کالمز

صحافیوں کا شکوہ بجا ہے۔۔۔۔!

بات سے بات نکلتی ہے،میں نے اپنی پچھلی تحریر میں اطلاعات و نشریات کے شعبے کی بہتری کے لیے وزیر اطلاعات سعدیہ دانش کے عزم کا تذکرہ کیا تھا۔، بحیثیت کالم نگار ہمیں تصویر کے دونوں رخ قارئین کے سامنے رکھنے پڑتے ہیں۔گزشتہ کالم میں بھی ان مسائل کی جانب اشارہ موجود تھا،جو ہمیشہ سے صحافیوں کو درپیش رہے ہیں،چونکہ میرا اصل موضوع یہ نہیں تھا، لہٰذا مجھے ماضی میں جھانکنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔تحریر کی اشاعت کے بعد مجھے گلگت بلتستان کے کئی سینئر اور عامل صحافیوں کی طرف سے فون کالز موصول ہوئیں ،انھوں نے زور دیاکہ تصویر کا دوسرا رخ بھی عوام کے سامنے آنا چاہیے ۔ان کا اشارہ یقیناًصحافیوں کو درپیش مشکلات کی طرف ہی تھا۔بحیثیت صحافی کئی واقعات اور معاملات کا مجھے بھی علم ہے، خیر جن باتوں کا مجھے علم نہیں تھا ،ان کے بارے میں بھی جاننے کا موقع مل گیا۔

2009 میں پیپلز پارٹی گلگت بلتستان میں واضح اکثریت سے کامیاب ہوئی ۔ اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے گلگت میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے صحافی کالونی بنانے کا اعلان کیا ، جس پر چار سال گزرنے کے باوجود عملدر آمد نہیں کرایا گیا، حالانکہ گلگت کے صحافیوں نے زمین کی نشاندہی بھی کرائی تھی۔وکلاء اوربیوروکریٹس کو تو زمینیں مل گئیں لیکن گزشتہ 25 سالوں سے سرکاری نوکریوں کو ٹھکرا کر صحافت کے ذریعے عوامی مسائل اجاگر کرنے والے اس سے محروم رہ گئے۔وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے بارے میں عامل صحافیوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے کالونی کے اعلان پر عملدرآمد کرانے کی بجائے صحافیوں کو ٹولیوں میں تقسیم کر دیا، جس کے بعد یہ مسئلہ آج تک حل طلب ہے۔پسند نا پسند کی بنیاد پرمقامی اخبارات کے ساتھ زیادتیاں ہوتی رہیں ، بے بنیاد الزامات میں صحافیوں کو پھنسایا گیا اورحکومت کی طرف سے جاری اشتہارات کی ادائیگی روک کرا خبارات کو دیوالیہ پن کا شکار کرنے کی پالیسی اپنائی گئی۔گزشتہ بجٹ اجلاسوں میں صحافیوں اور صحافتی اداروں کے لیے فنڈ تو مختص کیے جاتے رہے ہیں لیکن کسی کو پتہ نہیں چل سکا کہ یہ فنڈ کہاں خرچ ہوتے ہیں ۔میڈیا پالیسی بنائی گئی ہے جس پر عملدر آمدہونا باقی ہے، انفارمیشن سیل کا قیام عمل میں آچکا ہے لیکن ادارہ ابھی فعال نہیں ہوسکا۔ وزارت اطلاعات کا عہدہ گزشتہ چار سال جس وزیر کے پاس تھا، اس نے شروع میں تو بلند و بانگ دعوے کیے لیکن باقی چارسال اپنا فون ہی بندرکھا۔یوں معاشرے میں امن ،ترقی اور عوامی مسائل کو اجاگر کرنے اور حکومت اور عوام کے درمیان پل کا کردار ادا کرنے والے گلگت بلتستان کے صحافیوں کے ساتھ ہر دور میں مذاق ہوتا رہا ہے۔اس پر گلگت یونین آف جرنلسٹس کے پلیٹ فارم سے صحافیوں نے احتجاج بھی ریکارڈ کرائے گئے لیکن کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔

یہ وہ حقائق ہیں جن کے بارے میں عوام کو آگہی نہیں ہے۔ عامل صحافیوں نے حال ہی میں وزیر اطلاعات کے منصب پر فائز ہونے والی سعدیہ دانش کے اعلانات کا خیر مقدم تو کیا ہے لیکن ساتھ ہی اپنے تحفظات کا اظہار بھی کہ کیا ان اعلانات پر عملدر آمد ہوسکے گا ؟ان کی ناامیدی بھی برحق ہے کیونکہ سابقہ تلخ تجربات نے یہاں کے صحافیوں کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ماضی کی غلطیاں سدھاری جا سکتی ہیں اگر خلوص اور سنجیدگی سے بروقت اقدامات اٹھائیں جائیں۔

ستر کی دہائی سے گلگت کے سینئر صحافیوں نے کم وسائل کے باوجود پیشہ ورانہ خدمات سر انجام دی ہیں۔ انھیں ہر دور حکومت میں صرف وعدوں پر ٹرخایا گیا۔تنقید برائے تنقید ہر کوئی کرتا ہے لیکن تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے۔ نومنتخب وزیر اطلاعات و نشریات پر تنقیدکرنا اس وقت قبل از وقت ہے ،انھیں اس شعبے کی ترقی کیلئے صحافیوں کے تعاون کی ضرورت ہوگی۔ نو منتخب وزیر اطلاعات سعدیہ دانش سے جب صحافیوں کے مسائل پرحکومتی موقف واضح کرنے کی درخواست کی گئی توانھوں نے حوصلہ افزا جواب دیا کہ محرم کے بعد وہ صحافیوں کے ساتھ مشاورتی نشست کریں گی تاکہ ان کے دیرینہ مطالبات کے حل کے لیے لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکے ،انھوں نے کہا کہ مجھے صحافیوں کی مشکلات کا علم ہے اور ان کا ازالہ صحافی برادری کے تعاون سے ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ 

عصر حاضر میں جہاں دنیائے صحافت کئی نئے تجربات سے گزر رہی ہے وہیں گلگت بلتستان کے صحافیوں کو بنیادی مسائل کا سامنا ہونا افسوس ناک امر ہے۔ ان مسائل کے فوری حل کیلئے جامہ پالیسی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اگرچہ صحافیوں میں جذبہ خیر سگالی کا موجودہے لیکن وہ اپنے حقوق کی جنگ لڑنے کا حق بھی محفوظ رکھتے ہیں۔جملہ صحافیوں کی طرف سے راقم کی سعدیہ دانش صاحبہ سے گزار ش ہے کہ وہ فوری طور پر میڈیا پالیسی پر عملدر آمد ،اخبارات کی ادائیگیاں اور میڈیا کالونی کے اعلان پر عملدرآمد کے لیے عملی اقدامات اٹھائیں ۔ 

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button