سٹیٹ سبجیکٹ رولز (SSR-1927)
۔ہدایت اللہ آختر
جس موضوع پر آج میں قلم اٹھا رہا ہوں وہ بڑا ہی اہم اور توجہ طلب ہے اس کے ساتھ ایک گزارش بھی اپنے قارئین سے کرنا چاہتا ہوں کہ اس کالم کو پڑھتے وقت وہ اپنے ذہنوں کو اس بات کا پابند بنائیں کہ وہ صرف گلگت بلتستان کے باسی ہیں اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے اپنے اس علاقے کو حاصل کرنے میں ڈوگروں سے پنگاہ لیا اور تکلیفیں برداشت کی اور ڈوگروں کی ظلم و ستم سے چھٹکارا حاصل کیا لیکن ہمیں اس حقیقت کو بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ آج بھی ہمارے بڑے اور ضعیف العمر حضرات مہاراجہ کشمیر کے دور کو ایک سہنرا دور کہتے ہیں یہاں اس کی تفصیل کی ضرورت محسوس نہیں کرتا اس کی وجہ سب کو معلوم ہے کہ انہیں مہارجہ کا دور کیوں پسند ہے؟ ان کو اگر یہ کہا جائے کہ وہ تو ہندو تھے اور عام ہندو بھی مسلمان سے اچھا سلوک نہیں کرتا تھا تو ان کا جواب یہی ہوتا ہے کہ اس وقت عا م لوگوں میں بلا تفریق مذہبی بھائی چارے کی فضا قائم تھی اور ذمہ داریاں انفرادی کے بجائے اجتماعی ہوا کرتی تھیں ۔ اگر تاریخ کی ورق گردانی کی جائے تو یہ بات سانے آتی ہے کہ ڈوگرہ دور کی سب زیادتوں کے باوجود ان کے کچھ تاریخی کارناے بھی ہیں جن کو ہم کسی بھی عینک سے دیکھیں تو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہے ان ہی کارناموں میں سے ہی ایک اہم کارنا مہ باشندہ ریاست قانون (State Subject Rule-1927) ہے۔ اس بات کو تو ہ سبھی جانتے ہیں یا بہت سوں نے پڑھا ہے کہ برطانوی دور میں ریاست جموں وکشمیر و لداخ میں بھی کلیدی عہدوں کیلئے غیر ریاستی اہلکاروں کو ملازمتوں پر لینے کا رواج عام تھا (بدقسمتی سے آزاد کشمیرو گلگت بلتستان میں وہ رواج ابھی بھی آئینی طور پرقائم ہے)۔ مہاراجہ ہری سنگھ کے دور (1925-1949) میں ریاستی عوام نے اس رواج کی مخالفت کرتے ہوئے مہاراجہ سے شکائت کی تو اپنی دور اندیشی کے سبب برصغیر کے مستقبل کا نقشہ آنکھوں میں اتارتے ہوئے مہاراجہ ہری سنگھ نے ً باشندہ ریاست قانون ً کو 1927 میں متعارف کرایا۔ باشندہ ریاست بنیادی طور پر شہریت (Nationality) اور شہری حقوق کا قانون ہے ۔ مذکورہ قانون ریاستی عوام کی شہریت اور ریاستی عوام کے حقوق کی ضمانت میں اپنی مثال آپ ہے ۔ باشندہ ریاست قانون کے مطابق ریاستی باشندگان کو چار اہم حصوں (درجات ) پر مشتمل قرار دیا گیا ، پہلے دو(۲) درجات میں ان ادوار کا ذکر ہے کہ جن میں یہاں مستقل آباد ہونے والوں کو شہری قرار دیا گیا۔ تیسرے درجے میں جدید شہریت کے تقا ضوں کے تحت دس سالہ مستقل سکونت کے بعد اجازت اور رعائت نامہ کے ذریعے سکونت میں توسیع یا شہریت کے حصول کا طریقہ کار وضع کیا گیا۔ چوتھے درجہ میں ان صنعتی وکاروباری مراکزجو ریاست و ریاستی عوام کیلئے مفید ہوں ان مراکز کو بھی تحفظ اور شہری حیثیت دی گئی تھی۔
ان چار حصوں سے ہٹ کر یہاں سب سے اہم اور موجودہ دور کی ضرورت باشندہ ریاست (ریاستی شہری )کے حقوق پر مرکوز کرنا چاہتا ہوں جسے کچھ اسطرح سے بیان کیا گیا ہے ریاستی مراعات (سکالرشپ) ، زرعی یا رہائشی زمین پر ملکیت اور ملازمتوں کے حصول میں مقامی ریاستی عوام ہی کو استحقاق حاصل ہو گا۔مندرجہ بالا باشندہ ریاست قانون کو 31جنوری 1927کو ابتدائی نوٹس اور پھر 20اپریل 1927 کو باقاعدہ نافذ کر دیا گیا۔ مستقبل میں پیش آنے والے ممکنہ ابہام کو دور کرنے کیلئے 27جون 1932 میں اسی قانون میں چند مذید اہم شقوں کا اضافہ بھی ہوا اور باشندہ ریاست کی ریاست سے باہر مستقل منتقلی کی صورت میں شہریت کا استحقاق اسکی دو نسلوں تک محدود کیا گیا اور ملازمتوں پر ریاست کے اندر مستقل رہنے والوں کو فوقیت دی گئی جبکہ غیر ریاستی لوگوں کو ان قوانین کے تابع بنایا گیا۔ ہم میں سے بیشتر اس بات سے واقف نہیں کہ یہ قانون آج تک ایک محافظ کی حثیت رکھتا ہے اور ریاستی عوا م کی حقوق کی خفیہ نگرانی کر رہا باشندہ ریاست قانون (SSR-1927)پاکستانی اور بھارتی زیر انتظام جموں وکشمیر کے دونوں حصوں کے مقامی دساتیر (آئین ) کا آج بھی حصہ ہے۔ یہی تو وہ قانون ہے جس نے انڈیا اور جموں کشمیر کے درمیان قانونی دیوار جموں کشمیر آئین اور انڈین آئین میں آرٹیکل 370 کی شکل میں ریاست کی خصوصی حیثیت اور ریاستی تشخص کو آ جتک بحال رکھاہے۔ یہ باشندہ ریاست قانون ہی ہے جس نے پاکستانی زیر انتظام آزاد کشمیر میں کاروبار پر حاوی غیر ریاستی سرمایہ دار طبقہ کو جائیداد کے مالکانہ حقوق سے دور رکھا ہوا ہے ۔ ریاست سے منسلک متنازعہ گلگت بلتستان کے حوالے سے اس قانون کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم یہی ہوتا ہے کہ باشندہ ریاست قانون ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے ختم کر دیاتھا۔لیکن اس کی منسوخی کا کوئی مراسلہ آج تک پبلک نہیں ہوا شائد یہ قانون معطل ہے یا زبانی جمع و خرچ سے کا م لیا جارہا ہو ۔ صورت حال جو بھی ہے اس قانون کے نہ ہونے کی وجہ سے گلگت بلتستان میں بیرونی آبادکاری کا رستہ کھلا اور مقامی کاروبار متاثر ہونے کے علاوہ فرقہ ورانہ منافرت اور فسادات میں بھی اضافہ ہو گیا۔ ریاست کی تقسیم 1947-48))سے پہلے یہی گلگت بلتستان تھا جہاں مذہبی رواداری اور امن کی فضاء قائم ہوا کرتی تھی۔ ستم ظریفی اس قدر بڑھی کہ آج یہاں کے عوام یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ گلگت بلتستان میں باشندہ ریاست قانون کو دوبارہ بحال ہونا چاہئے لیکن کوئی شینوائی نہیں ہو رہی ۔اور یہ بات مسلمہ حقیقت ہے کہ ریاست جموں کشمیر کا ہر حصہ (بشمول گلگت بلتستان ) بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ ہے جسکا حتمی حل اقوام متحدہ کی زیر نگرانی (بذریعہ رائے شماری) ہونا ابھی باقی ہے۔
گلگت بلتستان کے تمام مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگ ذاتی مفادات اور مذہبی تعصبات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف گلگت بلتستان کی خوشحالی کی خاطر اور خصوصا سیاسی اور قانونی طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے اس قانون کی بحالی کے لئے اپنی استطا عت کے مطا بق اپنا کردار ادا کریں۔۔اگر یہ قانون بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر اور آزاد کشمیر میں آج بھی لاگو ہے تو گلگت بلتستان میں کیوں منسوخ یا معطل ہے ؟ یقین جانئے ریاست کے باقی متنازعہ حصوں کی طرح گلگت بلتستان کا ماضی، حال اور مستقبل بھی باشندہ ریاست قانون (SSR-1927)کے ساتھ وابستہ ہے!!!!
ایک پر اثر مضمون اور خلوص بھرا تجزیہ ہے۔ یقینی طور پر ہم کو اپنے ارد گرد کے معاملات کو تعصب سے دور رہ کر تحلیل و تجزیہ کرنا ہوگا۔ البتہ ” سبجیکچٹ رول” کا ترجمہ درست نہیں۔ اسکا ترجمہ ” قانون برائے ماتحت ریاست ” ہونا چاہئے۔