وزیر اعلیٰ سو شل میڈیا سے خائف یا چیف سیکریٹری کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے نالاں؟
سرکاری ملازمین کیلئے فیس بک کے استعمال کی ممانعت در اصل وزیر اعلیٰ کی چیف سیکریٹری سے مخاصمت کا نتیجہ ہے۔
تجزیاتی رپورٹ:شمس پارس قریشی
گلگت بلتستان کا خطہ گزشتہ چھ دہائیوں سے بنیادی حقوق سے محرومی کا شکار رہا ہے اور مہذب دنیا کو اس خطے کے عوام کو درپیش مسائل سے کوئی آگاہی حاصل نہ تھی چنانچہ پاکستان کی جمہوری اور فوجی حکومتوں نے بھی اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام کے مسائل کو یکسر نظر انداز کر تے ہوئے انکے وسائل کو بے دریغ لوٹا لیکن بدلے میں انکی سیاسی،سماجی اور معاشی حالت بہتر بنانے سے چشم پوشی سے کام لیا۔گزشتہ دہائی میں ابلاغ عامہ میں آنے والی جدید تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان او ر دنیا بھر کے عوام کو اس خطے کے حالات سے شناسائی ہوئی اور حکومت کو یہاں کے عوام کو اکسیویں صدی میں بھی بنیادی حقوق سے محرومی کر نے پر کڑی تنقید کا نشانہ بننا پڑا ۔میڈیا اور سول سوسائٹی کی قربانیوں کی وجہ سے حکمران گلگت بلتستان کیلئے صوبائی طرزکی مقامی حکومت قائم کرنے پر مجبور ہوئے اور یوں اقتدار کی طنابیں کانا ڈویژن سے چھین کر گلگت بلتستان کے منتخب نمائندوں کے حوالے کیا گئیں۔بدقسمتی سے گلگت بلتستان کے سیاستدان اس قیمتی موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خطے کی تقدیر بدلنے کے بجائے اپنی اور اپنے اقربا کی تقدیر سنوارنے کافیصلہ کر بیٹھے جسکی وجہ سے گلگت بلتستان کے محروم عوام کی امیدوں پر ایک بار پھر سے اوس پڑگئی۔
گلگت بلتستان کے عوام کو پسماندہ رکھنے میں بیوروکریسی کا کردار نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور مقامی سیاستدان بھی بیوروکریسی کے ہتھکنڈوں کو گلگت بلتستان کے عوام کی محرومیوں کی اہم وجہ گردانتے تھے۔پیپلزپارٹی حکومت کی جانب سے گورننس آرڈر کے نفاذ اورصوبائی طرز حکومت کے قیام کے بعد اقتدار کا سرچشمہ وزیر اعلیٰ اور گورنر کو گردانا جاتا ہے اور وزیر اعلیٰ نے بھی حسب توفیق چیف سیکریٹری سمیت دیگر بیوروکریٹس کی خدمات وفاق کو واپس کر نے کیلئے اپنا کردار ادا کیا جو انکے عزائم کی راہ میں روڑے اٹکا رہے تھے۔گلگت بلتستان کے موجودہ چیف سیکریٹری سجاد سلیم ہوتیانہ نے اپنا منصب سنبھالنے کے بعد گلگت بلتستان میں جاری حکومتی لوٹ کھسوٹ اورسرکاری حکام کی من مانیوں کا نوٹس لیتے ہوئے عوامی شکایات کے ازالے کیلئے نہ صرف مختلف اضلاع کا دورہ کیا اور ترقیاتی منصوبوں میں تعطل کا سختی سے نوٹس لیا بلکہ سوشل میڈیا اور خصوصا فیس بک پر گلگت بلتستان کے نوجوانوں کیساتھ براہ راست رابطہ استوار کر تے ہوئے ان سے خطے کے مسائل کے حل کیلئے تجاویز طلب کیں اور نوجوانوں کی جانب سے کرپشن کی نشاندہی اور بیڈ گورننس کا سختی سے نوٹس لیا۔چیف سیکریٹری نے نہ صرف طلباء کو خطے کے مسائل کیلئے حکومتی اقدامات سے آگاہ رکھا بلکہ گلگت بلتستان کے طلباء کیلئے سکالر شپ کے حصول کیلئے تگ و دو کی اور طلباء وفد کی سیکریٹری تعلیم سے ملاقات اور اس معاملے کو وزیر اعظم تک پہنچانے کیلئے عملی کردار کیا۔چیف سیکریٹری کے عوام دوست اقدامات کسی بھی طرح وزیر اعلی ٰ اور انکے حواریوں کو قابل قبول نہیں تھے کیونکہ طلباء کیلئے سکالرشپ کا مسئلہ دراصل سیاسی تھا اور وزیر اعلیٰ اگر اس معاملے میں نیک نیتی سے
کام لیتے تو بر وقت حل نکالا جا سکتا تھا مگر وزیر اعلیٰ کو طلباء کی مشکلات سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔چیف سیکریٹری کی پذیرائی وزیر اعلیٰ کو ایک آنکھ نہ بھائی اور انہوں نے فورا سرکاری ملازمین کیلئے فیس بک کے استعمال کی ممانعت کا بیان جاری کر دیا حالانکہ گلگت بلتستان میں بجلی کے بحران اور انٹرنیٹ کی سہولیات کی عدم موجودگی کی وجہ سے سرکاری ملازمین انٹرنیٹ کی سہولیات سے مستفید ہونے محروم ہیں۔عوامی اور سماجی حلقوں کا اس بارے کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ دراصل چیف سیکریٹری کو نوجوانوں کیساتھ INTERACTIONبڑھانے سے روکنا چاہتے ہیں تاکہ انکی کارکردگی کا بھی کریڈٹ خود لے سکے۔گلگت بلتستان اسمبلی اور کونسل کے ارکان میڈیا اور خصوصا سوشل میڈیا کی افادیت سے آگاہ نہیں ہیں اور اگرانہیں اسکی اہمیت کا اندازہ ہوتا تو نہ صر ف خطے کے مسائل کے حل اور اپنے ووٹروں کیساتھ براہ راست
رابطے کیلئے اس جدید سہولیت سے فائدہ اٹھا سکتے تھے لیکن ان کا بنیادی منشا عوامی مسائل کو پس و پشت ڈالتے ہوئے اپنے مفادات کی نگہبانی ہے۔وزیر اعلیٰ اور کابینہ کے اراکین اس سے قبل بھی موجودہ چیف سیکریٹری کی تبدیلی کیلئے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال کر بیٹھے ہوئے تھے لیکن پیپلز پارٹی حکومت کے خاتمے کے بعد انکے منصوبے کو کسی نہ در خور اعتنا نہ سمجھا لیکن اندرون خانہ کرپٹ حکومت کے اراکین چیف سیکریٹری کے خلاف سازشوں سے باز نہیں آئے ہیں اور وزیر اعلیٰ کے کان بھرتے رہتے ہیں۔چیف سیکریٹری نے اپنے فیس بک پیج پر طلباء سے اس بارے رائے بھی طلب کی تھی کہ انہیں فیس بک کا استعمال جاری رکھنا چاہئیے یا اس سلسلے کو روک دینا چاہئے ،نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے وزیر اعلیٰ پر نکتہ چینی کر تے ہوئے انکے بیان کو مضحکہ خیز قرار دیا اور چیف سیکریٹری کو عوام اورخصوصا نوجوانوں کیساتھ رابطہ مزید استوار کرنے کا مشورہ دیا۔ گلگت بلتستان حکومت کا المیہ رہا ہے کہ خطے کے وسائل کے استعمال اور سیاحت کے حوالے سے سوشل میڈیا کی خدمات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کر نے کے بجائے کرپشن اور اقربا پروری کا بازار گرم کئے ہوئے ہے اور اگر کوئی مخلص،دیانتدار اور فرض شناس ملازم ان کی راہ کی دیوار بنا تو حکومتی اور اپوزیشن اراکین ملکر ان کو گلگت بلتستان سے بدر کر نے کیلئے مفاہمت کی پالیسی اپنانے سے دریغ نہیں کر ینگے۔