کالمز

ذبح عظیم

نواسہ رسولﷺ حضرت امام حسینؑ کی عظیم قربانی اور کربلا حق اور باطل کا معرکہ تاریخ انسانی کا وہ ناقابل فراموش حقیقت ہے جسے کوئی بھی صاحب شعور انسان نظرانداز نہیں کرسکتا۔اسلامی سال کا آغاز محرم الحرام سے ہونا اور اختتام آخر ذالحجہ میں ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اسلامی نظام کی ابتداء اور انتہا ایثار فداکاری اور عشق الہی سے شروع اور ختم ہوتی ہے۔جس طرح جناب ابراہیم ؑ نے عشق الہی کے جذبے میں اپنے بیٹے اسماعیلؑ کی قربانی کا عمل پیش کیا بلکل اسی طرح وراث ابراہیم ؑ نے کربلا میں اُمت کی ڈوبتی کشتی کو قربانی کے ذریعے کنارے تک پہنچا کر اسلام کو ایک نئی زندگی بخشی۔اسی لئے شاعر مشرق حکیم الامت حضرت اقبالؒ نے کیا خوب کہا کہ غریب وسادہ رنگین ہے داستان حرم ۔ نہایت اسکی حسینؑ ابتداء ہے اسماعیل ؑ ۔یہاں جناب اسماعیل ؑ کی قربانی اور امام عالی مقام کی قربانی کا موازنہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ جب جناب ابراہیم ؑ حکم خداوندی کے بعد اپنے عزیز بیٹے کو راہ خدا میں قربان کرنے کیلئے گردن پر چھری پھرنیہی والے تھے مگر خدا نے بغیر ذبیح کے اُن کی قربانی کو قبول کرکے یہ بتلایا کہ ذبح عظیم آپ ہی کے نسل میں سے ہوں گے اور آپ ہی کی نسل سے نور محمد ﷺ کا جلوہ دنیا میںآنا ہے لہذا جناب اسماعیل ؑ کو حیات کی ضرورت ہے تاکہ سلسلہ نبوت کا سلسلہ آگے بڑھتا رہے ۔لیکن جس ذبح عظیم کا ذکر ہوا وہ دراصل امام عالی مقام کی قربانی کا نام ہے جہاں نواسہ رسول ﷺ نے نانا کے دین کو بچانے کیلئے 6ماہ کے بچے سے لیکر اپنی حیات تک قربان کرکے دین میں ایک نئی روح پھونک دی اور امت رسول ﷺ کو جس نظام نے مردہ کیا تھا اُن میں ایک نیا جذبہ پیدا کیا۔واقعہ کربلا کو ہر مورخین اپنے انداز میں بیاں کرتے ہیں لیکن ایک روایت تمام مکاتب فکر کی کتابوں میں ملتا ہے کہ ایک روز رسول خدا ﷺ نے اپنی زوجہ ام سلمی ؑ کو ایک کوزے میں مٹی ڈال کر دی اور فرمایا کہ جس دن یہ مٹی سرخ اور مائع ہو جائے تو سمجھ لو میرا نواسہ شہید ہو گیا۔تاریخ کے مطابق واقعہ کربلا کے دوران ام سلمہؑ با حیات تھی اور انہوں نے 10محرم کو اُس مٹی کو سرخ اور مائع ہوتے ہوئے دیکھا۔اس بات سے ثابت ہوتا ہے کہ کربلا اسلام کی بقاء کی ضمانت اور حیات دین محمدﷺ کا محاظ بھی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس عظیم قربانی کو آج فرقہ واریت کا شکل دیکر ایک مخصوص طبقے تک محدود کیا جارہا ہے ۔مسلمانوں کو ایک سازش کے تحت فلسفہ کربلا سے دور کیا جارہا ہے تاکہ اس قوم کو درس کربلا کے ذریعے بیدار ہونے سے روکا جاسکے۔آج جب دنیا میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر نظر دوڑائیں تو کربلا یاد آتا ہے آج بھی حسین ابن علی ؑ کی صدا بلند نظر آتا ہے لیکن امت کو یہ صادائیں سُنائی نہیں دیتی کیونکہ اُمت غافل ہوچکی ہے اُنہوں نے نواسہ رسول ﷺکی اس عظیم قربانی کو اپنے لئے مشعل راہ بنانے کے بجائے دو شہزادوں کی جنگ قرار دیکر جس طرح غدیر کے واقعے کو بھلادیا بلکل اسی طرح کربلا کو بھی سیاست کا نام دیکر فلسفہ کربلا سے دوری اختیار کر لی ۔حالانکہ خود امام عالی مقام نے ارشاد فرمایا تھاکہ میرا قیام میرے خاندان میری ذات کی حفاظت اور تخت تاج کی طلب کیلئے نہیں ہے بلکہ میں حج کو عمرے میں تبدیل کرکے اپنے نانا ﷺکی اُمت کے اصلاح کیلئے جارہا ہوں ۔ساتھ میں امام حسین ؑ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میرا مقصد جنگ کرنا بھی بلکل نہیں بلکہ میرا سفر اُمت کی طرف سے ملنے والے اُن کئی ہزار خطوط کا نتیجہ ہے اور میں دیکھ رہا ہوں کہ یزید حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال قرار د د ینے کی کوشش کررہا ہے ایسے میں امت جدرسول اللہ ﷺ کی اصلاح اور دین محمد ﷺ کو بچانا میرے لئے واجب ہے۔یہی وجہ تھی کہ امام ؑ خود اکیلئے کربلا کی طرف نہیں گئے بلکہ تمام اہل عیال کے ساتھ سفر شام و کوفہ روانہ ہوئے لیکن افسوس اُمت نے اُس نواسہ رسول ﷺ کو جسے نبی آخرالزمانﷺ نے اپنے کاندھوں پر سوارکرتے تھے جس کیلئے حسینؑ منی وانامن الحسینؑ کہا جس نواسہ رسول ﷺ کو جنت کے جوانوں کا سردار کالقب دیا اُنہیں گھیر کر کربلا تک پونچا دیا ۔آج جب ہم اپنے معاشرے میں دیکھیں تو کربلا آج بھی ہماری ضرورت ہے آج بھی دین کے نام پر کاروبار ہو رہا ہے آج بھی معاشرہ ظلم جور سے بھرا ہے لیکن فلسفہ حسینیؑ سے کنارہ کش ہونے کی وجہ سے اُمت آج بھی بکھری پڑی ہے ۔کربلا میں امام عالی مقام نے اپنے اہل عیال کی قربانی کے بعد جواستغاثہ کی صدا بلند کی تھی آج بھی فضاوں میں گونج رہی ہے آج بھی معاشرے کو اُس حُر کی ضرورت ہے جو باطل کی سرداری کو اسلام کی بقاء پر قربان کرکے تاریخ اسلام میں ایک مقام پیدا کیا ۔کربلا کے میدان میں امام عالی مقام نے اپنے خاندان کی شہادت کے بعد استغاثہ بلند کرکے ہمیں بہت ہی اہم زندگی ساز پیغام دیا ۔آج بھی امام عالی مقام اپنے استغاثہ کے ذریعے ہمیں اس مقدس مشن کی مدد کیلئے آواز دے رہے ہیں جس کی داغ بیل امام عالی مقام نے کربلا میں ڈالی تھی۔اسی لئے تو کہا جاتا ہے کہ کُل یوم عاشورا کُل ارض کربلا ،یعنی جس جس زمین پر یزدیت اپنا سر اُٹھائے اور اسلامی اقدار کو نقصان پونچانے کی کوشش کرے وہ نابود کرکے نظام الہی کو نافذ کریں وہ کربلا ہے جس دن ہم دشمن دین اور دشمن انسانیت کے خلاف قیام کریں وہ دن عاشورا ہے۔لہذا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ ہر ظلم کے خلاف حسینیت ؑ کی طرز پر عمل کرتے ہوئے جہاد کرے لیکن جب یزد ی فکرکو اسلامی نام دیکر کر کسی بھی محاظ میں لڑیں تو فقط رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملتا کیونکہ حسین ؑ عظمت کانام ہے حسینؑ سرکٹا کے باقی رہنے کانام ہے حسین ؑ شہیدہو کر

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button