سرکاری ملازمتوں پر پابندی پر نظر ثانی اور چند شرائط۔
پاکستان مسلم لیگ ن کی مرکزی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان میں سرکاری ملازمتوں پر عائد پابندی پر نظر ثانی کے حوالے سے صوبائی حکومت نے وفاق سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور حکومتی ذرائع نے اس بات کی تصدیق بھی کی ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے اس سلسلے میں وفاق سے رابطہ کیا جا رہا ہے ۔ مسلم لیگ ن کی حکومت وفاق میں بر سر اقتدار آتے ہی جولائی کے مہینے سے گلگت بلتستان کے تمام سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں ہر قسم کی بھرتیوں پر مکمل پابندی عائد کرنے کے حوالے سے صوبائی حکومت کو آگاہ کردیا تھا جس کی روشنی میں چیف سیکریٹری گلگت بلتستان کی طرف سے بھی محکمہ فنانس اور دیگر اداروں کو سرکاری ملازمتوں پر پابندی عائد کرانے کے احکامات جاری کئے گئے تھے جس کے بعد سے لیکر اب تک کے تین ماہ کے عرصے کے دوران گلگت بلتستان کے کسی بھی سرکاری محکمے کی جانب سے خالی اسامیاں مشتہر کی گئیں اور نہ ہی پہلے سے مشتہر اسامیوں پر تقرریاں عمل میں لائی گئیں جس کی وجہ سے ایک طرف ملازمتوں پر پابندی عائد ہونے سے علاقے میں بے روزگاری کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف سرکاری اداروں میں سٹاف کی کمی کے باعث دفتری امور بھی مکمل طور پر ٹھپ ہو کر رہ گیاہے۔ تا ہم دفتری معاملات تو کسی نہ کسی طریقے سے چلائے جا رہے ہیں لیکن اصل مسئلہ بیروزگاری کا ہے جو کہ وفاقی حکومت کے اس فیصلے کی وجہ سے سخت سنگین صورتحال اختیار کر تی جا رہی ہے کیونکہ گلگت بلتستان جہاں ہر قسم کے قدرتی و معدنی وسائل سے مالا مال ہے وہی پر نجی شعبے میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث خطے کے عوام اپنے ان وسائل کے سونے جیسی بوریوں پر بھوکے سونے کے مصداق زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔نجی شعبے میں ملازمتوں کے مواقعے میسر نہ ہونے کی وجہ سے علاقے سے تعلق رکھنے والے مختلف یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل نوجوان صرف اور صرف سرکاری ملازمتوں کی طرف ہی آس لگا بیٹھے ہیں اور کسی نہ کسی طریقے سے سرکاری ملازمت حاصل کرنے کے چکروں میں سر گرداں نظر آتے ہیں تو ایسے میں وفاقی حکومت کی جانب سے ملازمتوں پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ نہ صرف بیروزگار افراد کا معاشی قتل ہے بلکہ ان سے وابستہ لاکھوں خاندانوں کی روزی کمائی پر بھی ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے ۔تعجب کی بات یہ ہے کہ الیکشن سے قبل پاکستان مسلم لیگ ن کی قیادت نے بھی اپنے منشور میں گلگت بلتستان کو چھٹے اکائی کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اسے بھی خود دار ،خودمختار اور خوشحال پاکستان کی فہرست میں شمار کیا تھا اور خطے کی تعمیر وترقی اور عوام کے معیار زندگی میں بہتری لانے کے حوالے سے بھی بڑے بڑے دعوے کئے تھے لیکن صد افسوس کہ اقتدار سنبھا ل کے صرف تین ماہ بعد ہی مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت نے پاکستان پیپلز پارٹی کی طرح عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں سے انخراف کا راستہ اختیار کرنا شروع کر دیا جو کہ اس کے لئے خطے سے مستقبل میں کامیابیوں کے حصول میں کسی صورت بھی نیک شگون ثابت نہیں ہو سکتا ۔وفاقی حکومت کیلئے بنیادی حقوق سے محروم خطے میں سرکاری ملازمتوں پر پابندی عائد کرنے کی بجائے یہ بہتر ہوتا کہ وہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کے چھتری تلے گزشتہ چار سالوں کے دوران تمام سرکاری محکموں میں ہونے والی بھرتیوں اور ترقیاتی منصوبوں میں ہونے والی اربوں روپے کی مبینہ کرپشن کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کر کے قومی خزانے سے لوٹی گئی رقوم واپس خزانے میں جمع کرانے کے حوالے سے سخت اقدامات اٹھانے کے احکامات جاری کرتی جس سے نہ صرف خطے سے کرپشن اور اقرباپروری کا خاتمہ ہو تا بلکہ کرپشن کے مرتکب افراد کے لئے مزید کرپشن کے ذریعے حکومتی وسائل لوٹنے کے راستے بھی بند ہو جاتے ۔بہر حال صوبائی حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمتوں پر عائد پابندی پر نظر ثانی کیلئے وفاقی حکومت سے رابطہ کرنے کا فیصلہ ایک دانشمندانہ اقدام ہے جس پر وفاقی حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ صوبائی حکومت کی جانب سے بھی وفاق کو یہ باور کرانا ہو گا کہ وہ سابقہ ادوار کی طرح آئندہ بھی میرٹ کو پامال کر کے سفارش اور رشوت کے عوض سرکاری نورکریوں کی بندر بانٹ سے گریز کریگی۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں گلگت بلتستان میں پھر سے ایک انتہائی سنگین معاشی بحران پیدا ہونے کا اندیشہ ہے جس کے نتیجے میں نہ صرف پہلے سے سرکاری اداروں میں موجود ہزاروں ملازمین بھی تنخواہوں سے محروم ہو جائینگے بلکہ علاقے کا سارا ترقیاتی عمل جمود کا شکار ہو کر رہ جائیگا اور صوبائی حکومت کو صورتحال پر قابو پانا انتہائی مشکل ہو گا ۔