کالمز

سانحہ ننگا پربت : حکومتی اہلکاروں میں حرکت۔۔۔۔

شریف ولی کھرمنگی

 گزشتہ سال کوہستان، چلاس اور بابوسر کے واقعات میں بہت سے مومنین کو تہہ تیغ کیا گیا اور باقاعدہ شناخت کے بعد صرف اسلئے مظلومیت کے ساتھ شہید کیا گیا کیونکہ وہ ایک مخصوص فرقے سے تعلق رکھتے تھے، سبھی جانتے ہیں، نہ وفاقی، نہ صوبائی حکومت کی کانوں پر جونگ رینگی، کیونکہ ان کے دکھ درد میں شریک ہونے کے بیانات دینے کی عادت کافی پرانی ہوچکی ہیں، اخباری بیانات میں ـکافی پیش رفت ـ ہونے کی خبریں دیکر عوام کو بیوقوف بنایا جاتا رہا اور کوئی قاتل پکڑ سکا ، نہ کسی غفلت برتنے والے کو معطل کیا، نہ کسی منتخب ہونے والے میں اخلاقی جرات پیدا ہوئی کہ وہ احتجاجا مستعفی ہو جاتے۔۔۔۔

وقت نے گزر جانا تھا گزر گئے۔۔۔۔شہداٗ کے لواحقین بھی صبر کا دامن تھام کر بالآخر خاموش ہوگئے۔سال گزرنے کے بعد اسی ہفتے ننگا پربت کا واقعہ ہوا، بیرون ممالک کے سیاح کو انہیں علاقوں کے نزدیک ہی قتل کردئے گئے۔۔۔۔۔ یقینا افسوسناک اور انسانیت کا سر شرم سے جھکا دینے والا عمل۔۔۔۔۔ گزشتہ سال کے واقعات میں ملوث گروہوں میں سے ایک نے ذمہ داری بھی لے لی کہ انہوں نے ایسا کیا۔۔۔۔ حکومت حرکت میں آئے۔۔۔۔۔ علاقے کے سب سے اعلیٰ عہدیدار چیف سیکریٹری،آئی جی، کو معطل کردئے گئے۔۔۔۔ ںام نہاد صوبے کے عہدیدار بیانات پر آگئے۔۔۔۔۔ دو دن میں کاروائی کرکے قاتل پکڑنے کا بھی اعلان ہوا، شاید نام بھی جاری ہو آج اور کل میں۔۔۔۔۔۔ سوال اٹھتا ہے آج بیرونی دباوٗ تم یہ سب کر سکتے ہو۔۔۔۔۔ تو پہلے سال جب اپنے لوگوں کو تہہ تیغ کیا گیا تھا تو کیوں سوتے رہے؟ اس وقت کون تھا جس نے تمہیں ایسا کرنے سے روکا؟ اس وقت تو کاروائی مین شاہراہ پر دن دیہاڑے ہوا تھا، ویڈیوز بھی بنے، معلومات بھی فراہم ہوئے، مگر کچھ نہیں کیے جانے کی وجہ ؟ مرکزی حکومت آج اس حالیہ سانحے پر غفلت برتنے پر چیف سکریٹری کو معطل کر سکتے ہیں تو گزشتہ سانحات کی انکوئری کر کے اس دور میں غفلت برتنے والوں کو سزا کیوں نہیں دیتے ؟ کیا ایسا نہیں ہونا چابئے کہ اس وقت کے سانحات پر غفلت کے مرتکب وزیر اعلیٰ اور دیگر کو معطل کیا جائے؟ کیوں ہمارے اپنے لوگوں کا خون اتنا ارزاں کیوں اور آخر کب تک ہم صرف بیرونی دباوٗ میں ہی کاروائی کرتے رہیں گے؟

ایک سادہ سی وجہ جو ایک عام آدمی بھی سمجھ سکتا ہے وہ کہ گزشتہ سانحات پر کوئی ایکشن کیوں نہیں کیا گیا۔ اور آئندہ پھر ایسے سانحات کے سد باب کیلئے کوئی اقدام کیوں نہیں اٹھا یا جارہا؟ وہ یہ کہ ملک کے بیشتر علاقوں میں ہونیوالی دھشت گردی کو ہم صرف فرقہ واریت کے زمرے میں دیکھتے ، سمچھتے اور مسوب کرتے آئے ہیں۔ کوئٹہ میں آئے روز بلاسٹ، ٹارگٹ کلنگ اور کانوائے کو روک کر مخصوص فرقے کے لوگوں کو قتل کیا جاتا رہا، ڈی آئی خان، پشاور، ھنگو، کراچی اور دیگر علاقوں میں بھی ایسے بے شمار سانحات پیش آئے جنہیں ادھر ادھر کا سوچنے کی زحمت کئے بغیر نا ختم ہونیوالی دھشتگردی کے سانحات میں شمار کر کے کچھ بیانات دیکر ٹھنڈا کردئے گئے کیونکہ ان واقعات کی روک تھام اور انکوائری کیلئے کوئی بیرونی دباوٗ نہیں تھا۔ نتیجہ یہی نکلا کہ نہ انکوائری کروائی ، نہ کسی کو پکڑا، نہ کسی مشتبہ گرفتارہونے والے کو سزا ہوئی۔

ایسے میں آج کا نوجوان یہ سوال کرنے پر مجبور ہے کہ ہم فرقہ واریت کی سوچ اور بیرونی دباوٗ میں ہی کب تک فیصلے کرتے رہیں گے؟ اور کیاھمیشہ ایسے ہی لوگوں کو منتخب کرتے رہیں گے؟ آخر کب تک ؟؟؟

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button