اسلام آباد سے گلگت تک
ہدایت اللہ آختر
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ موت کا ایک دن معین ہے وقت سے پہلے کبھی موت نہیں آتی اور وقت آگیا توایک لحمہ آگے پیچھے نہیں ہو سکتی اسکا یہ بھی مطلب ہر گز نہیں کہ انسان بے سوچے سمجھے دریا میں چھلانگ لگا لے یا پہاڑسے کود جائے۔اگر ایسا کرے گا تو یہ بات یقینی ہوگی کہ وہ اس عمل سے زخمی ہوگا یا مر جائیگا۔۔موت تو برحق ہے لیکن موت کے بارے یہ بھی حکم ہے کہ کوئی انسان اپنی زندگی میں اس کی آرزو نہ کرے اور اپنی موت کی کبھی بھی دعا نہ کی جائے اسلام میں ایسا کرنا نا پسندیدہ عملتصور کیا گیا ہے۔۔انسان کواللہ نے اشرف المخلوت بنایا ہے اس لئے کہ وہ اپنی عقل و فراست سے اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے اور اپنی زندگی سے استفادہ اٹھائے ۔۔یہ بھی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ گلگت کی سردیاں بہت ہی سخت اور تکلیف دہ ہوتی ہیں اس لئےہم نے بھی سوچا کہ جب گلگت بلتستان اسمبلی کے ممبران سردیاں اسلام آبادکے پرفضا مقام میں گزارتے ہیں تو کیوں نہ ہم بھی یہ سردیاں اسلام آبادمیں گزاریں اور زندگی کا لطف اٹھائیں ۔۔پروگرام کے تحت نومبر سے لیکر فروری تک ہم گلگت بلتستان کے سرمائی صوبائی دارالحکومت اسلام آبادمیں مقیم رہے اس دوران اسلام آباد میں دوستوں اور احباب سے ملاقاتیں بھی ہوئیں جو اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں اور بڑے خوش اورخرم بھی ایک بات کا میں نے اندازہ لگایا کہ میرے یار دوست اور احباب چاہئے ان کا تعلق کسی بھی طبقے سے تھا ان سب میں ایک بات مشترک نظر آئی کہ وہ پنشن کے بعد بھی گلگت نہیں جانا چاہتے اب یہ نہ پوچھے کیوں؟ جواب واضح ہے کسی تشریح کی ضرورت نہیں بلکہ میرے چنددوستوں نے مجھے یہاں تک مشورہ دیا کہ آپ بھی اسلام آباد منتقل ہو جائیں ۔۔
اب میرے ان دوستوں نے ایسا کیوں سوچا ہے اورمجھے گلگت سے اسلام آباد منتقلی کی دعوت کیوں دی اس بارے میں بھی سوچتا ہوں اور آپ بھہ سوچیں کہ گلگت جسے ہم جنت نظیر سے تشبیع دیتے ہیں کیوں اب یہ ہمیں اور ہمارے دوستوں کو نہیں بھا رہا ہے اور ہم یہاں رہنے سے احتراز کر رہے ہیں ۔۔۔۔میں اس میں زیادہ تفصیل میں جانا نہیں چاہتا۔۔دوسری بات جو میں نے دیکھی وہ یہ کہ جی بی اسمبلی کے ممبران بمعہ اہل عیال جی بی ہاوس میں تین تین اور چار چار کمروں میں مقیم ایک ٹکٹ میں دو مزے لے رہے تھے کچھ تو شائداب بھی وہاں پر ہیں کیوں نہ ہوں ایسے مواقع بار بار تھوڑے ملتے ہیں بھائی زندگی میں اللہ نے موقع دیا ہے تو پھر فائدہ کیوں نہ اٹھایا جائے ۔جب کوئی چیز مفت مل جائے تو کیا ہرج ہے ۔بحر حال اس اس بارے گلگت بلتستان کی صوبائی حکوت بہتر جانتی ہوگی کہ جی بی ہاوس میں کون لوگ رہائش رکھنے کے حقدار ہیں ۔۔ہمارے معلومات کے مطابق جی بی کے سرکاری عہدہدار اور جی بی کے ممبران ۔۔تو پھر سالے اور تائے کس کھاتے میں جبی بی ہاوس کے مہمان بنتے ہیں ۔۔کوئی بتلائے ہمیں ہم بتلائیں کیا؟یہ تو تھی چند ضمنی باتیں جو چلتے چلتے آپ کے ذہن پر سنگ گراں کی طرح پھینک دیا ہے امید ہے کہ آپ لوگ برا نہیں ما نینگے۔۔۔اور اس بارے ضرورسوچنگے کہ کیا ہمارے یہ نمائندے عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے اسلام آبادآتے ہیں یا اسلام آباد کے آقائوں سے شرف ملاقات کے لئے پوری کی پوری سر دیاں گرین اسلام آبادمیں گزارتے ہیں ۔۔قارئین اسلام آباد سے گلگت اورگلگت سے اسلام آبادآنے اور جانے کے صرف دو ہی راستے ہیں ایک ہوائی سفراور دوسرا ذریعہ شاہراہ قراقرم۔۔ یہ دونوں سفر کے ذرایعے یہاں کی غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہوتے جارہے ہیں ۔۔ایک سفر تو ہوائی ہے جس کے کرایہ کا نرخ سن کر ہی عوام بے چارے ہوا میں باتیں کرتے ہوئے لاجواب سروس کے گیٹ سے باہر پھر سے نکل جاتے ہیں نکل کیا جاتے ہیں پھرسے اڑ جاتے ہیں اورآئندہ اس طرف ان کا رخ نہیں ہوتا ۔۔۔دوسرا سفر جو ہوائی سے کسی قدر سستا ہے لیکن یہاں سفرکرنے سے پہلے عوام ہزار بار بلکہ لاکھ بار سوچتے ہیں کہ ہوائی سفر میں تو جیب ہلکی اور قرضہ کا بوجھ پڑ سکتا ہے لیکن خشکی کے اس سفرمیں تو اٹھائیس گھنٹے پر خطر راہوں کے خوف سے آدھی جان نکلتی ہے تو دوسری طرف خونخوار نا معلوم دہشتگردی کے تصور سے ہی سفرسے پہلے پوری جان نکل جاتی ہے ۔۔۔شاہراہ قراقرم جسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہا جاتا ہے ۔۔۔اس آٹھواں عجوبے کا حال بھی ایسا ہی ہے جیسے ہمارے صوبہ گلگت بلتستان کا بس یہ شاہراہ بھی کسی شناخت کے بغیر دنیا کا آٹھواں عجوبہ کہلاتی ہے جیسے گلگت بلتستان کا صوبہ بغیر شناخت کے صوبہ کہلاتا ہے ۔۔پہلے زمانے میں شاہراہ ریشم کہلاتی تھی میں اس کی تاریخ بیان کرنے نہیں جارہا زندگی رہی تو تاریخ پھر بیان کرینگے ابھی میں یہ بتانے لگا ہوں کہ اسلام آبادسے گلگت پہچنے کے لئے ہم نے گلگت بلتستان کی سرکاری ٹرانسپورٹ کو ترجیح دی اور مقررہ وقت پر جائے روانگی پہنچے ۔
وہاں سے معلوم ہوا کہ روانگی میں تاخیرہے ۔۔۔اسلام آبادسے روانہ ہوتے وقت ہمارے ذہن میں یہ بات تھی کہ ہم بارہ تیرہ گھنٹے جو معمول کا سفرہے طے کرینگے لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ اس شاہراہ میں حفا ظت کے نام پر دوصوبائی حکومتوں نے مزید کانٹے اورروڑے اٹکائے ہیں ۔۔۔۔اسلام آبادسے تھوڑی دورہی گئے تھے کہ ڈریئور نے گاڑی خراب ہونے کی اطلاع کردی اورگاڑی کوراستے کے ایک طرف کھڑا کر دیا اور اپنے معاون ڈرئیور کی مددسے گاڑی کا اپریشن شروع کردیا۔۔۔جب کافی دیرہوئی تو راقم نے پوچھا کہ اگر گاڑی اس قابل نہیں کہ گلگت جاسکے اورویسے بھی اتنے لمبے سفرمیں رسک لینا عقلمندی نہیں ہمیں آپ واپس اسلام آباد لے چلیں تو شوفر نے جوابا کہا کہ نہیں ایسی کوئی بات نہیں یہ کہتے ہوئے اس نے مسافروں کو بس میں بٹھایا اور ہم دوبارہ اپنی منزل گلگت کی طرف روانہ ہوئے لیکن مانسرہ پہچنے سے پہلے ہی گاڑی جواب دے گئی ۔۔کافی انتظارکے بعداسلام آبادسے دوسری بس آئی جس پر ہم نے اپنا سامان لوڈکروایا اورمانسرہ کی طرف رواں دواں ہوئے۔۔ازراہ اپنی معلومات اور وقتگزاری کے لئے میں ڈرائیور سے ہمہ تن گفتگو بھی رہا باتوں باتوں میں اس کی زبانی راستے میں حفاظتی اقدامات سے متعلق بہت س باتوں کا پتہ چلا اور اسی سفرمیں اسکا تجربہ بھی ۔
۔جب ہماری بس مانسرہ پہنچی تو رات کے آٹھ بج رہے تھے اور بہت سی دیگر گاڑیاں ایک چھوٹے سے ہوٹل کے سامنے کھڑی تھیں ہم جب بس سے اترے تو ہوٹل کا رش دیکھ کر حیران ہوئے یا الہی یہ ماجرہ کیا ہے یہ ساری بسیں ایک ساتھ یہاں کھڑی کیوں ہیں پتہ چلا کہ اب یہ بسیں رات کے بارہ بجے تک یہاں سے آگے نہیں جا سکتی جب تک سکیورٹی کا عملہ نہیں آتا ۔ہوٹل کے اندر اور باہر مسافروں کا حال بڑا ہی دیدنی تھا کسی کو کھانے کی فکر تھی تو کسی کو واش روم کی حاجت مرد حضرات تو خیر سے کسی نہ کسی طرح اپنے آپکو ریلیکس کر رہے تھے لیکن عورتیں۔۔بس پوچھو ہی نہیں بے چا ری بڑی پریشان اور سہمی ہوئی۔۔۔لو جی جیسا سنا تھا ویسا ہی ہو رہا تھا پاکستان ایک ایڈونچر واقعی ہم ایک ایڈونچر پر تھے ہم مانسہرہ کی رکاوٹ عبور کرنے کے لئے بے قرار اور دوسری طرف سیکیورٹی والے کہیں نظر نہیں آرہے تھے خدا خدا کرکے جب بارہ بجے تو ایک پولیس وین نظر آئی جس میں گنتی کے چار سکیورٹی اہل کار ہمیں نظر آئے ۔۔ان کو دیکھ کر میرے دل سے ایک آواز آئی کہ ہم عوام بھی کتنے سادہ لوح اور انتہائی درجے کے احمق ہیں کہ رات بارہ بجے اس مہم جو اور پر خطر راہ میں صرف چار سکیورٹی والوں کے بھروسے پر پچاس بسوں کے قافلے کے ساتھ ہول رہے ہیں جب یہ قافلہ روانہ ہوا تو مجھے ایک اور بات کا بھی احساس ہوا کہ ہم حفاظت کے نام پر کتنے غیر محفوظ ہوئے ہیں اور اس کا میں نے پورے سفر میں اندازہ بھی کیا اور مشاہدہ بھی ۔۔یہی مناظر بشام، پھر پٹن اور بصری کے مقامات میں بھی مجھے دیکھنے کو ملے وہی تین چار سکیورٹی کے اہل کار اور وہی پک اپ اور سکیورٹی کا عملہ کانوائے سے پانچ یا اس زیادہ آگے کانوائے سے اوجھل یہ جا وہ جا ۔۔واہ خیبر پختونخواہ اور جی بی کی صوبائی حکومتو کا کیا کہنا ہے آپ کی سکیورٹی کے انتظامات کا ۔۔۔آپ کے سکیورٹی کے انتظامات سے یوں لگتا ہے کہ اکیلے کیا مرنا ہے مرینگے تو سب ساتھ ہی مرینگے۔کیوں ایسا ہی ہے نا ۔۔۔۔۔سکیورٹی کی اندرونی کہانی بھی نرالی کہانی ہے اس سکیورٹی سے فائدہ کس کو مل رہا ہے مسافروں کو یا شاہ کے وفاداروں کو۔۔۔۔۔۔بس ہمیں اسلام آباد سے گلگت سفر کے دوران اس بات کا اندازہ ہوا کہ اب سفر کا دورانیہ دوگنا بھی ہوا ہے اور یعنی چودہ گھنٹے کے بجائے آٹھائیس گھنٹے اور بہت غیر محفوظ بھی۔۔اللہ نہ کرے کہ کسی دن زلزلے کی جھٹکے کی طرح کوئی جھٹکہ لگے ۔۔۔۔اس پر ہماری صوبائی حکومت کو ضرور توجہ دینی چاہئے.
بہترین اور شاندار آرٹیکل لکھا ہے، میں بھی کئی بار اس پریشانی کا سامنا کر چکا ہوں نا جانے کیوں یہ نا اہل حکومتیں اس بات پر غور نہیں کر تیں شاید ان سرکاری افسران کو ضرورت ہی نیں ھوتی بائے روڈ سفر کرنے کی ان کے لیئے بائے ائیر سفر کرنا کوئی مشکال نہیں ہو گا،اور کانوائیے کے نام پر لوگوں کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے۔