شناختی کارڈ اور آئینی حقوق!
تحریر: محمدجان رحمت جان
یونیورسٹی کلاسوں میں سیاسی بحث و مباحثہ ہوتے رہتے ہیں۔ اتفاق سے ہماری کلاس میں ایک دن’’جمہوریت‘ حکومت اور احتساب‘‘ کے پروفیسر صاحب نے کہا کہ آپ میں سے کون کون کس کس کو ووٹ دیں گے؟ سب طلباء نے فوراَپوزیشن سنبھالی اور جواب دینے کیلئے تیار ہوگئے۔ پروفیسرصاحب سیاسی جماعتوں کے منشور اورمنشور کے فلسفے پر بولنے والے تھے۔ وہ ہمیں یورپ‘ افریقہ‘ ایشیاء‘ اسٹریلیاں اور امریکہ کے جمہوری حکومتوں کے بارے میں بتا چکے تھے۔ یہ سبق نصاب میں شامل ہونے کی وجہ سے تفصلاَ بحث ضروری ہوگئی تھی۔ تمام دوست اپنا جواب تیار کرچکے تھے اور ابھی ہم پاکستان کے سیاسی جماعتوں کے منشور پر بحث کرنے والے تھے۔ استاد نے سب سے فرداَ فرداَ پوچھنا شروع کردیا کہ آپ کس کس سیاسی پارٹی کے حق میں ہے اور آپ ووٹ کیوں اُس کو دینا چاہتے ہیں۔پنجاب‘ سندھ‘ خیبر پختواں اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ قبائلی علاقوں کے میرے دوستوں نے اپنی اپنی رائے دے دی ۔ کچھ غیر ملکی دوست تھے وہ فوراَ بول پڑے کہ ہمارا ووٹ ہمارے ملک میں ہوگا۔پروفیسر نے کہا آپ کہاں کے ہیں۔ میں نے کہا سر!’گلگت بلتستان کا ہوں اور میرا ووٹ مرکزی قومی اسمبلی اور سینٹ کے لئے نہیں‘۔وہ بولے شناختی کارڈ کہاں کا ہے؟ میں نے کہا ’پاکستان کا!‘۔ سب بول رہے ہیں آپ خاموش کیوں؟ میں سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا جواب دوں؟ میرے چہرے پر بے چینی دیکھ کر استاد بول پڑے کہ آپ پریشان کیوں ہیں۔ مجھے یقین نہیں آرہی تھی کہ میں کون ہوں اور میرا ووٹ کیوں نہیں؟ میرا دماغ چکرا گیا اور میں ایک منٹ کیلئے خیالات کی دنیا میں گم ہوگیا۔
خیال کی دنیا میں ماضی کی یاد شروع کی جب ہائی سکول اشکومن ضلع غذر گلگت بلتستان میں قاعدہ کلاس میں داخل ہوا تھا تو سب سے پہلے دن وہاں کے استاد نے ہمیں ’اردو کے حروف سیکھاتے ہوئے بتایا تھا کہ’’ ا سے اللہ‘ ب سے بسم اللہ‘ پ سے پاکستان‘‘۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مجھے پڑھایا تھا کہ’ ہمارے پیارے ملک کا نام پاکستان ہے‘ ہم سب پاکستانی ہے۔ پاکستان ایک مسلم ملک ہے۔ گلگت بلتستان نے آزادی کے بعد پاکستان میں شمولیت اختیار کی‘ وغیر وغیرہ۔ ہم نے اُس دن سے نہ صرف اردو کے اِن حروف کو ازبر کیا بلکہ اِن الفاظ کو اپنا جزو ایمان بنایا۔ ہم ہر صبح اسمبلی میں پاکستان کا قومی ترانہ بڑے فخر اور قومی جذبے سے پڑھتے رہے ہیں اور سبز ہلالی پرچم کو بلند کرتے ہوئے سب چیخ چیخ کر پکارتے رہے ہیں’پاکستان زندہ باد پاکستان پائندہ باد‘‘۔ اُس دن سے اب تک اور قاعدہ سے بی۔اے تک کی معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان پڑھ پڑھ کر اس بات کی توثیق کررہے تھے کہ ہم پاکستانی ہے۔ ہم نے اپنے سے زیادہ پنجاب کا جغرافیہ پڑھا‘ ہم نے سند ھ سرحد اور بلوچستان کی تاریخ پڑھی یہ سب اس لئے کہ ہم پاکستانی ہیں۔ یہی نہیں مجھے یاد ہے کہ ہم سکول میں یوم پاکستان کے دن اپنے پاکستانی ہونے پر ناز کرتے رہے ہیں۔ ہم نے نہ صرف خود بلکہ اپنے علاقے کے سب لوگوں کو پاکستان کی وفاداری کرتے دیکھا۔ 1948ء کی جنگ ہو یا 1965ء کی 1971ء ہو یا 1999ء کی‘ہمارے سینکڑوں نوجوان نے سبز ہلالی پرچم کے لئے قربانی دی ہیں۔ ہمارے ایک سپوت نے پاکستان کا سب سے بڑا قومی فوجی اعزاز نشان حید ر حاصل کیا۔ سینکڑوں نوجوانوں نے مختلف میدانوں میں کئی اعزازات حاصل کی۔ گلگت بلتستان کی قوم نے مملکت پاکستان کو جو قربانیاں دی ہے وہ شایدخود پاکستان والوں نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔
یکم نومبر 1948ء کو سکھوں اور انگریزوں سے آزادی حاصل کی اور بلا شرط مملکت پاکستان کو اسلامی ملک سمجھ کر شمولیت اختیار کی۔ گلگت بلتستان پر 1840 سے 1890ء تک سکھوں اور ڈگروں نے قبضہ کیا تھا۔ 1890سے1947ء تک برٹس انڈیا نے قبضہ کیا۔ بحرحال ہمارے اسلاف نے بڑی قربانی کے بعد گلگت بلتستان کو آزادی دلائی۔ پندرہ دن کی خود مختار ریاست کے بعد گلگت میں پاکستان کی طرف سے سردار فخر عالم پولیٹکل ایجنٹ بیجھے گئے اور یہ کہا گیا کہ وہ گلگت بلتستان کے انتظامی معاملات کو درست کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی قوانیں کی عملداری نافذ کریں۔ہم تین چار سال تک پاکستانی بن گئے اور اس خوشی میں کہ ایک مسلمان ملک کے شہری بنے ہیں خواب خرگوش سو گئے جس کی وجہ سے کشمیریوں نے پھر چلاکی دیکھا دی۔ 1949ء کو منسٹری آف کشمیر افیرز بنی اور اور ایک نام نہاد قراردار کے ذریعے جو ’’معاہدہ کراچی ‘‘ کہلاتا ہے گلگت بلتستان کو بھی زیرزمین کشمیر ایشو کے ساتھ منسلک کیا گیالیکن عوامی سطح پر اس کی پرچار نہ ہوسکی۔ 1948ء سے لیکر 1972ء تک گلگت بلتستان پر ایف۔ سی۔ ار کے کالے قوانین نافذ رہے اور جناب ذولفقار علی بٹھو نے اُس نظام سے مستقلاَ جان چھڑا دی۔ ہمیں پاکستان والوں کی طرح قومی دھارے میں شامل کیا۔ پاکستان کا شناختی کارڈ ہمیں بھی دیا گیا۔ تب سے اب تک ہمارا پاسپورٹ پاکستانی ‘ شناخت پاکستانی اور ہم پوری دنیا میں اپنے آپ کو پاکستانی کہتے رہے ہیں۔ خیر گلگت بلتستان کی تقریباَ پندرہ لاکھ کی آبادی اور 28ہزار مربع میل رقبہ ہے۔ انتظامی لحاظ سے اب تک سات ضلعے بنائے گئے ہیں۔ ہم بچپن سے کشمیری خطے کے بارے میں سنتے آرہے تھے کہ وہ ’’بچارے‘‘ متنازعہ خطے میں رہتے ہیں۔ کشمیر کے ساتھ ہماری ہمدردی صرف یہی تھی۔ ہم نے آج تک نہ کسی کشمیری لیڈر کی شکل دیکھی ہے اور نہ ہی ان کی اسمبلی کے بارے میں کوئی معلومات ہیں۔ ان کی اپنی ایک شناخت ہے ان کا پرچم ‘ ترانہ اور مقاصد اورہیں۔ مقامی اخبارات میں کبھی کبھی کشمیر کے صدر صاحبان اچانک ایک بیان دیتے رہے ہیں کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے۔ ہم نے اس بات کو ان کی حماقت سمجھ کر ٹال دیا۔ 65سال بعد جب ہمیں پتہ چلا ’’کہ ہم نہ کشمیری ہے اور نہ ہی پاکستانی‘‘ تو ہم کون ہیں؟؟ہمارے سیاسی لوگ وہی ہیں جو پاکستانی سیاسی جماعتوں سے منسلک ہیں۔ وہ ہمیں بتاتے رہے ہیں’’کہ ہم پاکستانی ہیں‘‘ لیکن اُس دن پول کھل گیا جب انہوں نے گلگت بلتستان اسمبلی میں ایک قراردار پیش کی’’کہ ہمیں صوبہ بناکر پاکستان میں شامل کیا جائے‘‘۔ واں جی واں! اخر کب تک ہم گلگتی قوم کو جھوٹ بولیں گے ۔ گلگت بلتستان کے وسائل پر پاکستان کا قبضہ ہے اور ماشاء اللہ پاکستان نے بھی گلگت بلتستان کو بہت کچھ دینے کی کوشش ہے۔ اس کے باوجود ہم’’ نہ ہی کشمیری ہے اور نہ پاکستانی‘‘ ۔ ہم بڑے ہوتے گئے یونیورسٹی تک پہنچے تو اپنی شناخت کی ضرورت پڑی۔ پروفیسر صاحب نے زور سے پوچھا کہ آپ کیا سوچ رہے ہیں؟ میں بول پڑا کہ سر مجھے ووٹ کا حق نہیں! استاد افغانی تھے اورمیرے ساتھ سب کے سب ایل ایل ایم کے کلاس فیلو۔ سب بول پڑے ہم سب یہاں انٹرنیشنل ہمیومن راٹیس کے طالب علم ہیں۔ ساتھ ساتھ سب وکیل ہیں ۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ شناختی کارڈ ہو اور ووٹ کا حق نہ ہو؟ کلاس میں نئی بحث چھٹ گئی اور سب وکلاء نے UNOکے چارٹر کی مثالیں دی‘ امریکی آزادی 1776ء کی بات کی‘ فرانس کی آزادی 1789ء کی بات ہوگئی۔ ایک صاحب بولے Universal Human Rights declaration 1948میں ووٹ کا حق بنیادی قرار دی گیا ہے وغیر وغیرہ۔ بحث طویل پکڑتی گئی لیکن کوئی سمجھ نہیں پایا کہ گلگت بلتستان کا مسئلہ آخر ہے کیا؟ سب مجھ سے پوچھنے لگے۔ پاکستان کو اس خطے پر کنٹرول کی کیا قانونی جواز ہیں؟ اگر مملکت پاکستان آپ کو مختلف پکیجز دیتا رہا ہے تو ووٹ کا حق کیوں نہیں؟ قومی اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی کے بغیر آپ کے معاملے وہ کیسے ڈیل کرتے ہیں؟ جب چاہئے جیسے چاہئے آئینی پکیج دیتے ہیں تو وہ کس آئین کے تحت ہے؟ کیا آپ پر پاکستانی آئین و قانون لاگوں ہیں؟ آپ وفاق کے زیر انتظام ہیں یا کشمیر کے زیر انتظام؟ میں بولتا گیا اور قضیہ پیش کیا کہ ہمیں وفاق ڈیل کرتا ہے اس لئے گلگت بلتستان کے ہر ادارے کے ساتھ سائین بورڈ لکھا ہوا ہوتا ہے’’ فیڈرل ایف جی ہائی سکول‘ فیڈرل ایڈمینسٹریشن آفس‘ فیڈرل انٹر کالج‘ فیڈرل بورڈ وغیرہ وغیرہ۔ سرکاری بنک سے ہمیں جب اسکالر شب چیک ملتی ہے تو ’’چیک پر گلگت ایجنسی‘‘ لکھا ہوا ہوتا ہے۔ فیڈرل پبلک کمیشن سے جب پوسٹیں آتی ہیں تو لکھتے ہیںNA/FATAیعنی ہم قبائلی علاقوں کے ساتھ منسلک ہوتے ہیں۔ کبھی ہمیں کشمیر منسٹری ڈیل کرتی ہے۔ یہ سب کیا ہے؟ آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ ابھی 2009ء کے بعد سلف گورننس آرڈنینس کے تحت ہمیں ایک پکیج قانون ساز اسمبلی کے نام سے دیا گیا ہے۔ حق خوداختیاری دی گی ہے لیکن ہمارے چیف منسٹر صاحب بھی ’’کانا ڈیژیشن اور چیف سیکریٹری کو اعتماد میں لئے بغیر کچھ نہیں کرسکتے۔ ہماری عدلیہ میں چیف اپلیٹ کورٹ کے جج صاحباں ہمیشہ پاکستانی آتے ہیں وہ بھی یہاں کے تما م کورٹ سے ریٹائر ہونے کے بعدیعنی بڑھاپے میں؟اب گلگت بلتستان کے تمام اداروں کا نام ’’حکومت گلگت بلتستان‘‘ لکھا جاتا ہے۔ ہم سب کا شناختی کارڈ ایک ہے ۔پورے بحث کے بعد استاد نے ہمیں اسی موضوع پر اسائمنٹ دیا اور کہا کہ تفصیل سے اس پر مواد اور قانونی دلائل پر مشتمل پیپر لکھو۔لیکن اس بحث میں ان کو سمجھا نہیں سکا کہ ہم کون ہو؟؟؟محترم قارئین ہزاروں طالب علم اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہے ہیں کہ ہم کون ہیں؟ اور کب تک ہم غیروں کی سہارے جیتے
رہنگے۔ ہماری شناخت کب ملے گی۔ کشمیر سے اگر منسلک بھی ہیں تو کشمیری قیادت کہاں ہے؟موجودہ حالات میں آزادی کی کوشش کرنے کے باوجود کچھ لوگ مذہبی فرقہ وارانہ سوچ میں مصروف ہیں۔ عجیب و غریب منافقتیں پھیلاکر اس مسئلے کو پیچید ہ کرتے جارہے ہیں۔ ہر کوئی اپنے فرقے کی اکثریت بنانے کی چکر میں ہے تو کوئی غیرضروری conspiraciesپھیلا رہے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اپنے خطے کی آزادی جو ہمارے اباؤاجداد نے حاصل کی ہے اس نعمت کو پرامن اور پرمقصد طریقے سے منزل مقصود تک پہنچاہئے۔ ہماری شناخت اُس وقت ممکن ہے جب ہم ایک دوسرے کو مسلمان اور پاکستانی تسلیم کریں۔ قومیتیں دیکھتے گئے تو اس ملک میں کوئی ایک قوم نہیں سینکڑوں قومیں ہیں ہماری قومیت اسلام اور اسلام کا پیغام ہونا چاہئے۔ (آئینی)پکیج ہمارا حق ہے کسی کا احسان نہیں اس میں تبدیلی کا حق بھی گلگت بلتستان کے لوگوں کا ہے۔ ہمارے نمائندوں کا فرض ہے کہ وہ جمہوری آئینی حقوق کی بات کریں ۔ اللہ ہم سب کا حامی اور ناصر ہو پوری قوم کو اپنے حفظ وامان میں رکھے۔ ’’پھر بھی ہم سے گلہ کہ وفادار نہیں ہے، ہم وفادار نہیں تو تو بھی دلدار نہیں ہے‘‘۔
bohot acha likha h bhai, mazeed koshish kro , apny area ky bary mo logo ko educate kro, is unwan pr mara articl mari darti ki qismt chapa tha.