کالمز

وزیر اعلیٰ اور چیف سیکریٹری صاحب …… ایک نظر کرم ادھر بھی

تحریر: دیا زہرا

جب تک کسی معاشرے میں انسان اور انسانیت دوست ماحول تعمیر نہیں ہوگا تب تک کوئی معاشرہ ،معاشرہ کہلانے کے اہل نہیں ہوگاجب تک کسی عام انسان کو چاہے وہ مرد ہو یا عورت اس معاشرے میں بنیادی حقوق سے محروم ہو ارد گرد بسنے والوں کی آنکھوں پر بے حسی کے پردے لٹک رہے ہو تب تک کسی مظلوم یا بے بس انسان کو انصاف ملنا مشکل ہی نہیں نا ممکن سا ہو جاتا ہے اور ایسی بے بسی کا عالم کب ختم ہوگا کسی کو بھی معلوم نہیں کیونکہ غفلت کی نیند سونے والے کسی کی پرواہ کیے بغیر سو رہے ہوتے ہیں اور سسکنے والے سسک سسک کر یا تو جینے پر مجبور ہیں یا تو موت کے انتظار میں ہیں اس سوچ میں کہ جان کی پرواہ کروں یا خرچے کی۔ نہ جانے کتنے لوگ اس بے بسی میں یا تو موت کو گلے لگاتے ہیں یا لوگوں کے اگے ہاتھ پھیلانے ہر مجبور ۔۔ ایسے میں چند غیرت مند صنف نازک اپنی موت کو گلے لگالیتی ہیں نہ جانے یہ سلسلہ کبھی ختم ہوگا بھی یا نہیں یونہی چلتا رہے گا ۔بہت ساری محرومیوں کے ساتھ صبر کے ساتھ جینے والی ہزاروں ماوْں کے دکھ درد کا ادراک کرنے والا اگر کوئی نہیں تو کم از کم دوران حمل اور دوران پیدائش ہونے والی تکالیف اور نکلنے والی چیخوں کو تو سب محسوس کر سکتے ہیں یا دلوں کے ساتھ ساتھ سب کی آنکھوں پر بھی مہر لگ گئے ہیں؟؟

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی بھی نہیں کہ کہاں پر کیا ہو رہا ہے آئے روز سوشل میڈیا پر یہ خبر دیکھ کر دل دکھتا ہے کہ گلگت بلتستان میں اتنی ساری گائناکلوجسٹ کے ہوتے ہوئے بھی
پورے گانچھے کے لیئے ایک گائناکلوجسٹ میسر نہیں؟ ضلع گنگچھے کا صدر مقام خپلو جو کہ کریس سے لیکر فرانو گاوں تک پھیلا ہوا ہے واحد ایک ڈی ایچ کیو ہسپتال خپلو کے رحم وکرم پر ہےجس میں آئے روز گائناکالوجسٹ کا مسئلہ رہتا ہے خواتین کے حقوق کے حوالے سےاگر بات کی جائے توسب بولتے ہیں تقاریر سب کی اچھی ہوتی ہیں مگر عملی طور پر کام کرنے کی باری آجائے یا موقع ملے تو سب خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں کوئی کسی کے درد کو تکالیف کو محسوس ہی نہیں کر رہا ہوتا ہے لیکن ایک خوش ائند بات یہ ہے کہ آج کل لوگوں میں بہت شعور آگیا ہے اور ایشوز کو اعلی حکام تک پہنچانے کے لیے کم از کم سوشل میڈیا پر اپنا کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں گلگت بلتستان کا ایک اہم علاقہ ضلع گانچھے جس میں واحد ایک ڈی ایچ کیو ہسپتال ہے جو کہ غریب اور نادار لوگوں کا واحد سہارا ہے یہ بھی ایک لحاظ سے مسائلستان بنا ہوا ہے وہ بھی غریبوں کے لیے کیونکہ امیر کے پاس گاڑیاں ہوتی ہیں وہ اپنی مریضوں کو راتوں رات سکردو یا کسی بھی شہر لے کے جا سکتے ہیں سہولیات کے باوجودتکالیف کا سامنا انہیں بھی ہے مگر غریب اور نادار مریض خصوصًا حاملہ خواتین اپنی صحت کے بارے میں کریں تو کیا کریں وہ بچے کا سوچیں، خرچے کا سوچے یا سکردو آنے جانے کے لیے گاڑی کا بندوبست کریں یا بھاری بھر کم کرایے کا۔ ان سب کے بیچ بہت ساری خواتین زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔اسی کشمکش میں یا ماں بچے سے محروم یا معصوم بچے دنیا میں آنے سے پہلے ہی ماں کی شفقت سے محروم ہو جاتے ہیں المیہ یہ ہے کہ درد سہنے والے درد سہتے سہتے دنیا سے کوچ کر جاتے ہیں اور درد دینے والے درد کو محسوس ہی نہیں کر رہے ہوتے کیونکہ کسی کو درد کا احساس درد کی شدت کا اندازہ ہی نہیں کیونکہ ہر چیز ان کے گھروں کے دہلیز پر میسر جو ہے ۔خدارا حکومت اور محکمہ ہیلتھ سے اپیل ہےکہ اس معاملے کا مستقل طور پر کوئی حل نکالیں ایسا نہیں کرنے کی صورت میں پورے بلتستان سے خواتین جمع ہو جائیں گی پھر درد کے ماروں کو روکنا مشکل ہو جائیں گے لیکن مطالبات پورے کئے بغیر گھروں میں واپس نہیں جائیں گے۔ جناب وزیر اعلی گلگت بلتستان اور جناب چیف سکیڑری صاحب سے کہتی ہوں اپنی ماں بہنوں کو گانچھے کے خواتین کی جگہ رکھ کر ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ گانچھے کے مائیں بہنیں کس کرب سے گزر رہی ہے امید ہے کہ اس مسئلے کو حل کر کے خواتین خصوصًا حاملہ خواتین پر رحم کا معاملہ فرمایئں اس اہم مسئلے پر ہم خواتین چیف جسٹس صاحب سے بھی رہم کی اپیل کریں گے۔سننے میں یہ بات بھی آئی ہے کہ جو بھی ڈاکٹر یا لیڈی ڈاکٹرز گانچھے میں تبادلے ہو کر آتے ہیں انہیں وہ مراعات و سہولیات نہیں دی جاتی جن مراعات کی بات پہلے کر کے لائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے بیچ راستے میں ہی بھاگنے پر مجبور ہو جاتیں ہیں اور کوئی بھی آنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جناب وزیر اعلی اور ہسپتال کے ایم ایس صاحب سے گزارش ہے کہ ان مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے فوری طور پر خپلو ہسپتال میں گائناکلوجسٹ تعینات کی جائے اور اپنی ماوں بہنوں پر رہم کی جائے تاکہ ِضلع کی مجبور خواتین بے بسی کی موت مرنے پر مجبور نہ ہوں ۔ایک سوال یہ ہے کہ خواتین کی فلاح و بہبود میں کیا خواتین کی صحت کے معاملات شامل نہیں ؟اگر نہیں تو کیوں نہیں اور اگر ہے توابھی تک یہ معاملا حل طلب کیوں بنا ہوا ہے ؟کسی اخبار کی ایک خبر پر میری نظر پڑی جس کو میں اپنی تحریر کے پیچ میں شامل کر رہی ہوں )

 وزیر بلدیات حاجی عبد الحمید صاحب سے فاطمہ سیدہ موسوی ایڈیشنل جی ایس ویمن ونگ جی بی و ثروت صبا سیکرٹری انفارمیشن ویمن ونگ جی بی اور چیر پرسن ماں
فاؤنڈیشن یاسمین افضل کی ملاقات۔
بلدیاتی الیکشن میں خواتین کی فعال شرکت سمیت علاقے میں خواتین و بچوں کے بہبود پر تفصیلی گفتگو
عبد الحمید صاحب مخلص و پر عزم ہیں کہ علاقے کی ترقی اور خواتین کی فلاح و بہبود کے لئےہر ممکنہ تعاون کرنیگے)
بہت بہت شکریہ محترمہ سیدہ فاطمہ اور یاسمین افضل صاحبہ آپ لوگوں نے ضلع کی خواتین کی فلاح و بہبود کی بات کی اور آپ ہمیشہ خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتی ہیں اور جناب عبدالحمید صاحب نے خواتین کی فلاح وبہبود کے لیے ہر ممکنہ تعاون کی یقین دہانی بھی کروائی ۔جناب عالی آپ سے میری یہ گزارش ہے کہ اس فلاح وبہبود میں اس ضلع کی خواتین کی صحت کے مسائل پر بھی ایک نظر کرم کیجئے تو بڑی نوازش ہوگی کیونکہ جان ہے تو جہان ہے جب تک ماں اور بچے کی صحت کے معاملات بہتر نہیں ہونگے معاشرے میں خواتین بہتر انداز میں اپنا کردار ادا نہیں کر سکتی لہذا اس طرف بھی ایک نظر کرم کیجئے ہمیں بھی آپ سے امید ہے کہ آپ خواتین کی فلاح و بہبود کی بھر پور نمائندگی کریں گے اور خواتین کی صحت کے معاملے میں درپیش مسائل اور ہسپتال میں خواتین ڈاکڑز کی کمی کا فوری نوٹس لیں گے۔ ایک اور سوال یہ ہے کہ کیا ضلع گانچھےکی سیٹ پر کوئی بھی لیڈی ڈاکڑز ایم بی بی ایس کے لیے نہیں گئیں اب تک؟ انتظامیہ کو چاہیےکہ ان تمام پہلوں پر نظر ثانی کر کے خپلو ہسپتال کے اس سنگین مسئلے کا کوئی نہ کوئی حل نکالیں بڑی نوازش ہوگی ۔جس طرح مرد اس معاشرے میں منفی اور مثبت کردار دونوں ادا کر رہے ہوتے ہیں اسی طرح خواتین بھی اس معاشرے میں دونوں کردار ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور زندگی کے دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑھتا ہیں ان سب راستوں سے گزرتے ہوئے زندگی گزارتی ہیں اور بنیادی حقوق تمام مردوزن کا حق ہیں ان میں سے ایک حق بنیادی صحت کے حقوق ہیں اور بنیادی صحت کے حقوق میں ماں اور بچے کی صحت بہت اہم ہیں اور عوام سے گزارش ہیں کہ اسے اجتماعی فرائض سمجھ کر سب اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ یہ بات بھی سچ ہے کہ اس وقت پورے بلتستان کے مریضوں کا رش سکردو ہسپتال پر ہے۔ تین ,گائناکالوجسٹ تمام گائنی کیسز سمیت سرجری کے معاملات اور او پی ڈی سنبھال رہی ہیں۔ہماری وہ ایم بی بی ایس لڑکیاں اسوقت کہاں ہیں جو اپنے اپنے ضلعوں ،گاوں کے ڈومیسائل پر ہماری مختص میڈیکل سیٹوں پر پڑھ کر فارغ ہوئی ہیں اور غائب ہیں۔
سکردو،خپلو،شگر ،روندو کی سیٹوں ہر ہر سال میڈیکل کالجز سے فارغ التحصیل ڈاکٹرز کو پابند کیا جائے کہ وہ کم از کم 10 سال بلتستان کے دور دراز علاقوں میں اپنی خدمات سر انجام دیں۔ اور آخر میں جناب وزیر اعلئ چیف سکیڑری سمیت علاقے کے عوام اور سارے ایلیکٹیٹ کونسلرز اور وزراء صاحبان سب سے گزارش ہے کہ خدارا اس مسئلے کا سب مل کے فوری اور مستقل حل تلاش کریں ورنہ مہربان آتے آتے بڑی دیر ہو جائے گی۔

کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اُس قوم کا خورشید بہت جلد ہُوا زرد

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button