی حامل مسجدوں میں ہوتا ہے جس کی بنیاد 783ھ میں شاہ ہمدان کے ہاتھوں پڑی تھی۔ ایک غیر ملکی محقق جیمز ہارلے کے بقول یہ مسجد براعظم ایشیا میں لکڑی سے بنی ہوئی سب سے خوبصورت مسجد ہے۔ اس کے علاوہ شاہ ہمدان کے دست مبارک سے تعمیر ہونے والی شگر کی مسجد امبوڑک اور خپلو میں میر محمد کا آستانہ اب بحالی کے بعد یونیسیف کا ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔

بلتستان میں واقع دیگر مزارات میں میر عارف و میر اسحاق تھغس، میر یحییٰ شگر اور میر مختار اختیار کریس قابل ذکر ہیں۔ جن میں چوبکاری کے اچھوتے اور منفرد نمونے، خوبصورت نقش و نگار اور بیل بوٹے اُن دستکاروں کی ذہانت و مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ ان کے علاوہ بھی گلگت بلتستان کے طول و عرض میں پھیلے ہوئے درجنوں مقبرے، قلعے، خانقاہیں، مسجدیں اور امام بارگاہیں چوبکاری کے خوبصورت فنون سے آراستہ و پیراستہ ہیں۔یہ ثقافتی و تہذیبی آثار عالمی سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہیں۔

وطن عزیز پاکستان جغرافیائی اعتبار سے بھی دنیا کا ایک منفرد اور خوبصورت ترین ملک ہے۔ یہاں وسیع و عریض سمندر ہیں ، لق و دق صحرا ہیں۔ بالخصوص ملک کے حسین ترین خطے ” گلگت بلتستان” کو وطن عزیز پاکستان کے ماتھے کا جھومر کہا جائے تو بے جانہ ہو گا۔ جہاں برف پوش و فلک بوس پہاڑ ہیں، گلیشیئرز ہیں۔ سر سبز و شاداب وادیاں ہیں۔ فیروزے کے نگینے کی طرح جڑی ہوئی جھیلیں ہیں۔ ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریا ہیں جو پہاڑوں کی بلندیوں سے پھوٹ کرپاکستان کو سیراب کرتے ہوئے بحر ہند میں گرنے والا دریائے سندھ ہے اور اس کے دائیں بائیں جنم لینے والی رنگا رنگ تہذیبیں ہیں۔ یہاں صاف و شفاف چشمے پھوٹتے ہیں۔ مختلف النوع جنگلی حیات اپنی اپنی چال گاہوں میں مورچہ زن اور خوبصورت پرندے فضائے بسیط میں محو پرواز ہیں۔ ان جنگلی جانوروں اور پرندوں کا خوبصورت ماحول اور ان کا شکار بھی اس علاقے کی ثقافتی سرگرمیوں میں سے ہے۔ غرض خالق کائنات نے اس ملک کو اپنی تمام تر فیاضیوں سے نوازا ہے۔ یہاں ثقافتی سیاحت کے مواقع بھی ہیں اور ایڈونچرٹورازم بھی۔ آٹھ ہزارمیٹر سے زیادہ بلندپانچ چوٹیاں گلگت بلتستان میں موجود ہیں اور دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو اس دھرتی پر سینہ تانے کوہ پیمائوں کو چیلنج دے رہی ہے۔ ان فلک بوس چوٹیوں کو سر کرنا علاقے کے باسیوں کا مرغوب مشغلہ رہا ہے۔

دیامر کے سرسبز جنگل اور پتھروں پر جنگلی جانوروں کے تراشے گئے نقوش، نلتر گلگت کی شادابی، سکردو کی سحر انگیز سطح مرتفع دیوسائی ، کچورہ ، سدپارہ، پھنڈر ،راما اور دیوسائی حسن فطرت سے مالا مال سیاحتی مقامات کے نمونے ہیں۔ یہ بات بلا تامّل کہی جا سکتی ہے کہ یہ خطہ مختلف رنگ آمیزیوں اور جلوہ سامانیوں سے عبارت ہے ۔ یہ وصف یہاں کے فطری مناظر ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں پایا جاتا ہے۔ اس خطے کے قدیم چین اور وسط ایشیائی ممالک سے گہرے تاریخی و ثقافتی روابط رہے ہیں۔اب سی پیک کی وساطت سے رابطے کی رفتار میں مزید تیزی آئے گی۔ اشاعت اسلام کی وساطت سے ایران و عرب کے ساتھ بھی قریبی تعلقات استوار رہے ہیں۔ جبکہ ہندوستان کے مغلیہ دربار کے ساتھ تویہاں کے راجائوں کے ازدواجی رشتے قائم تھے جس نے یہاں کی تہذیب و ثقافت کو مزید جلا بخشی ہے۔ نیز کشمیر ، لداخ ، تبت اور یار قند و کاشغر کے ساتھ بھی آمدورفت اور تجارتی ، سفارتی اور ثقافتی تعلق ٹھوس بنیادوں پر استوار تھے۔ یوں اس علاقے کی تہذیب و ثقافت کے مختلف شعبوں یعنی فن تعمیر ، رسوم و تہوار ، ادب وشاعری ، موسیقی ، صنعت و حرفت اور خوراک و لباس پر گردو نواح کے ان علاقوں کے گہرے اثرات مرتب ہوئے جس سے تہذیب و تمدّن کے جو خدوخال اُبھرے ہیں وہ تحقیق کرنے والوں کے لئے کشش کا باعث ہیں۔

داستان گوئی گلگت بلتستان میں قدیم زمانے سے انسانی تہذیب و ثقافت کا حصہ رہی ہے۔ دادااور دادی اماں کی صورت میں تقریباً ہر گھر میں قصہ گو موجود ہوتے ہیں۔ بچے روتے تو دادا یا دادی جن بھوتوں اور پریوں کی کہانیوں سے ان کے دل بہلا لیتے۔ ویسے تو گلگت بلتستان میں چھوٹی بڑی کہانیوں کی تعداد سیکڑوں میں ہے لیکن داستان کیسر اس علاقے کے تاریخی و اہم ترین تہذیبی آثار میں سے ہے۔ یونیسکو نے کیسر داستان کو دنیا کی طویل ترین داستان قرار دیا ہے جو منگولیا سے گلگت بلتستان تک کے وسیع و عریض خطے کی زبان، رسم و رواج، فکرو فلسفہ اور تہذیب و ثقافت کی ماخذ ہے۔ اس داستان کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین میں داستان کیسر کو گیسرالوجی کے نام سے باقاعدہ ایک علم قرار دے کر تحقیق کے لئے کئی محکموں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔

اسی طرح پولو گلگت بلتستان کا قدیم قومی کھیل ہے اور دنیا میں اس کھیل کی ابتداء قبل مسیح کے دور میںیہیں سے ہوئی تھی۔ پولو بلتی زبان کا لفظ ہے جس کی گواہی دنیا کے تمام انسائیکلوپیڈیاز اور ڈکشنریاں دے رہی ہیں۔ آج بھی یہ کھیل قدیم انداز میں صرف گلگت بلتستان میں ہی کھیلا جاتا ہے۔

گلگت بلتستان میں بولی جانی والی زبانیں شینا، بلتی، بروشسکی، وخی اور کھوار قدیم لسانی آثار میں سے ہیں جن کے دامن مختلف تہذیبوں کے رنگوں سے مالا مال ہیں۔ یہ زبانیں ہزاروں سالوں سے مختلف وادیوں میں اپنے اپنے ماحول اور مزاج کے مطابق ارتقا پذیر ہوتی رہی ہیں۔ یہ زبانیں لوک ادب کے اعتبار سے بہت ثروت مند ہیں جن میں داستانوں، کہانیوں، لوک گیتوں، پہیلیوں، لوریوں، کہاوتوں، روایتوں اور ضرب الامثال کا وافر ذخیرہ اس علاقے کے ثقافتی آثار کا خزانہ ہے۔ ان زبانوں میں بے شمار محبت کے گیت گائے جا چکے ہیں اور معلوم نہیں ان رومانوی غزلوں نے کتنے نوجوانوں کے سینوں میں عشق کی آگ سلگا دی ہے۔

گلگت بلتستان میں سیکڑوں بلکہ ہزاروں چٹانوں اور پتھر کی سلوں پر منقش جانوروں اور مہاتما بدھ کی تصویریں، ہندسوں ا سٹوپاز کے نقوش اور بدھ مت کے گومپوں کے آثار انقلابات زمانہ کے ہاتھوں مٹ جانے کے باوجود اب بھی باقی ہیں۔ اس طرح کے چٹانی نقش و نگار ماضی میں ان علاقوں میں موجود طبعی ماحول کے متعلق اہم معلومات فراہم کرتے ہیں۔ گلگت نپورہ میں چٹان پر منقش ”یاچھینی” اور سکردو منٹھل میں واقع بدھا پتھر کا دربار بدھ مت کے مذہبی آثار میں سے اہم ترین ورثہ ہیں۔ داریل میں قائم بدھ مت یونیورسٹی اور شگر میں واقع سکیورلونگ گومپہ کی روایات سے ان علاقوں کی قدیم تاریخ و تہذیب کے کئی باب کھلتے ہیں۔

یہاں کی خوراک میں گلگت کے نسالو و ڈائو ڈائو، ہنزہ نگر کے چھپ چھورے، شربت اور درم پھٹی، بلتستان کے مارزن، پڑاپو اور ازوق دسترخوان کی زینت بن جائیں تو نہ صرف دیکھنے والوں کے منہ سے بے اختیار رال ٹپکنے لگتی ہے بلکہ اس علاقے کے لوگوں کی صحت و توانا جسم کا راز بھی انہی خالص غذائوں میں نظر آتا ہے۔

یہ دنیا کی ہر قوم کا دستور ہے کہ جب انسان کا پیٹ بھر جاتا ہے تو رقص و سرور کی محفلیں جمتی ہیں۔ گلگت بلتستان کا علاقہ موسیقی و رقص کے میدان میں بھی کسی سے پیچھے نہیں۔ بلکہ یہاں ایران وعراق، ہندوستان و تبت اور وسط ایشیائی ریاستوں کی موسیقی کے حسین امتزاج پر مبنی درجنوں اقسام کے راگ اور دھنیں رائج ہیں ان میں حریب کے نام سے ساٹھ سے زیادہ اقسام کے پکے راگ بلتستان و ہنزہ میں اب بھی رائج ہیں۔ بلتستان کے شمشیر رقص گاشوپا، چھوغو پراسول اور پھورگون کار جبکہ ہنزہ کے اپی ژھونٹ، الغنی اور دنی جیسے رقص کا تماشا دیکھنے کے بعد یہ اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ قراقرم و ہمالیہ کے پہاڑوں کے درمیان بسنے والے یہ کوہستانی لوگ کس قدر باذوق اور رقص و موسیقی کے دلدادہ ہیں۔

الحمدللہ گلگت بلتستان کے لوگ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں۔ مہمان نوازی، دیانت داری اور خلوص و محبت ان کی قومی پہچان ہے۔ اللہ رب العزت کی رضا اور اُس کی طرف سے متعین برگزیدہ ہستیوں کی خوشنودی کے لئے اپنے اپنے عقیدے کے مطابق عبادات بجا لانا اور محافل و مجالس کا انعقاد کرنا گلگت بلتستان کے باسیوں کا شیوہ رہا ہے۔

گلگت بلتستان کی اس سرزمین رنگ وبو پر مختلف ادوار میں رائج مظاہر پرستی ، زرتشتی ، بون مت، ہندومت اور بدھ مت جیسے ادیان و نظریات اور عقائد نے اس علاقے کی تہذیب و تمدن کی بنیادی پرداخت میں اپنا اپنا حصہ ڈالا۔ بالخصوص دین فطرت اسلام نے پرانی تہذیبوں پر دوررس اثرات ڈالتے ہوئے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کا شاید ہی کوئی خطہ اتنی تہذیبی و تمدنی رنگارنگی کی آماجگاہ رہا ہو۔ ان تہذیبی، تاریخی اور تمدنی حقائق کے اجزائے ترکیبی کی تحقیق کے لئے گزشتہ دو صدیوں کے دوران غیر ملکی سیاحوں،محققین اور تاریخ نویسوںنے وقتاً فوقتاً یہاں آکر خامہ فرسائی کی ہے لیکن پھر بھی اس شعبے کا ہر پہلو اپنے اندر تاریخ و ادب اور تہذیب و ثقافت کاٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر اپنے سینے میں لے کر دعوت فکر دے رہا ہے۔

سیاحت کے فروغ کے لئے کسی ملک کے تاریخی وثقافتی ورثوںاور سیاحتی مقامات کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنا نہایت ضروری ہوتا ہے لیکن یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ جات کی فہرست میں اب تک پاکستان کے صرف چھ مقامات موہن جوداڑو، تخت باہی ، قلعہ روہتاس، قلعہ لاہور، ٹیکسلا اور مکلی کا قبرستان شامل ہیں۔ یہ بات ہم بلا خوف ِ تردید کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے دیگر صوبوں کے علاوہ صرف گلگت بلتستان میں درجنوں تاریخی و ثقافتی مقامات ایسے ہیں جو یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثہ جات کی فہرست میں شامل ہونے کے قابل ہیں۔ ان میں تین سو سے پانچ سو سال کی قدیم مساجد، خانقاہیں، قلعے اور مزارات گلگت بلتستان کے طول و عرض میں بکھرے ہوئے ہیں۔ جنہیں یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثوں میں شامل کرنے کے لئے حکومتی سطح پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

سیاحت کے فروغ کے لئے جہاں تاریخی و ثقافتی مقامات اور سیاحوں کے لئے سہولتوں کی فراہمی درکار ہوتی ہے وہاں امن و امان کا قیام بھی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ایک عرصہ تک امن و امان کے مسئلے کی وجہ سے سیاحت کا شعبہ بری طرح متاثر رہا۔ اب حالات بڑی حد تک معمول پر آ چکے ہیں اور سیّاحوں نے پاکستان کی طرف رخ کرنا شروع کردیا ہے۔ خوش قسمتی سے گلگت بلتستان کا پرامن اور پر سکون ماحول دنیا میں مثالی اور عالمی سیاحوں کے لئے کشش کا باعث ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ تین برسوں کے دوران گلگت بلتستان میں تیس لاکھ سیاحوں کی آمد کا اندازہ لگایا گیا ہے ۔

سیاحت دنیا بھر میں اقتصادی ترقی اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے کا ایک اہم ذریعہ ہے اور اسے دنیا کے مختلف ممالک میں انڈسٹری کا درجہ دیا گیا ہے ۔تہذیبی و ثقافتی اقدار اور تاریخی آثار کو ملک و قوم کے روشن مستقبل کے لئے بروئے کار لانا دانشمند قوموں کا وطیرہ ہوتا ہے ۔ ہماری ثقافتی سرگرمیاں پائیدار قومی تعمیر و ترقی کی ضامن ہونی چاہئیں۔ ہماری ادبی رعنائیوں ، ثقافتی رنگارنگیوں اور آثار قدیمہ کو سیاحت سے مربوط کر کے ملک کو اقتصادی ترقی کی شاہراہ پر گامزن کرنے کے لئے گلگت بلتستان کو مشرق کا سوئٹزرلینڈ بنانا ہو گا۔

وطن عزیز پاکستان میں گلگت بلتستان جغرافیائی، تاریخی، تہذیبی، ادبی اور ثقافتی لحاظ سے سیاحت کے لئے موزوں ترین خطہ ہے ۔ لیکن ان سیاحتی مقامات اور آثار کو دانشمندانہ طریقے سے عالمی سطح پر اجاگر کرنے اور سیاحوں کے لئے درکار سہولتوں کو ممکن بنانے کی ضرورت ہے۔ نیز گلگت بلتستان کے لوگوں کو ماضی کے تناظر میں اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لاکر اور علاقے کی تہذیبی و ثقافتی قدروں کو محفوظ کرکے سیاحتی مقاصد کے لئے بروئے کار لانے کی ضرورت ہے۔ یوں گلگت بلتستان میں سیاحت کو فروغ ملے گا اور یہ شعبہ پاکستان کے لئے پائیدار اقتصادی ترقی کا ضامن ثابت ہوگا۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button