کالمز

امن کا عالمی دن

ہدایت اللہ اختر 

امن کا بین الاقوامی دن دنیا بھر میں 21 ستمبر کو منایا جاتا ہے ۔ اس کا مقصد یہ بتایا جاتا ہے کہ اس دن کے منانے سے لوگوں کے درمیان رشتوں کو استوار اور مضبوط بنانےمیں مدد ملے گی ۱۹۸۱ میں امن کا پہلا افتتاحی اجلاس منعقد ہوا جس کے تحت ۲۱ ستمبر کا دن امن کے بین الاقوامی دن کے طور پر منانے کے لئے چن لیا گیا اور اسی طرح امن کا پہلا بین الاقوامی دن ستمبر ۱۹۸۲ میں منایا گیا۔۔۔ رواں سال کے لئے امن کا موضوع ایجوکیشن فار پیس تجویز ہوا ہے یعنی تعلیم برائے امن۔۔ اس کے پیچھے مقصد یہ کار فرما ہے کہ مستقبل کے معماروں کے دلوں کے اندرامن اور آشتی کی قدر کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں سے ایک پرامن اور منصفانہ معاشرہ قائم کرنے میں مدد گار ومعاون ثابت ہوں۔۔

اقوام متحدہ کے مقرر کردہ امن کا بین الاقوامی دن کو تھوڑی دیر کے لئےبھلا کر ہم مسلمان ذرا اسلامی تعلیمات اور پیارے حبیب صلم کا وہ خطبہ یاد کریں جو انہوں نے فتح مکہ کے موقع پر ارشاد فرایا تھا تو ہماری آنکھیں کھل جائینگی عفو درگزر کی ایسی مثال تا قیامت ملنی مشکل ہے مسلمانوں کو تو یہ دن ازل سے اللہ کی طرف سے ملا ہوا ہے اور اس کی

زندہ مثال رسول خدا صلم نے فتح مکہ کے موقع پر اپنے عالمگیری خطاب میں پیش کی ۔۔ بحثیت مسلمان یہ ہمارا فرض تھا کہ ہم اپنے حبیب  کے اس امن پیغام کو کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچاتے لیکن وائے قست ہم مسلمان اپنے حببب صلم  کی باتوں کو بھلا بیٹھے اور آج دوسری اقوام ہمیں وہی درس سکھانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہیں جس کی تعلیم ہمیں اسلام قدم قدم پر دیتا ہے۔۔۔ اس کوتاہی پر جتنا بھی ماتم کیا جائے بہت کم ہے ۔۔۔

اسلام تو مکمل ضابطہ حیات ہے اور سلامتی کا دین ہے اور ہر مسلمان دن میں دس مرتبہ سلامتی کی دعا کرتا ہے اور السلام علیکم کے الفاظ دھراتا ہے۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ مسلمان ہر سال فتح مکہ کے دن کو امن کا دن قرار دیتے ہوئے اپنا بھولا ہوا سبق دھراتے۔۔۔امن کسے نہیں چاہئے دنیا میں جتنے بھی بنی نوع انسان آباد ہیں ان سب کی خواہش یہی ہے کہ یہ دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بنے جہاں وہ اپنے خاندان اور دوسرے افراد کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکیں جب دنیا میں ہر کوئی امن اور اس کی خواہش رکھتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کی یہ دنیا امن کے لئے ترس رہی ہے اسلام تو ہے ہی امن و سلامتی کا مذہب ذرا السلام علیکم کے الفاظ پر غور تو کریں کیا پیغا م دے رہا ہے آپ پر سلامتی ہو کیا ہم غور نہیں کرتے حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد پر ” یعنی مسلمان وہ ہے جس کے زبان اور ہاتھ سے دو سرے مسلمان محفو ظ ہوں۔ کیوں صرف اس لئے کہ انسان اکثر او قات اپنی زبان اور ہاتھ سے دوسروں کو نقصان پہنچاتاہے اس لئے اسے اپنے ہا تھ اور زبان پر قابو رکھنے کی ہدایت ہو ئی تاکہ انسان دوسرے لو گوں کو امن و سکو ن کی نعمت سے محروم نہ کر سکے۔۔اللہ کا شکر ہے کہ ہم مسلمان ایک خدا کو ماننے والے ۔رسول اور ختم نبوت پر ہمارا یقین ۔۔۔اور ایک قران پر ہمارا ایمان ہے۔۔۔۔۔ تو کیا ہمیں اپنے خدا رسول اور قران سے محبت اور پیار نہیں کرنا چاہئے۔۔۔۔اتنا پیار جتنا ان کا حق ہے۔۔۔۔۔۔خدا کو اپنی مخلوق سے بہت پیار ہے. تبھی تو اس دنیا میں لاکھوں کروڑوں مخلوق پیدا کرتا ہے۔۔۔۔تو کیا ہمیں اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق سے اسی طرح پیار نہیں کرنا چاہئے جس طرح ہم اپنے آپ سے پیار کرتے ہیں؟ آج اگر ہم ایسا کرنے یں ناکام ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسلام کی تعلیمات میں کوئی بدلاوٗ آیا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسلامی تعلیمات کو سمجھنے سے قاصر اور کوشش نہیں کرتے اللہ، رسول اور قران صرف ہماری زبان سے تو ادا ہوتا ہے لیکن ہم اصل مقصد سے بہت دور ہیں ۔ اور جب اسلام سے دوری ہوگی تو مسلم او غیر مسلم معاشرے میں کیا کوئی فرق رہ جاتا ہے ؟

آج جو کچھ مسلمانوں کے ساتھ بیت رہی ہے اس کی تما تر وجہ یہی ہے کہ ہم تعصبات میں گھرے ہوئے ہیں سب اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم کفار کے خلاف ایک ہونے کے بجائے فرقہ واریت اور دین میں بدعات پیدا کر رہے ہیں فرقہ واریت کچھ اس طرح سے ہماری رگ رگ میں سرایت کر چکی ہے کہ ہمیں سنی اور شعیہ کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا پاکستان

کے کسی علاقے میں اتفاقی طور سے بھی کوئی شعیہ یا سنی مر جاتا ہے تو ہم حقائق جاننے کے بجائے اندھا دھند ایک دوسرے کو قتل کرنے لگ جاتے ہیں. پھر بھی ہم اپنےآپ کو مسلمان کہتے ہیں واہ رے ہماری مسلمانی 150پاکستان کے غیور اور باشعور لوگو! ہم سب کا جینا مرنا یہی ہے ۔ کیا ہم ایک دوسرے کو قتل کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا مستقبل بنا رہے ہیں یا کہ ان کو کوئی اور راہ دکھا رہے ہیں ۔،کل آخرت بھی ہے جہاں سب کو حساب دینا ہے۔. ہماری نجات اور کامیابی ایک خدا، ایک رسول اور ایک قران کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کرنے میں ہے ۔۔۔ایک دوسرے سے محبت کرنے میں ہے ۔۔۔۔۔زمین پر فساد کے بجائے پیار و محبت بانٹنے میں ہے ۔۔۔ اللہ کی بنائی ہوئی مخلوق سے پیار کرنے میں ہے ۔۔۔بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں ہے ۔۔۔۔۔۔۔امن ہم سب کی ضرورت ہے۔ امن ہے تو ہم بیں ۔۔ کیا آپ اپنی آنے والی نسل کے ہاتھ میں کتاب دکھنا چاہتے ہیں یا کلاشنکوف،اس کا فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کتاب ہاتھ میں ہونے کے لئے امن کا ہونا ضروری ہے.

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button