کالمزگلگت بلتستان

گلگت بلتستان، ایک متنازعہ علاقہ

ہدایت اللہ آختر

چند دن پہلے امور کشمیر جناب برجیس طاہر نے کسی لگی لپٹائی کے بغیردو ٹوک انداز میں موقف اختیار کیا کہ پاکستان آئینی طور پر گلگت بلتستان کو مکمل صوبائی خود مختاری نہیں دے سکتا اور مسلہ کشمیر کے حل تک گلگت بلتستان متنازعہ علاقہ رہیگا ۔ اس بات پر چند حلقوں نے بڑا شور مچایا کہ پاکستان گلگت بلتستان کو اپنی غلامی میں رکھنا چاہتا ہے اور اس علاقے کے وسائل سے استفادہ کرنے کے لئے گلگت بلتستان کے معاملے کو الجھانے کی کوشش کر رہا ہے ۔۔

کوئی کچھ بھی کہے لیکن وزیر امور کشیر نے اندر کی بات اور کھلی حقیقت کو عوام کے سامنے رکھ دیا ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں کے لوگوں کو اصل حقائق سے ہمیشہ لا علم رکھا گیا اور ہر دفعہ جھوٹے اور سہانے خواب دکھائے گئے۔۔ جو لوگ تاریخ سے واقفیت رکھتے ہیں وہ اس بات سے بھی بخوبی اگاہ ہیں کہ گلگت بلتستان کے لوگ شروع ہی سے مذہبی رہنماوٗں کی گرفت میں رہے ہیں جسکا ذکر انگریز مصنف پولیٹکل ایجنٹ جوہن بڈلف نے اپنی کتاب(Tribes of the Hindoo Koosh) ہندوکش کے قبائل اشاعت 1880 میں بھی کیا ہے اور یہ سلسلہ تا ہنوز جاری ہے یہ بات بھی مشاہدے میں آتی ہے کہ یہاں کے لوگ چاہئے وہ جتنے بھی پڑھے لکھے ہوں یا ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جاعت سے ہو لیکن وفاداری ان کی اپنے آغاوٗں اور اماموں کے ساتھ ہی ہوتی ہے۔ اس مرض کے جراثیم ایک فرقے میں بہ نسبت دوسرے کی نسبت کچھ زیادہ پائے جاتے ہیں. ممکن ہے اس میں انیس بیس کا فرق ہو لیکن یہ ایک حقیقت ہے. تقسیم ہند سے پہلے وہ جتنے مذہبی تھے آج اتنے نہیں ہیں مگر اس کے باوجود بھی وہ مہارجہ دور میں متحد اور باہم شیر و شکر تھے بے شک حکومت پرائی تھی لیکن اس بات سے کسی کو انکار ہو ہی نہیں سکتا کہ انصاف اور حقوق کی پامالی اس وقت اتنی نہیں تھی جتنی آج ہے ۔۔۔

ہوا کیا ماضی بعید میں جانے کی ضرورت نہیں بلکہ ماضی قریب کی مثال لیں گلگت بلتستان کے باسی پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرین ذولفقار علی بھٹو کو گلگت بلتستان میں سیاسی اصلاحات کا بانی سجھتے ہیں اور یہاں کی اکثریت بھٹو صاحب کی مشکور و ممنون نظر آتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے دور میں ایف سی آر کا کالا قانون ختم ہوا اور ایک نئے دور کا آغاز ہوا لیکن تصویر کا دوسرا رخ لوگوں نے آج تک دیکھنا تو کجا سوچنا بھی گوارا نہیں کیا اگر کسی کو1971 کے واقعات یاد ہیں یا کسی نے پڑھا ہو تو ان کو معلوم ہوگا کہ گلگت میں بد امنی اور بے چینی کا آغاز بھی بھٹو صاحب کی اصلاحات سے شروع ہوا ۔

راقم کو یاد پڑتا ہے کہ سعید آحمد صاحب مرحوم جو اس وقت گلگت میں اہم عہدےپر فائز تھے اس نے ایک بار نجی محفل میں ایک واقعہ سنایا کہ جب گلگت میں گلگت سکاوٹس کے کمانڈنگ آفیسر میجر یونس کیانی کے خلاف نفرت اٹھی اور جلاواور گھیراوٗ شروع ہوا اسی اثنا ایک مقامی پارٹی تنظیم ملت گلگت کے نام سے وجود میں آئی تو اس کی توڑ کے لئے بھٹو صاحب بڑے بے چین اور بے قرار تھے. دیگر باتوں کے علاوہ ایک موقع پر اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ کیا گلگت میں کوئی ایسا شخص نہیں جو ان کے درمیان بگاڑ پیدا کرے اور اس کے بعد کے حالات سے گلگت بلتستان کے لوگ با خبر ہیں تنظیم ملت کا شیرازہ بکھر گیا عاشورہ محرم میں فساد برپا ہوا اور سٹیٹ سبجیکٹ رولز کا خاتمہ ہوا۔

بظاہر تو یوں لگتا ہے کہ ہمیں سیاسی حقوق ملے لیکن دیکھا جائے تو جو حقوق ہمیں حاصل تھے انہیں ہم سے چھینا گیا اور حقوق کے نام پر یہاں نفرتوں کا ایک سیلاب برپا ہوا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام بھی انہی مقاصد میں سے ایک تھا کیونکہ سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی موجودگی میں ایسا ممکن ہی نہیں تھا . حکومت پاکستان ان سب باتوں سے با خبر اور بخوبی اگاہ ہے. جبھی تو امور کشمیر و گلگت بلتستان کے وفاقی وزیرنے اس حقیقت کو برملا کہہ دیا کہ گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے اور انتظامی اصلاحات گڈ گورنس کے لئے ہیں۔۔ ۔مسلم لیگ جو پاکستان کی خالق جماعت ہے اور آجکل بر سر اقتدار بھی وہ کشمیر مسلے کی اہمیت سے بخوبی اگاہ ہے اس بات کا اندازہ اس سے لگا یا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے ٹھوس موقف کا اظہار پاکستان کے وزیر آعظم نواز شریف نے ایک مرتبہ پھر اقوام متحدہ کی جنرل اسمببلی سے خطاب کرتے ہوئے دھریا کہ مسلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جانا چاہئے۔۔

اگر آزاد کشیر ایکٹ 1974 اور گلگت بلتستان گورنس آرڈر2009 دونوں کا مطالعہ کیا جائے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ دونوں کی شکل و صورت اور ماہیت ایک ہی ہے تو گلگت بلتستان کے عوا کو بھی اپنی سوچ یں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اور یہاں کے سیاسی و مذہبی رہنماوٗں کو چاہئے کہ وہ ہراس اقدام سے احتراز کریں جس سے کشمیر ایشو  سبو تا ز ہونے کا انڈیشہ ہو۔۔ ایسے میں وزیر امور کشیر کا بیان ایک جرات مندانہ اور حقیقت پر مبنی بیان ہے ۔۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ وزیر آعظم و امور کشمیر اس حقیقت کو بھی تسلیم کریں کہ ریاست کشمیر جموں اور آزاد کشیر میں رائج سٹیٹ سبجیکٹ رولز کو جسے بھٹو دور میں منسوخ کیا گیا گلگت بلتستان کے لوگوں کا بنیادی حق تسلیم کرتے ہوئے اس کی بحالی کا بھی اعلان کریں تو جہاں اس سے کشمیر مسلے کو تقویت ملے گی وہاں گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کا تحفظ بھی ممکن ہوسکے گا!!!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

2 کمنٹس

  1. اصل حقیقت یہ ہے کہ کشمیری کل بھی گلگت بلتستان کے دشمن تھے، اور آج بھی ہیں. چوہدری برجیس طاہر اور نواز شریف کی کشمیر پرستی کی وجہ سب پر عیان ہے ، سواءے صاحب مضمون کے. یا پھر ان کا تجاہل عارفانہ ہے.
    برجیس طاہر نے کبھی بھی گلگت بلتستان کو کشمیر کا حصہ قرار نہیں دیا کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اسکے اثرات منفی ہوں گے، لیکن صاحب مضمون نے عشق کشمیر میں مغلوب ہو کر ان کے بیان سے اپنی مرضی کا مطلب نکالنے کی کو ششش کی، جو دور کی کوڑی لانے کے متراف ہے.
    یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بد قسمتی سے گلگت بلتستان کے باسی صرف امام اور آغا کے نہیں بلکہ، مفتیوں اور قاضیوں کے بھی پیروکار ہیں، لیکن یہ حقیقت بھی صاحب مضمون پر وا نہیں ہو رہا کیونکہ انہوں نے تعصب کی عینک لگائی ہےاور "دوسرے” کو غلط ثابت کرنے کے لیے حقائق کو خلط ملط کر رہا ہے.
    قاضیوں، ملوں اور مفتیوں کے حکم پر لوگوں کے گلے کاٹنے والوں اور ان کو بسوں سے اتار کر گولی مارنے والوں کے فکری قبیلے سے تعلق رکھنے والے فرد کا یوں اپنے دامن کو جھاڑنا، اور مصومیت کا اظہار صرف مضحکہ خیز ہی نہیں بلکہ انتہا درجے کی خود فریبی بھی ہے.
    افسوس اس بات کا ہے کہ چھ دہایوں سے گلگت بلتستان میں مقیم ان عقل کے اندھوں کو ابھی تک گلگت بتلستان کے حق میں بولنے کی جرات نہیں ہوئی ہے، ہاں البتہ کشمیر کے حق میں یہ دامے، درمے اور سخنے ہر جگہ گل فشانیاں کرتے پھرتے ہیں.
    کون نہیں جانتا کہ ایک فرقے کے لوگ گلگت بلتستان کو صرف اس لیے کشمیر کی گود میں دینا چاھتے ہیں کیونکہ ان کو اپنی عددی برتری قائم کر کے اپنے مرضی کا نظام لانے، اور سیاسی قوت حاصل کرنے کی لالچ ہے.
    اپنے لالچ کو عقلیت کے لبادے میں مدفون کرکے یہ لوگ کس کو دھوکہ دینا چاہ رہے ہیں، سوائے اپنے آپ کے.
    گلگت بلتستان کی آزادی میں صفر کے برابر کردار ادا کرنے والوں سے صرف اسی طرح کے مضامین کی توقع رکھنی چاہیے. ان کی احساس کمتری ان کو دن رات پریشان رکھتی ہے. لیکن یاد رکھنا، گلگت بلتستان کے فرزند علمی اور عسکری دونوں میدان میں اپنے علاقے کا دفاع کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں. کسی کو بھی غلط فہمی کا شکار نہیں رہنا چاہیے.

  2. کشمیری اپ کے دوسمین نہیں یہ سوچ اپ کی گلت منفی سوچ اپ اپنی سوچ کو چینج کرو می بروتھر

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button