ثمینہ بیگ، تیری عزم وہمت کو سلام !
تحریر: محمدجان رحمت جان
خواتین کی حقوق کا قضیہ کوئی نئی بات نہیں ابتدائی افرنیش سے لیکر موجودہ دور تک خواتین کے حقوق کا موضوع زیر بحث رہا ہے۔ قدیم یونانی اور رومن تہذیبوں میں بھی خواتین کو کوئی خاص حقوق حاصل نہیں رہے۔ رومن سلطنت میں جہاں جمہوریت کی داغ بیل پڑی تھی وہاں خواتین‘ غلام اور مہاجرین (غیرملکی )کو ووٹ کا حق حاحل نہیں تھا۔ پچھلے ادیان نے بھی خواتین کو اتنے حقوق نہیں دیئے جتنے اسلام نے دیا۔ عرب کے تنگ وتاریک معاشرے میں جہاں عورت کو کوئی حقوق حاصل نہیں تھے بنی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پچھلے تمام روایات کو ختم کیااور بنی نوع انسان کی عظمت کا معیار تقویٰ قرار دیا۔ جہاں دوسرے تہذیب عورت کو پاؤں کی جوتی کہہ رہے تھے آپ علیہ سلام نے ماں کے قدموں تلے جنت قرار دیا۔بنی پاک ؐنے عرب کی سب سے بُری رسم عورت کو زندہ دفن کرنے کی رواج کو ختم کرکے حق زندگی عطا فرمائی۔ قرآن پاک نے بھی خواتین کو بہت عظمت و بلندی عطا کی ہے ۔قرآن پاک میں ارشاد ہوتاہے کہ ’’ اور ہم نے مرد اور عورت کو ایک ہی جنس سے پیدا کیا ہے‘‘(سورۃ النساء:۱)۔ ایک اور جگہ پر اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ’’ اور جو نیک کام کر ے گا مرد ہو یا عورت اور وہ صاحب ایمان بھی ہوگاتو ایسے لوگ بہشت میں داخل ہونگے اور اِن کی تل برابر بھی حق تلفی نہ کی جائے گی‘‘(سورۃ النساء :۱۲۴)۔ قرآن پاک میں ایک سو پنتیس(۱۳۵) سے زائد مرتبہ اللہ سبحان وتعالیٰ نے عورت کا نام لیکر مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی ہے جن میں سورۃ بقرہ ‘سورۃ النحل :۱۷۹ اور سورۃ الاحزاب:۳۵ شامل ہیں۔ رسولؐ کی زندگی کے بعد صحابہ کرامؓ اور آئمہ اطہارؓ کے زمانوں میں بھی عورت کو بلند مقام حاصل رہی ہے۔ اس تمام کے باوجود مختلف مذاہب کے کچھ قبائلی اورقدامت پسند علماء نے اپنی سابقہ مردانگی روش کے مطابق عورت کو نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے جس کی وجہ سے تاریخ میں عورت کے ساتھ مظالم بھی ہوئے اور وہ اپنے حق سے محروم بھی ہوئی۔
دوسری طرف دنیا میں جہاں معاشرتی‘ سماجی‘ ثقافتی‘ لسانی‘ مذہبی‘ اخلاقی اور سیاسی تحریکیں چلی وہاں عورتوں نے بھی اپنی آواز بلند کی۔ فرانس کی آزادی اور مردوں کے حقوق کے مشہور دستاویز(The Declaration of the Rights of Man and the Citizen, 26 August 1789 ( کے بعد خواتین کے تحریکوں نے بھی جنم لیا۔ انیسویں صدی کے آواخر اور بیسویں صدی کے شروعات میں خواتین کے حقوق کی تحریکیں بڑی پیمانے پر چلتی رہی جس کی وجہ سے یوروپی ممالک نے ان کوقانونی مساوات اور ووٹ کا حق دے دیا۔ دوسرے مرحلے میں خواتین کو ثقافتی اور سماجی حیثیت دی گئی اور یہ 1960-80کا زمانہ تھا۔ تیسرے اور آخری مرحلے میں خواتین کو تمام حقوق دئیے گئے جو کسی بھی مرد کو حاصل ہیں۔ یہاں مرحلوں سے مراد وہ سیاسی تحریکیں ہیں جن کی وجہ سے خواتین کو سیاسی لحاظ بہت لمبی اور پیچیدہ دور سے گزرنا پڑا۔ اس کہانی کے شروعات سے لیکر اقوام متحدہ کے قیام تک یہ معاملہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ اقوام متحدہ کے قیام اور اس کے چارٹر کی منظوری کے بعد نہ صرف انسانی حقوق بلکہ خواتین کے حقوق کے قوانین کے اصولوں کی بنیادیں ڈال دی گئی جو آگے چل کر (UDHR, 1948)میں مکمل وضاحت کے ساتھ بیان ہوئے۔ ان اصولوں اور قانونی بنیادوں کی وجہ سے 1946ء میں ہی اقوام متحدہ نے ایک کمیشنThe Commission on the Status of Women (CSW), ) کا قیام عمل میں لایا جس نے بہت کوششوں کے بعد The Convention on the Political Rights of Women))میں قانونی پیچیدگیوں کا حل پیش کیا۔ یہی وہ جدوجہد تھی جس کی وجہ سے شادی شدہ عورت کی شہرت‘ شادی کی عمر‘ گھریلوں سزائین ‘حق جائداد اور سیاسی شمولیت کی اہم قوانین مرتب ہوئیں۔ ) International Conventiona on Civil and Political Rights, 1966میں ان قوانین کو مزیذ تحفظ دیا گیا۔ یہی نہیں آگے چل کر (The Convention on the Elimination of All Forms of Discrimination against Women, 1976)بھی منعقد کیا گیا جس میں ان قوانین کوحتمی شکل دیدی گئی۔ اس طویل جہدوجہد کا ثمر ہیں کہ آج دنیا کے زیادہ تر ملکوں نے ان تمام بین الاقوامی قوانین برائے خواتین کو اپنی اپنی ملکی آئین میں تحفظ دیا ہے۔
صدیوں پر مشتمل یہ جدوجہد بھی ماؤنٹ ایورسٹ فاتح کرنے کے برابر ہے۔ ثمینہ بیگ نے دنیا کی سب سے بڑی چوٹی کو سر کرکے پاکستانی خواتین کی جانب سے اس پورے جدوجہد کی یاد تازہ کی ہے۔ آج اگر دنیا کی سیاست میں کسی خاتون کو موقع ملتا ہے تو وہ اسی محنت کا نتیجہ ہے۔ ہمارے ملک میں پچھلے کافی سالوں سے نئی نسل کی لڑکیاں بھی خواتین کی حقوق میں اپنا حصہ ڈالتی رہی ہے۔ عرفہ کریم‘ ملالہ یوسف زئی اور بے شمار لڑکیاں ملک اور قوم کے نام کو دنیا میں روشن کرچکی ہیں۔
ہمارے ملک میں دنیا کے دوسرے ملکوں کی نسبت خواتین کو زیادہ مواقع میسر نہیں۔تعلیم ‘ صحت اور معیشت کے میدان میں خواتین کا کردار بہت واضح ہونے کے باوجود ہمارے ملک میں ایک خاص طبقہ ان کو آگے آنے نہیں دے رہا ہے۔ ثقافت اور روایات کے نانہادرسم ورواج کے زیر اثر لڑکیوں کو بعض جگہوں میں تعلیم جیسی نعمت بھی نصیب نہیں۔ پردے اور غیرت کے نام پر سیاسی و سماجی کردار سے بھی روکا جا رہا ہے۔ ہمارے بچیوں میں بھی ٹلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ حقوق ہر انسان کا حق ہیں اور فرائض بھی برابر ہیں لیکن نا معلوم وجوہات کی بناء پر مرد کو زیادہ معاشرے میں حصہ دیا جاتا ہے کیونکہ معلوم وجوہات کا پچھلے سطور میں ہم نے ذکر کیاہے۔ذمہ دار لوگ تقریروں میں انسانیت اور برابری کی باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم سب آدم علیہ سلام کے اولاد ہیں لیکن کردار میں مرد آدم علیہ سلام کی اولاد اور عورت کسی اور کی نظر آتی ہے۔ مردوں کی تربیت کرنے کے بجائے عورتوں کو چاردیواری میں مقید رکھا جاتا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے عورت کی آزادی کی مثال جس کا ذکر حدیث شریف میں آیاہے کہ’’ یمن سے ایک دلہن اپنے زیورات سمیت مدینہ پہنچ جائے اور کوئی اُس کو زرر نہ پہنچائے‘‘۔خلفائے راشدین رضوان اللہ علھم کے زمانے میں خاص کر حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں اس حد تک امن کی چند مثالیں ملتی ہیں۔ آج یمن تو دور کی بات ہے عورت سکول سے گھر یا بازار سے گھر اکیلی نہیں جاسکتی۔۔۔!
ثمینہ بیگ مبارکباد کی مستحق ہے کہ موصوفہ دوردراز علاقے اور غربت جیسے حالات ہونے کے باوجود عزم و عمت کا پیکر ثابت ہوئی۔ ماؤنٹ ایورسٹ کو سر کرنا کوئی اسان کام نہیں آج کل صحت مند مرد چھوٹی سی پہاڑی پر پکنک مناکر ہفتے تک احسان جتاتے ہیں۔ میرا تعلق بھی ایک پہاڑی علاقے سے ہے ہمیں علم ہے کہ پہاڑ پر چڑنا کتنا مشکل ہے۔ خشکی‘ اونچائی‘ برف‘ چٹان‘ گلیشئر‘ سردی‘ طوفان اور نہ جانے کیا کیا مصیبتیں لیکن ثمینہ نے ان تمام کو اپنی ہمت اور عزم سے سر کیا اور دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہمارے ملک میں بھی خواتین میں اتنی دم ہے جتنی کہ درسری دنیا کے خواتین میں۔ اس حوالے سے مرزاعلی جو اس کے بھائی ہیں ‘ نے یہ ثابت کیا کہ پاکستانی مرد بھی اپنی ماؤں ‘ بہنوں ‘ بیوویوں اور بیٹیوں پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ نہ صرف اعتماد بلکہ ان کی ہمت افزائی بھی کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ دوسرے بھائی بھی اپنی بہنوں پر انتا ہی بروسہ رکھیں گے تاکہ وہ زندگی کے ہر مشکل شعبے میں ان کے بروسے اور اعتماد کی روشنی میں فتح یاب ہوسکیں۔ ایسے بہنیں ہو تو کون بروسہ نہ کریں ہمیں امید ہے کہ بہنیں بھی اپنے رویوں اور کردار میں تبدیلی لاکر قوم و ملک کے لئے مثال بنے۔
نہ صرف مرزا علی بلکہ صدر مملکت آصف علی زرداری‘ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ اور ان کی ٹیم کے علاوہ سول اور حکومتی عہدہ داران‘ نجی اداروں کے ذمہ داران نے ثمنیہ کی حوصلہ افزائی کرکے پوری قوم کو بٹیوں کی ہمت افزائی کا پیغام دیا۔ اس سے بڑھ کر میڈیا نے بھی اپنی بیٹی کی کامیابی کو دنیاکے سامنے پیش کیا۔ لکھاریوں اور صحافیوں نے بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کیا۔ گلگت بلتستان کے مرد وخواتین نے ہمیشہ پاکستان کانام روشن کیا ہے اور ہمیں پاکستان سے بھی بہت بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ ہم صرف ماؤنٹ ایورسٹ فتح کرکے یا کرگل میں نشان حیدر لیکر پاکستانی نہیں کہلاتے ہم پیدائشی پاکستانی ہونے پر فخر کرتے ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان کو بھی گلگت بلتستان کے سیاسی حقوق دیکر حق خوداختیاری کا مزید موقع دینا چائیے۔ نئی جمہوری حکومت سے بھی ہمیں بہت سے توقعات وابستہ ہیں۔ خواتین کے حقوق ہو یا مردوں کی ذمہ داریاں ہم پر فرض ہے کہ انسانیت پر اعتماد کریں۔ کیا اسلام میں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق نہیں؟ کیا پاکستان کی ترقی میں خواتین کا کردار نہیں؟ کیاگلگت بلتستان کے تمام ضلعوں میں خواتین کے حقوق محفوظ ہیں؟ یہ وہ سولات ہیں جو ہر کامیابی کے موقع پر سر اُٹھاتے ہیں اور ہم تاریخ اور مذہب کی چند مثالیں دے کر بھول جاتے ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے کیا خواتین کو ہر شعبے میں مردوں کی طرح مواقع ملنی چاہیں؟