سلطان کا گھر جل گیا
منگل کا دن تھا. سردی کا زور بڑھتا جا رہا تھا. کچھ بچے لکڑی کے بنے ہوئے گھر کے چھوٹے سے صحن میں مٹی کے ساتھ کھیل رہے تھے، امی نے راشن کے تھیلے سے شام کے کھانے کیلئے کچھ چاول نکال لئے ہیں، سلطان انگھیٹی کے قریب بیٹھا 3 سال پرانا کوئی رسالہ پڑھنے میں مصروف تھا جسے اس نے سو بار پہلے بھی پڑھا تھا، وقت کی سوئی آہستہ آہستہ کٹ رہی تھی ،اس گھر کے مکینوں کو پتا تھا کہ آئندہ چھ مہینوں تک ان کی زندگی گھر کے آس پاس تک ہی محدود رہے گی ،اور وہ مطمئن بھی تھے کیونکہ انہوں نے چھ مہینے کا راشن اکھٹا کر لیا تھا اب گرمیوں تک انہیں کسی قسم کی پریشانی نہیں تھی ،امجد مزدوری کرنے کیلئے پنڈی روانہ ہو چکا تھا،ہر سال کی طرح سردیوں کے چھ مہینے اس نے گھر سے باہر رہنا تھا کیونکہ سخت سردی اوربرف باری کے باعث یہاں مزدوری کے ذرائع دستیاب نہیں ہوتے تھے۔بارڈر کے قریب واقع اٹھارہ گھرانوں پر مشتمل اس چھوٹے سے گاوں میں سب ہی ایک جیسے حالات میں زندگی بسر کر رہے تھے۔تمام گھر لکڑی کے بنے ہوئے تھے ، لوگوں نے سردیوں میں مال مویشیوں کیلئے چارہ اکھٹا کر لیا تھا جسے سردی سے بچنے کیلئے گھروں کے ساتھ ہی ٹال کی شکل میں رکھا جاتا ہے ،اس روز ہوا تیز چل رہی تھی ،شام سے کچھ پہر قبل اچانک گھاس کے ایک ٹال میں آگ لگ گئی ۔کسی نے شاید یہ منظر دیکھ لیا تھا اس نے شور مچانا شروع کر دیا آہستہ آہستہ شور میں اضافہ ہوتا گیا ، سلطان نے جب شور سنا تو وہ بھی گھر سے باہر نکل آیا ،کیا دیکھتا ہیکہ گاوں کے لکڑی کے مکانوں میں آگ لگی ہوئی ہے ،لوگ آگ بجھانے کیلئے اپنی پوری کوشش کر رہے تھے لیکن ہوا کے تیز جھونکوں کی وجہ سے وہ اس کوشش میں ناکام رہے لوگوں کو گھروں سے کچھ بھی باہر نکالنے کی مہلت نہیں ملی صرف وہ اپنی جانیں بچانے میں کامیاب ہوئے ، یوں ایک ہنستا بستا گاوں آگ کی لپیٹ میں آکر خاکستر ہوگیا، سوکھی لکڑی کے بنے ہوئے گھر پل بھر میں جل کر خاک میں تبدیل ہوئے،سردیوں میں استعمال کرنے کیلئے جمع کئے گئے اشیائے خوردو نوش سمیت گھر کا دیگر سامان اس خوفناک آگ میں جل کر خاکستر ہوگیا ،اس بدقسمت گاوں کا نام گیشاٹ بالا استور ہے جہاں 8 اکتوبر کو یہ دل خراش واقع پیش آیا ۔جس کی وجہ سے 18گھر صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔ستم تو یہ ہے کہ سردی کا موسم بھی حال ہی میں شروع ہوگیا ہے جو متاثرین کے صبر کا امتحان لے رہا ہے،راقم نے کچھ دن قبل کسی کام کے سلسلے میں متاثرہ علاقے کا دورہ کیا ،جہاں متاثرین سے ملاقات کے دوران ان کی مشکلات سے آگاہی ہوئی۔
یہ چھوٹا سا گاوں لائن آف کنٹرول کے بلکلقریب واقع ہے جہاں سال کے چھ مہینے برف باری ہوتی ہے اور برزل ٹاپ شدید برف باری کی وجہ سے بند ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے رسد کی فراہمی ان علاقوں میں ممکن نہیں ہوتی ، متاثرین صاف پانی اور دیگر تمام انسانی سہولیات سے محروم بے سروسامانی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں ۔ کچھ فلاحی اداروں انجمن ہلال احمر اور الخدمت فاونڈیشن نے ان متاثرین میں امداد تو تقسیم کر لی ہے لیکن حکومت کی طرف سے سنجیدہ اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے یہ لوگ خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں ۔ برف باری کے شروع ہوتے ہی ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا اور پھر ان تک امداد پہنچانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ ایک طرف سلک روٹ فیسٹیول اور تفریحات کیلئے حکومت خطیر رقم خرچ کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف بے یارو مدد گار اور بے سرو سامانی کے عالم میں متاثرین فائر ڈیزاسٹر گیشاٹ بالا حکومتی امداد کے منتظر ہیں ۔ گیشاٹ استور کے 164 متاثرہ افراد انتہائی ناگزیر حالات میں زندگی گزار رہے ہیں وسائل کی کمی کے باعث یہ لوگ روز بہ روزنت نئے مسائل کا شکار ہورہے ہیں ۔ متاثرہ خاندانوں نے حکومت اور دیگر اداروں سے اپیل کی ہیکہ انکو مدد فراہم کی جائے ، تاکہ وہ سردی کے سخت موسم میں کسی اور آفت کا شکار ہونے سے بچ سکیں ۔ گھر جلنے سے صرف مالی نقصان ہوا ہے اگر متاثرین کو چھت فراہم نہیں کی گئی، تو خدانخواستہ جانی نقصان بھی ہو سکتا ہے۔
سلطان آج اپنے خاندان کے ساتھ ایک خیمے میں زندگی گزار رہا ہے اور اس نے رسالہ پڑھنے کی عادت ترک کر لی ہے کیونکہ اسکا رسالہ بھی دیگر سامان کے ساتھ خاک میں تبدیل ہوگیا تھا۔اسے اب ایک ہی فکر کھائے جا رہی ہے کہ وہ بغیر چھت کے سخت سردی اور برف باری کا کیسے مقابلہ کر سکے گا،وہ ہر صبح اپنے خیمے سے باہر کسی مسیحا کے انتظار میں رہتا ہے جو ان کے مسائل اور مشکلات کا مداوا کر سکے۔