آواز کی دنیا ۔۔۔۔۔ ریڈیو پاکستان گلگت
آواز کی دنیا کے دوستو ۔ارے پرنٹ میڈیا میں یہ آواز کے دوست کہاں سے یہاں تو قارئین ہوتے ہیں۔۔ تو قارئین کیوں نہ آج آواز کی دنیا کی طرف بھی چلیں اور دیکھیں کہ یہاں کیا ہوتا ہے۔۔
آواز کی دنیا کے دوستو۔ یہ جملہ دنیا کے ہر ریڈیو سٹیشن سےمختلف زبانوں میں نشر ہوتا ہے اور تقریبا لوگ اس جملے سے مانوس ہیں۔۔اور ریڈیو کے مختلف پروگراموں سے لطف اندوز ہوتے ہیں آج میں جس آواز کی دنیا کی بات کرنے لگا ہوں اسکی دنیا ملک میں موجود آواز کی دنیا سے منفرد اور بڑی اہمیت کی حامل ہے جی ہاں آپ کا اندازہ صحیح آپ بھی تو یہی کہہ رہے تھے نا ریڈیو پاکستان گلگت۔۔۔۔ پچھلے دنوں ایک شادی میں جانے کا اتفاق ہوا وہاں ریڈیو کے ایک سینئر اور بزرگ سے ملاقات ہوئی بڑے ہی ملنسار اور مہربان ان سے تھوڑا تبادلہ خیال بھی ہوا کچھ پرانی یادیں تازہ ہوگئی.
جی ہاں سابق سٹیشن ڈائریکٹر محمد اکرم خان صاحب کی بات کر رہا ہوں جنہوں نے آواز کی دنیا ریڈیو پاکستان گلگت کے لئے بڑی خدمات انجام دیں ان کے ساتھیوں میں امان علی شاہ صاحب بھی ہوتے تھے جو اب مرحوم ہوچکے ہیں ان کے متعلق اگر یہ کہا جائے کہ اس کی آواز اور ریڈیو گلگت لازم و ملزوم تھے تو بے جا نہ ہوگا۔۔ ایک شینا پروگرا م۔ بیاک ۔بہت مقبول ہواتھا اس کی وجہ صرف اور صرف امان علی شاہ صاحب تھے۔۔ ریڈیو پاکستان گلگت سے میرا تعلق زمانہ طالب علمی سے ہے کبھی کبھار ایک آدھ پروگرام میں حصہ لیا کرتا تھا اس کے علاوہ ایک ہفتہ وار پروگرام۔ اسئے چاکری ۔میں باقاعدگی سے حصہ لیتا رہا جس کو ہمارے دوست شیر باز علی برچہ بطور اینکر پرسن پیش کرتے تھے. یعنی ہمارے نوجوان اب ہم نوجوان تو نہیں رہے مگر اتنے عمر رسیدہ بھی نہیں کہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں۔۔ طبعیت کچھ کھوجی اور جستجو والی پائی ہے اور ادھر ادھر گھومنے پھرنے (سرکاری نہیں اپنے خرچے پر) اور ادیبانہ نہیں لکھائی پڑھائی کا شوق زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے وا لے لوگوں اور یاروں دوستوں سے ملاقات کا موقع فراہم کر دیتا ہے۔۔
اس ہفتے بڑا عجیب اتفاق ہوا جو بھی پرانے بیلی ملے سب کے سب اسی آواز کی دنیا سے تعلق رکھنے والے تھے. کچھ دن پہلے ہی ایک یونیورسٹی فیلو سے ٹاکرا ہوا وہ بھی اسی آواز کی دنیا سے صوتی لہروں کو کنٹرول کرتے کرتے اب اپنے بچوں کی دنیا میں مگن ہیں اور اس کے دو دن بعد ہی اتفاقا مجھے اس راستے سے گزرنا ہوا جہاں آواز کی دنیا کا سنٹر تھا بس کیا تھا دل میں خیال آیا کہ چند لحمے یہاں پڑاوٗ ڈالا جائے اور اس کے اگلے لحمے میں ریڈیو پاکستان گلگت کی خوبصورت عمارت واقع جوٹیال کے احاطے میں تھا. مزے کی بات یہ ہوئی کہ جوں ہی میں نے انٹرنس کی حد عبور کیا تو ایک سمارٹ اور ہنس مکھ چہرہ ہاتھوں میں چند کا غذات اٹھائے اپنے آفس سے باہر نکل رہا تھا مجھے دیکھتے ہی بڑے پرتپاک انداز سے میری طرف بڑھے اور سلام دعا کی بڑی محبت سے استقبال کیا جیسا نام ویسا ہی دل یعنی شیر دل۔ پیشہ کے لحاظ سے ڈاکٹر لیکن آواز کی دنیا سے منسلک ہیں اور ہوا کے دوش اپنا جادو بکھیرتے ہیں صوتی لہروں کی بدولت ڈاکٹر شیر دل ہر گھر میں اور ہر دل میں رہتے ہیں ان سے کوریڈور میں کھڑے کھڑے گپ شپ ہوئی.
اسی اثنا میری نظر اوپر اٹھی تو ایک دروازے پہ لکھا ہوا تھا عالم خان ریجنل ڈائریکٹر ارے یار یہ تو ہمارے لنگوٹیا یار ہیں فٹ سے میں کمرے میں داخل ہوا موصوف اپنے ہی کسی سا تھی کو ریڈیو سے متعلق ہدایات دے رہے تھے ان سے علیک سلیک کے بعد میں صوفے کی طرف بڑھا اسی اثنا وہ اپنے دفتری ساتھی سے فراغت پاچکے تو میں اور عالم خان صاحب گپ شپ یں لگ گئے چائے کا دور چلا اور اسی دوران عالم خان صا حب نے ریڈیو سے متعلق بہت ساری باتیں بتائی ان میں سے بیشتر سے تو میں خود بھی واقف تھا مگر گفتگو کے دوران ریڈیو پاکستان گلگت سے متعلق میری معلومات میں کچھ اور اضافہ ہوا.
عالم خان موجودہ ریجنل ڈاریکٹر ہیں بلکہ یوں کہیں کہ گلگت بلتستان اور چترال کے پہلے ریجنل ڈائریکٹر ہونے کا اعزاز اور شرف بھی ان ہی کو ملا اس سے پہلے ریڈیو پاکستان گلگت میں سٹیشن ڈائریکٹر ہوتے تھے. مقامی لوگوں میں ڈاکٹر افتاب محمود، حسن منتظر کو بھی سٹیشن ڈائریکٹر کے عہدوں میں کام کرنے کا موقع ملا ان تمام حضرات نے ریڈیو پاکستان کی ترقی ترویج میں بڑا اہم کردار ادا کیا ہے موجودہ ریجنل ڈائریکٹر بھی بڑی جانفشانی اور تندہی سے اپنے کام میں مگن دن رات ایک کر رہے ہیں.
ریڈیو سے شینا اور بلتی پروگرام کی تاریخ ۱۹۵۰ سے شروع ہوتی ہے جب یہ پروگرامز پہلی بار پاکستان کے مشہور تفریحی مقام مری سے شروع ہوئے تھے اور شینا کی جو پہلی آواز مری کی پر فضا مقام سے ریڈائی لہروں سے شینا سننے والوں کے کانوں میں ٹکرائی وہ ڈی ایف او محمد افضل مرحو م کی تھی ان کے ساتھیوں میں سابقہ ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن کریم خان مرحوم ،امان علی شاہ مرحوم ،اور غیاث شاہین جگلوٹ شامل تھے۔ ۱۹۵۶ سے شینا پروگرا م راولپنڈی سے نشر ہونے لگا ۔ ۱۹۵۰ سے ۱۹۷۹ ریڈیو کے اس سفر میں اس کے مسافروں نے بڑی جانفشانی اور محنت سے سفر کو طے کیا اور اس کو اس مقام تک پہچایا جس کا یہ متقا ضی تھا ۔ ۱۹۷۹ کا سال وہ سال ہے جس میں صوتی دنیا کے براڈکاسٹنگ کے مسافروں نے گلگت دنیور کے مقام پر اپنا ٹرانزت کمپ بنایا اور ۲۵۰ واٹ کے ایک چھوٹے سے ٹرانسمیٹر سے گلگت شہر کی حدود بسین سے مناور تک ریڈائی لہریں بکھیر دیں۔ذرائع ابلاغ کے اس جدید دور میں ریڈیو کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کیونکہ ریڈیو ابلاغ عامہ کا وہ ذرائع ہے جس کے ذریعے دور دراز علاقوں تک بھی علاقے کے حالات و واقعات کا علم ہو تا ہے ۔زمانہ جنگ کا ہویا امن کا ریڈیو پاکستان گلگت کا ہر دور میں مثالی کردار رہا ہے اور گلگت بلتستان کے حدود میں ریڈیوپاکستان گلگت نے جو کار ہائے نمایاں انجام دئے ہیں ان کی فہرست بہت لمبی ہے جس کا احاطہ اس چھوٹے سے کالم میں ممکن نہیں۔ لوگوں کو حالات حاضرہ سے باخبر رکھنے کے لئے ریڈیو پاکستان کے عملے کو ماضی میں اس پسماندہ علاقے میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یا ہوا اس کی ایک الگ داستان ہے ذریعہ نقل حمل کی مشکلات کے باوجود ریڈیو پاکستان کے ان محنت کشوں نے دور دراز علاقوں کا سفر طے کر کے لوگوں کو باخبر رکھنے اور علاقے کے مسائل سامنے لانے کی بھر پور کوشش کی ان کی کاوشوں اور محنت ہی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ۲۵۰ واٹ کی چھوٹی ٹرانسیشن ۱۹۸۹ میں دس کلوٹ ٹرانسیشن میں بدل گئی اور پہلی بار سرحد کے اس پار بھی شینا پروگرا م سنا جانے لگا سابقہ دور حکومت میں اس وقت کے وزیر اطلاعات نے گلگت ریڈیو سٹیشن کی ٹرانسمیشن کو سو کلواٹ کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ابھی تک اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے گلگت کا یہ ریڈیو سٹیشن اس لحاظ سے منفرد ہے کہ گلگت بلتستان میں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں شینا بلتی کھوار وخی اور بروشسکی ان سب زبانوں میں ریڈیو گلگت پروگرام نشر کرتا ہے ۔ ایسا پاکستان کے کسی اور ریڈیو ستیشن میں نہیں ایک اور بات یہ کہ کسی وقت ریڈیو سکردو سے شینا پروگرا م نشر کیا جاتا تھا نہ جانے یہ پروگرا م کیوں بند کر دیا گیا ۔اس کی وجہ تو متعلقہ ذمہ داران ہی بتا سکتے ہیں بس ہماری اتنی گزارش ہوگی کہ اگر ریڈ یو سکردو اور ریڈیو گلگت سے بلتی اور شینا پروگرا م دوبارہ شروع ہوں تو اس سے علاقے میں ہم آہنگی اور بڑھے گی۔ ریڈیو پاکستان گلگت نے مقای زبانوں کی ترویج اور یہاں کی معشیت کو بڑھوا دینے میں بہت اہم کردار نبھایا ہے اور اس کے لئے اس شعبے سے منسلک موجودہ اور وہ لوگ جو مرحو م ہوچکے ہیں اور وہ جو اس ادارے سے فارغ ہو کر پنشن کی زندگی گزار رہے ہیں برابرکے حصہ دار ہیں.
ریڈیو پاکستان گلگت کی کارکردگی کے بارے سابق جنرل ندیم ڈائریکٹر ڈیزاسٹر منیجمنٹ کے یہ الفاظ جو اس نے عطا آباد جھیل اور دیامر کے زلزلے کے سانحے کے موقعے پر ریڈیو پاکستان کی کار کردگی دیکھ کر کہا تھا کہ اگر سچ سننا ہے تو ریڈیو پاکستان گلگت سنا کرو۔ بلاشبہ اس آواز کی دنیا ریڈیو پاکستان گلگت کے لئے بہت بڑا اعزاز ہے !