کالمز

گلگت میں موٹر وے! یقین نہیں آتا

یونیورسٹی سے ہم چند دوست سیر سپاٹے پر لاہور نکلے اور راستے کا انتخاب موٹروے سے کیا۔اسلام آباد سے لاہور موٹروے کا سفر انتہائی آرام دہ اور پر سکون ہوتا ہے۔ روڈ کی کشادگی اور پختگی کو دیکھ کر دنگ رہ گئے اس لئے کہ ہم نے کبھی ایسا روڑ اپنے علاقے میں دیکھا نہیں تھا۔ گلگت بلتستان کے سڑکوں کی حالت زار سے ہم خوب اگاہ تھے۔ موٹر وے پر سفر کے دوران ہم پُل اور فلائی اورز گنتے رہے۔ یہ اس لئے نہیں کہ ہمارے پاس ٹائم پاس کرنے کا کوئی اور طریقہ نہیں تھا بلکہ اس لئے کہ ہمارے پورے گلگت بلتستان میں اتنے ارسی سی پُل نہیں جتنے اس موٹروے پربنے ہیں۔ صرف ایک پُل کے گلگت بلتستان میں42 پُل بن سکتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے اپنے اپنے گاؤں اور ضلعے کے پُلوں کے بارے میں بات چیت کر تے رہے۔ راقم نے کہاکہ’ ہمارے اشکومن خاص میں ڈوک پُل صرف اسی(80) فٹ لمبی ہے اور اس پُل کے نام سے پیر کرم علی شاہ صاحب تین دفعہ اور ناجی صاحب ایک دفعہ قانون ساز اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے لیکن وہ پُل جو ایک کلوٹ کے برابر نہیں ‘ اب تک نہیں بن سکی‘۔ ایک دوست نے کہا ہمارے ہاں بھی ہنزہ سے رائکوٹ تک چائنا روڑ ہے نا جو موٹر وے سے کم نہیں‘۔یار !وہ تو پاک چائنا دوستی کی وجہ سے پاکستان نے اپنے کاروبار کے لئے بنایا ہے۔ ایک اور دوست بولے ’ شاید ہم پاکستان میں پورے پورے شامل نہیں اس وجہ سے ہم سے اس طرح سوتیلی ماں کا سلوک ہوتا ہے؟‘ تیسرے دوست فوراََ بولے’نہیں جناب ایسی بات نہیں‘ پاکستان نے صرف اس سال (سالانہ بجٹ ۱۴۔۲۰۱۳) 24 ارب کا بجٹ‘ جن میں سے تقریباََ 10ارب ترقیاتی ہے‘ اس علاقے کے لئے دیا ہے۔ جس کاتذکرہ ۲۶ جون کے مقامی اخبارات نے کی ہے۔ معاملہ پاکستان کا نہیں ہمارے سیاسی وانتظامی لوگوں کا ہے؟‘۔ بحرحال بحث جاری رہی اور ہم موٹر وے کے اردگرد کی سبزہ زاروں کو دیکھتے رہے۔ وسیع وعریض کھیت‘ فروٹ کے باغات اور سبزیاں دیکھ کر ہم نے بغرض شکر پنجاب کے لوگوں کا شکریہ ادا کیا یہ محنت کرکے ہمیں غلہ اور سبزیاں مہیا کرتے ہیں۔ حکومت پاکستان کا بھی شکریہ کہ سستی قیمت میں یہ ہم تک پہنچاتا ہے۔ ہماری گپ شب جاری تھی آرام دہ سفر کی وجہ سے نیند میں چلے گئے۔

سفری نیند میں خواب دیکھنا عام سی بات ہے۔ دیکھتا ہوں کہ اسلام آباد سے گلگت پہنچا ہوں اور گلگت ائیرپورٹ پر لوگوں کا رش ہے اور ٹکسی والے ایک سے ایک پہل کر رہا ہے۔ ایک صاحب بولے جناب کہاں جانا ہے؟ عرض کیا کہ غذر جانا ہے۔ وہ بولے سر آپ موٹر وے پہ جائیں گے کیا یا ٹرین میں؟ ہم نے کہا ’موٹر وے گلگت میں بناکب ہے؟‘ وہ صاحب زور زور سے قہقہے لگاکر بولے جناب آپ کوئی غیر ملکی ہے کیا؟ گلگت سکردو اور گلگت غذر روڈ موٹر وے بنے ابھی ایک سال ہورہاہے۔ ہم نے کہا ’یار !پکی بات ہے‘۔ وہ صاحب بولے پچھلی حکومتوں نے اس علاقے کو صرف آئینی حقوق کے نام سے کچھ حقوق دیئے تھے اب کی حکومت نے آکر ہی ترقی کا جھال بچھایا۔ پہلی فرصت میں دیامر باشا ڈیم کے ساتھ سکردو اور غذر میں موٹر وے بنایا۔ یہی تو کمال ہے اس حکومت کی۔ ہم حیران تھے کہ اتنی جلدی یہ کام کیسے ہوا؟ وہ بولے جناب سیاسی و انتظامی ذمہ دار مخلص ہو تو کوئی کام مشکل نہیں۔ میرے دوست جو سکردو سے تعلق رکھتے تھے فوراََ بولے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہم سکردو سفر پہ جاتے ہوئے خوف سے کانپتے اور ہمارا خون سوکھ جاتا تھا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک‘ خونی موڑ‘ خطرناک کلوٹ‘ تنگ روڈ‘ کچے پل اور سنگلاخ چٹان کئی ایک قیمتی جانیں لے چکے ہیں۔ 66سال تک ہم اسی روڈ پر سفر کرتے رہے اور آج اللہ کا فضل ہوا ہے کہ گلگت سکردو روڑ موٹر وے بنا ہے۔ ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی اور از راہ باری بول پڑے۔ یار! غذر روڑ کی حالت اسے بھی خراب تھی۔ پچھلی صدی کا بنا یہ روڑ چترال تک جاتا تھا لیکن اس کی حالت بہت خراب تھی جگہ جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار تھا۔ اتنا تنگ کہ بیک وقت ایک گاڑی گزرسکتی تھی۔ راستے کے پُل اور کناروں کے دیواریں دیکھ کر خوف آتاتھا۔ راستے میں خونی موٹ کئی ایک قیمتی جانیں لے چکی ہیں۔ پچھلی حکومت نے اس علاقے کو بدنام زمانہ قانون ایف ۔سی ۔ار کا خاتمہ کرکے ضلع کا درجہ دیا اور عوام اُن کی اس احسان کو 66سال تک نہ بھولے اور ووٹ کے وقت ان کا خیال رکھاکرتے ہیں۔ اب جب اس حکومت نے موٹر وے بنایا ہے تو یقیناًاس احسان کو بھی ہم نہیں بھولیں گے۔ ہم اس خوشی میں جلدی موٹر وے دیکھنے کی حوس سے پونیال لاری آڈہ پہنچے اور جلدی ایک گاڑی میں سوار ہوگئے۔ راستے میں کشادہ روڑ‘ پکی دیواریں‘ آرسی سی پُل‘ رنگ برنگ کے سیفٹی جنگلے اور ہموار سڑک دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا۔ اس پہاڑی علاقے سے یوں موٹر وے بنانا اکیسویں صدی کی ترقیافتہ قوموں کی نشانی ہے۔ جگہ جگہ 1122کی رسکیو گاڑیاں دیکھ کر ہم نے سکھ کا سانس لیا اور سوچھا کہ ہمارے حکمرانوں کو بھی انسانیت کی قدر آچکی ہے ورنہ ہم تو لاشوں کو دریا کے کنارے ڈنڈتے رہتے تھے جب دریا کرم کریں تو نصیب نہ کریں تو آہیں! آنکھ جھپکتے ہی ہم شیرقلعہ کراس کر گئے اورابھی سفر جاری تھی کہ ایک صاحب نے جگایا اور کہا کہ جناب آپ لاہور پہنچے ہیں۔ مہربانی کر کے اتریں۔ انکھیں مَل مَل کے دیکھا تو ہمیں کہاں نصیب ۔۔۔ یہ سہولتیں تو لاہور میں ہے۔

کیا ہمارے حکمران بھی گلگت بلتستان میں پکی سٹرکوں کا جھال بچھا سکیں گے؟ کیا ہمارے انجینئر روڑ بناتے وقت اپنے علم وایمان کا صحیح استعمال کرینگے؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حکمرانوں کو قوت حکمرانی اور ایمان نصیب کریں۔

’ان حسرتوں سے کہہ دو کہی اور جابسے
اتنا بجٹ کہاں ہے گلگت بلتستان میں‘

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button