کالمز

وزیرا علیٰ صاحب سے چند گزارشات

آج کا یہ کالم ایک سابقہ مضمون کا تسلسل ہے جس میں راقم نے کچھ دیہی مسائل کی طرف پرنٹ میڈیا کی وساطت سے محترم وزیرعلیٰ صاحب کا توجہ مبذول کرانے کی کوشش کی تھی۔آج بھی اسی سلسے کی یاد دہانی کے حوالے سے محترم وزیرعلیٰ صاحب سے چند گزارشات کرنا چاہوں گاکیونکہ یہ علاقے اجتماعی مسائل کے حل کی حوالے سے ہمیشہ منتخب نمائندوں کی نظر سے اوجھل رہتے ہیں۔

جس طرح گلگت بلتستان کا ہر علاقہ ترقی اور تعمیر کے حوالے سے اپنے منتخب نمائندوں کی نظراندازی کے سبب حکام بالا کی کرم نوازی کا منتظر ہے بلکل یہی صورت حال تحصیل کھرمنگ اور ضلع سکردو کے سنگم میں واقع غاسنگ تا ہلال آباد کے عوام کا بھی ہے جو زمانہ قدیم سے اجتماعی معاشرتی رہن سہن بجلی پانی جنگلات اور ٹیلیفون اور تعلیم سمیت انسانی زندہ گی کے تمام معمولات مشترک ہونے کے باوجود گزشتہ کئی سالوں سے ایک منظم سازش کے تحت سیاسی طور پر تقسیم ہونے کے سبب بدحالی کا شکار ہے۔ اس حوالے سے یہاں کے عوام میں شدید غم اور غصہ پایا جاتا ہے لیکن مکار نام نہاد علاقائی لیڈران کے ہاتھوں جھوٹے وعدے اور غلط پروپیگنڈوں کے سبب خاموش احتجاجی بنے ہوے ہیں۔ جس طرح پورے گلگت بلتستان میں عوام کے منتخب نمائندے اجتماعی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے شخصی ترقی کا موجب بنا ہوا ہے بلکل اسی طرح یہ علاقے بھی اسی مسائل سے دوچار ہے یہاں تک کہ مختلف این جی اوزکی طرف سے ملنے والے ترقیاتی فنڈ بھی ان لیڈارن کے الہ کار پیپر ورک کے ذریعے وصول کی جاتی رہی ہے لیکن سیاسی تقسیم اور معاشرتی تعصب کے سبب کوئی پرسان حال نہیں ۔ اس علاقے کو دونوں ا طراف کے یونین کونسل کی طرف سے بھی آج تک نظرانداز کیا جا تارہا ہے اور اگر کچھ پانی میں نمک کے برابر فنڈ مل بھی جائے تو جیسے اوپر ذکر کیا ،یہاں کے نام نہاد سرکردہ گان ہڑپ کر جاتے ہیں اور عوامی مسائل جوں کا توں رہ جاتا ہے۔یہ علاقے پورے ضلع سکردو کی سطح پر سیاحت کے حوالے سے ایک سنگ میل حیثیت رکھتے ہیں جس میں خاص طور پر موضع منٹھوکھا سیاحت کے شعبے میں ایک پہچان رکھتی ہے لیکن اس خوبصورت وادی کی اطراف موجود خوبصورت قطعہ جات منٹھوکھا ندی کے کٹاو کے باعث سکڑ کر بنجر بنتی جا رہی ہے۔منٹھوکھا ندی اپنی طوفان انداز کے باعث اس علاقے میں ایک خوف ناک اور ظالم ندی کے نام سے پہچانا جاتاہے جس کی وجہ اس ندی میں آنے والے طوفانی پانی ہے جو اپنے جوش کے موج میں اس علاقے کے غریب عوام کے سال بھر کی محنت اور مشقت کو بہا کر لے جاتے ہیں اور یہاں کے عوام ہر سال اپنے محنت کو دریا برد ہوتے دیکھ کر یہاں کے لیڈارن پر طعن کرتے ہوے دل کی بڑاس نکالتے ہیں۔یوں تو اس ندی کے نام پر کچھ عناصر اب تک نجی این جی اوز سے لاکھوں کا فنڈز لے چکے ہیں مگر اس طغیان ندی کے بہاو کو روکنے کیلئے کچھ عملی اقدام نہیں کیا ۔اس کے علاوہ یہاں پر موجود نجی دواخانہ جو کہ اس علاقے کی ایک اہم ضرورت ہے،نجی سکول جو کہ اس علاقے کا اکلوتا انگلش میڈئم سکول ہے،منٹھوکھا پاور سٹیشن جو کہ اس علاقے کو بجلی فراہم کرنے کا واحد ذریعہ ہے،سول ڈسپنسری حکومتی املاک ہے اور سب سے پڑھ کر RCCُُُ پُل جو کہ الڈینگ بارڈر جانے کا واحد ذریعہ ہے اور اس کے ساتھSCO کا آفس جو کہ اس منقسم علاقے کو ٹیلیفون کی سہولیات فراہم کرتے ہیں ۔ یہ تمام ادارے عین اس ندی کے کنارے آباد ہے جس سے یہ منقسم علاقے میں الگ یونین کونسل سے تعلق رکھنے کے باوجود اجتماعی طور پر غاسنگ سے ہلال آباد تک کے لوگ مستفید ہوتے ہیں۔ ان تمام سرکاری اور نجی اداروں کا عین اس ندی کے کنارے آباد ہونا ایک خطرے سے کم نہیں کیونکہ گرمیوں کے اوقات میں جب پانی کا بہاو تیز ہوتا ہے تو نہیں معلوم ہوتا کہ کب کیا بہا کر لے جائے۔

لہذا یہاں کے عوام اس مضمون کے ذریعے میڈیا کی وساطت سے محترم وزیر اعلیٰ سے ایک بار پھر گزارش کرتے ہیں کہ آپ چونکہ ایک غریب پررور پارٹی کا کا رکن اور عوامی منتخب وزیر اعلیٰ ہے لہذا براہ کرم ایک جامع منصوبہ بندی کے تحت منٹھوکھا پاور ہاوس سے لیکر تا دریا سندھ کے کنارے تک ندی کے دونوں اطراف حفاظتیواٹر شیڈ لگا کر مستقبل کیلئے یہاں پر موجود املاک اور عوام کی زرعی اراضی ا ور درختیں جو ہر سال ہزاورں کی تعداد میں اس طوفانی ندی کا شکار ہو جاتے ہیں،کو بچایا جائے۔اس کے علاوہ یہاں کے جنگلات جسے غیر مقامی لوگ یہاں کے مقامی افراد کی ملی بگھت سے ختم کرتے جارہے ہیں جسے روکنے والا کوئی نہیں اگر اس عمل کو روکنے کیلئے سرکاری طور پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ معدنیا ت کے حوالے سے بات کریں تو اس علاقے میں موجود معدنیات جو کہ اس علاقے کا مدفن سرمایہ ہے لیکن یہاں کی معدنیات پر بھی سرکاری اسررسوخ رکھنے والے غیر مقامی لوگ خاموشی سے صفایا کرتے جا رہے ہیں لیکن روکنے والا کوئی نہیں،لہذا یہاں کے عوام یہ بھی گزارش کرتے ہیں کہ یہاں پر معدنیات نکا لنے کیلئے سرکاری سطح پر مقامی لوگوں کو شامل کرکے کچھ اقدامات کریں۔دوسری طرف روڈ کے حوالے سے بات کریں تو منٹھوکھا اور غاسنگ نالے میں تعمیر کردہ روڈ آج بہت قلیل وقت میں عدم توجہی اور لینڈ سلائڈینگ کے سبب خستہ حالی کا شکار ہے جس پرتوجہ دیکر بہتری کیلئے کوشش کی ضرورت ہے۔ تعلیم کے حوالے سے بھی یہ منقسم علاقہ مسائل کا شکار ہے اس پورے علاقے کے طلبا میٹرک تک کی تعلیم کے حصول کیلئے 20کلومیٹر کا پیدل سفر طے کر کے جانا ہوتا ہے لہذا یہاں پر موجود مڈل سکول کو ہائی سکول کا درجہ دیا جائے ۔آخر میں یہاں کے عوام ایک اہم مسلے کی طرف توجہ دلاتے ہیں جسکا کئی سالوں سے ڈیمانڈ کیا جارہا ہے کہ غاسنگ تا ہلال آباد تک کو ایک الگ یونین کونسل بنا کر یہاں کی عوام کا درینہ مطالبہ پورا کیا جائے تاکہ یہاں کے دیہی ترقی اور معاشرتی اور سیاسی تعصب کا ازالہ ہو سکے۔متمنی اہلیان غاسنگ تا ہلال آباد تحصیل کھرمنگ ڈسٹرک سکردو۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button