کالمز

اپر چترال میں APML بھیڑئے کے ساتھ کھا کر مالک کے ساتھ رونے کا ڈھونگ تو نہیں رچارہا ہے؟

تحریر :۔ نیر علی بونی چترال 

چترال کی عوام طویل عرصے سے پرویز مشرفکو اپنا محسن سمجھ کے اُس کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو گویا اپنا فرض منصبی سمجھتی آئی ہے ۔مشرف کے ہمارے اوپر احسانات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔حالیہ الیکشن کے دوران APML کے منتخب امیدوار وں نے پرویز کے احسانات اور چترالی عوام کے لئے خدمات کا ڈنکا خوب بجایا ۔ ایک پولنگ اسٹیشن میں میری ملاقات ایک بوڑھی اماں جی سے ہوئی جو چل نہنہیں سکتی تھی بلکہ اُسے اٹھا کے لایا گیا تھا ۔میں تو دادی اماں سے استفسار کئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا لہذا پوچھ ہی لیا کہ اماں آپ ووٹ کس کو دیں گئیں؟ فرمانے لگی’’ میں اپنے بیٹے مشرف کو ووٹ دوں گی۔‘‘میں نے کہا کہ ،اماں جی کیا آپ کو پتا ہے کہ مشرف جیل میں ہے اور اسکی جگہ اُسی پارٹی سے کوئی اور الیکشن لڑ رہا ہے ۔ بولیں، ’’بیٹا مشرف میرا بیٹا ہے وہ اپنی جگہ کسی کتے کو بھی بھیجتا تو میں پیروں سے نہیں بلکہ سر کے بل چل کے آتی اور ووٹ دیتی ۔‘‘

یہ اس دادی اماں کا اپنے علاقے سے محبت تھی کہ جس نے اُس کے علاقے کے لئے سوچا اُس کے لئے دادی اماں سر کے بل چل کےآئی اور اپنا حق رائے دہی اپنے محسن کے لئے استعمال کیا ۔یاد رہے کہ یہ ایک دادی اماں نہیں تھی بلکہ 10848 دادی اماؤں کی دل کی آواز تھی اب ان دادی اماؤں کو یہ قطعی طور پر معلوم نہیں تھا کہ اُن کے بیٹے پرویز مشرف نے جس آدمی پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی جگہ الیکشن لڑنے کے لئے اجازت دی ہے وہ شخص پرویز مشرف کی ماں جی کو نیلام کو اسمبلی میں نیلام کرے گا ۔

میں کوئی وکیل نہیں ہوں اس لئے یہ جاننا میرے لئے بعید از قیاس ہے کہ APML کے الیکشن بائکاٹ کرنے کیباوجود بھی اُس کی پارٹی کے نو وارد امیدواران اُسی پارٹی کا انتخابی نشان لیکر کیسے میدان میں کود آئے؟ تاہم اس سوال کا ایک ہی ممکنہ جواب شاید یہی ہو سکتا ہے کہ جو لوگ پرویز کے نام پر کتے کو بھی ووٹ دینے کے لئے تیار تھے , اُنہوں نے اپنا فرض خوب نبھایا ۔عوامی حلقے کے یہ الزامات کہ PK-90 میںAPML کے نامزد امیدوار نے ووٹ لینے لے لئے ریڑھیاں بانٹیں ، پیسے دیے ، ایک موبایل یا ایک لیپ ٹاپ سے لوگوں کے ضمیر کو خریدا اور یا اپنے قبیلے کے سادہ لوح لوگوں کو ان کے بھائی ہونے کا جھانسا دیکر ووٹ حاصل کیا ،دادی اماں کی نظر میں محض الزام تراشی کے علاوہ کچھ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آج ایک اور سیاسی افوح پھیل گئی کہAPML کا امیدوار پاکستان تحریک انصاف میں ضم ہو کے اپنی وفاداری دکھانا چاہتے ہیں تو میرے دل میں ہزاروں سوالات اُبھرنے لگے ۔ مثلاً،پرویز کے نام پر ووٹ لیکر عمران خان کے ساتھ ضم ہونا کیوں ؟ پارٹی بائکاٹ کے باوجود بھی مشرف کی پارٹی کے انتخابی نشان کا استعمال کیوں ہوا۔؟اگر لوگوں کا اعتماد تحریک انصاف پر تھا تو رحمت غازی جیسے خادمِ قوم کا کیا قصور تھاَ ؟اگرAPML نے پرویز مشرف کے شانوں پر بندوق رکھ کے اَپر چترال کے لوگوں کو نشانہ بنایا ہے تو یہ قوم اپنا لہو کس کے ہاتھ میں تلاش کرے ۔؟اگر APML کے حق میں استعمال ہونے والے ووٹ اسکے شخصی ہیں تو پرویز مشرف کا نام کیوں استعمال ہوا ہے ۔؟ کیا اس الیکشن سے پہلے بھی حاجی صاحب APML یا پھر PTI میں تھا ۔؟ کیا الیکشن کے دوران APML کے نامزد امیدواروں نے PTI کو بلّے باز نہیں کہا تھا ۔؟کیا مشرف کو محسن چترال کہنے والے آج اپنے ضمیر کو نہیں بیچ رہے ہیں ۔؟یہ اور ایسے ہزاروں سوالات ہر ذی عقل اور اہلِ فہم و ادراک کے اذہان کو چبھتے رہتے ہیں۔

جمہوریت میں نظریہ اپنے لئے وضع کردہ اصولوں کے لئے مر مٹنے کا نام ہے ۔ہم شاید یہ کہتے ہوئے شرمندہ نہیں ہوتے ہیں کہ ہم کسی ذاتی حلقہ بگوش کی طرح فروخت ہو رہے ہیں ۔کیا میں چترال کے عوام سے یہ پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں کہ آپ نے پرویز مشرف کو محسن چترال کا لقب عطا کرکے اُس کی طرف سے الیکن بائکاٹ کا حکم عدولی کرکے کیا واقعتاً اس پر احسان کیا ہے؟ ۔ اگر ایسا نہیں تھا تو پھر یہ ہماری خود داری اور ہمارے ضمیر کے ساتھ ہولناک ہولی کیوں کھیلی جا رہی ہے ؟ اُس سفر کا انجام کیا ہوگا جہاں امیر سفر اپنی اسائش و دلجمعی کے لئے قافلے میں شامل غریب غربأ کو ہر ہر پڑاؤ پراونے پونے دام بیچتا ہوا ایک بے نشان منزل کی طرف رو بہ سفر ہو ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button