کالمز

اور لاوا پھٹ گیا…

گلگت بلتستان میں آٹے کے مصنوعی بحران نے عوام کی چیخیں نکال دیں، محکمہ خوراک کی طرف سے سیل پوائنٹس سے آٹے کی تقسیم کے فیصلے کے بعد ملز مالکان کی ہڑتال اور روٹی کی قیمت کم کرنے کی ہدایت پر تنور مالکان کی ہڑتال نے گلگت بلتستان کے عوام کو دو وقت کی روٹی سے محروم کر دیا ہے اس صورتحال کی وجہ سے عوام شدید سیخ پا ہوئے اور 10 دنوں سے آٹے کی عدم فراہمی اور مصنوعی بحران کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے، اور محکمہ خوراک اور ملز مالکان کو آڑے ہاتھوں لیا، بدقسمتی سے ملک بھر سمیت گلگت بلتستان میں تمام مسائل کا حل احتجاج سے ہی نکلتا ہے، خیراپنے جائز حق کا مطالبہ کرنا اور اس کیلئے احتجاج کرنا ہر شہری کا حق ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کا مسئلہ یہ ہے کہ پانی سر سے گزرنے تک خاموش رہتے ہیں ، شاطر بیوروکریسی اور سیاست دانوں کی جھوٹی تسلیوں نے اس قوم کو آدھا مردہ کر دیا ہے۔ زندہ قومیں اپنے مستقبل اور حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں اور قبل از وقت ہی ایسے محرکات کا سدباب کرتے ہیں جن کی وجہ سے انکی روزمرہ زندگی متاثر ہوتی ہو۔ خطہ بے آئین کے مردہ دل عوام کے حال سے لگتا یوں ہے کہ انکا حال کسی صورت ٹھیک ہونے والا نہیں ہے۔ جس قوم کو اپنی حالت کے بدلنے کا احساس تک نہیں ہوگا اسکی حالت کیسے بدل سکتی ہے، معاشرے میں موجود نا انصافی، کرپشن اور کچھ لو کچھ دو کی پالیسی میں نہ صرف ارباب اختیار ملوث ہیں بلکہ یہاں کے شہری بھی کسی نہ کسی شکل میں اس تمام چور بازاری میں برابر کے شریک ہیں۔ گزشتہ کچھ دنوں سے گلگت شہر میں اپنے حقوق کے حصول کیلئے عوام کا سڑکوں پر آنا اس بات کی دلیل ہیکہ اب گلگت بلتستان کے عوام کو بھی شعور آگیا ہے اور ایک عرصے سے ستائے ہوئے لوگوں کا جمودٹوٹ چکا ہے اور اندر ہی اندر پنپنے والا "لاوا” ایکدم پھٹ گیا ہے۔اب عوام جھوٹی تسلیوں کے جانسے میں نہیں آنے والے بلکہ فیصلے سڑکوں پرکرانا جان چکیں ہیں۔

بات نکلی تھی آٹے کے مصنوعی بحران کے حوالے سے ،اس سلسلے میں تمام فریقین کی گفتگو سننے کے بعد لگتا یوں ہیکہ یہاں آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے،ہر طرف کرپشن ہی کرپشن اورچور بازاری نظر آتی ہے، محکمہ خواراک کے زمہ داران کا دعویٰ ہیکہ سیل پوائنٹس کے قیام سے کرپشن اور آٹے کی چوری کو روکنے سمیت سستے داموں آٹے کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائیگا۔ دوسری طرف ملز مالکان کا دکھڑا یہ ہے کہ سیل پوائنٹس کے ذریعے تقسیم کی وجہ سے انہیں کروڈوں مالیت کا خسارہ ہے جس سے بچنے کیلئے انہوں نے ہڑتال کر دی ہے، اس تمام جھگڑے میں عوام پس رہیں ہیں اور سبسڈی کے نام پر گلگت بلتستان کے لاکھوں عوام کو ملنے والی کوٹے کی گندم پر سب کی نظر بد ہے ۔1999 ء میں نواز شریف دور حکومت کے اختتامی دنوں میں وفاق نے ایک لیٹر کے ذریعے یہ ہدایت کی تھی کہ گلگت بلتستان کو ملنے والی گندم کی پسائی مانسہرہ کے ایک فلور مل سے کرائی جائے لیکن اس وقت کے ڈائریکٹر سول سپلائی ظفر اللہ نے اس فیصلے خلاف سٹین لیا اورجواب دیا کہ گندم پر گلگت بلتستان کے عوام کا حق ہے اور پسائی بھی گلگت بلتستان میں ہی ہوگی۔ مسلم لیگ (ن) کی دوبارہ حکومت میں آنے کے فورا بعد یہ عمل دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔برجیس طاہر کے احکامات کے بعد سیل پوائنٹس کا قیام عمل میں لانا اور آٹے کا مصنوعی بحران پیدا ہونا اس بات کی دلیل ہیکہ دال میں کچھ تو کالا ہے۔محکمہ سول سپلائی کے زیادہ تر اہلکار گندم کی چوری کے زریعے اچھا خاصا مال اندر کر چکے ہیں ، دوسری طرف ملز مالکان نے بھی عوام کے ساتھ کوئی انصاف نہیں کیا بلکہ رات کے اندھیروں میں آٹے کی غیر قانونی سمگلنگ ہوتی رہی۔جس کے روک تھام کے بجائے محکمہ سول سپلائی کے کچھ اہلکار بھی نوٹ کمانے میں مصروف ہو گئے۔ اب جب محکمہ خوراک کی طرف سے سیل پوائنٹس کا قیام عمل میں آیا تو ان کی اوپر کی کمائی کو دھچکہ لگا اور انہوں نے ہڑتال کی کال دی، جس کی وجہ سے آٹے کا بحران پیدا ہوگیا ، یہ نورا کشتی ملز مالکان اور محکمہ خوراک کے درمیان ہے جس میں عوام بلا وجہ پس رہیں ہیں ۔ محکمہ خوراک اور ملز مالکان دونوں عوام کے مفاد کے بجائے اپنا اپنا الو سیدھا کرنے کے چکر میں ہیں ۔دوسری طرف تنور مالکان سستا آٹا ملنے کے باوجود روٹی کی قیمت کسی صورت کم کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں ۔

ہفتے کے روز آٹے کے بحران کے خلاف احتجاج میں عوام نے مطالبہ کیا ہیکہ اگر ملز مالکان اپنی ہڑتال جاری رکھتے ہیں تو رکھیں ہمیں محکمہ خوراک گندم مہیا کرے ہم خود گندم کی پسائی کرائنگے۔گلگت بلتستان کے علاوہ ملک کے کسی بھی صوبے میں گندم کی پسائی منظور نہیں ،ہمیں گندم فراہم کی جائے ، عوام کا اس سلسے میں مطالبہ نہایت معقول اور قابل قبول ہے ، اگر محکمہ خوراک کی اس سلسلے میں کئی بد نیتی نہیں ہے تو انہیں چاہیے کہ جب تک مل مالکان ہڑتال جاری رکھتے ہیں اس وقت تک وہ عوام کو آٹے کی جگہ گندم مہیا کریں اور ہر محلے میں سیل پوائنٹس کا قیام عمل میں لایا جائے تاکہ عوام اپنے حصے کی گندم جہاں سے مرضی پسائی کرائیں ،یہاں یہ بات ضروری ہیکہ محکمہ سول سپلائی میں کچھ ایسے عناصر موجود ہیں جو گندم کی بوریوں سے گندم چوری کرتے ہیں انکا سد باب کیا جائے اور منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے تاکہ عوام کو انکا حق پورا پورا مل سکے۔گندم کی سبسڈی کا حق نہ تو محکمہ خوراک کا ہے نہ ہی ملز مالکان کا اس سبسڈی پر حق گلگت بلتستان کے عوام کا ہے اسلئے عوام کی رائے کا احترام کیا جائے ،اس اقدام سے قبل محکمہ خوراک کے ذمہ داران کو چاہیے تھا کہ وہ وہ یہاں کے عوامی نمائندوں اور زمہ دار شہریوں سے مشاورت کرتے اور آٹے کی منصفانہ ترسیل کیلئے عوام کے ساتھ مل کر کوئی قابل قبول لائحہ عمل تیار کرتے ،زبردستی فیصلے منوانے سے مسائل میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا رہیگا اب عوام کا مذید امتحان نہ لیا جائے، کیونکہ کرپشن ، نا انصافی اور غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button