بدلے ہوئے میاں
گلگت بلتستان کے عوام وزیر اعظم کے حالیہ دورہ گلگت کو بے فائدہ اور فضول قرار دینے میں حق بجانب ہیں لیکن عوام کی دیکھا دیکھی پاکستان پیپلز پارٹی کے صوبائی حکومت کے ذمہ داران کی اس سلسلے میں مسلم لیگ ن پر تنقید ہر گز جائز نہیں ہے ۔کیونکہ ان کی تنقید اس صورت میں جائز ہوگی جب ان کی اپنی جماعتوں کے ذمہ داران کی جانب سے اپنے دور حکومت میں عوامی فلاح و بہبود کیلئے کئے گئے اعلانات پر عملدرآمد ہوا ہو اور ان اعلانات کے خاطر خواہ نتائج بر آمد ہوئے ہوں تب یہ تنقید برائے اصلاح سمجھی جائے گی ۔لہذا پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے حکمران سب سے پہلے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے انتخابات سے قبل کئے گئے اعلانات اس کے بعد سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی جانب سے کئے گئے اعلانات اور پھر سابق صدر آصف علی زرداری کے دورہ سکردو کے موقع پر کئے گئے اعلانات کے ثمرات سے عوام کو آگاہ کریں کہ ان اعلانات کے تحت کتنا پیسہ صوبائی حکومت کو ملا اور وہ رقم کہاں کہاں خرچ کی گئی ساتھ ہی ساتھ یہ بھی واضح کیا جائے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں گلگت بلتستان کے لئے نقد اعلانات کے علاوہ علاقے کی تعمیر و ترقی کے حوالے سے جن منصوبوں کا اعلان کیا گیا تھا ان پر عملدرآمد کی کیا صورتحال ہے پھر یہ لوگ اپنے مخالفین پر سینہ تان کر تنقید کریں تو عوام انہیں حقیقی معنوں میں سیاستدان کے ساتھ ساتھ سیاست میں پی ایچ ڈی تسلیم کرنے سے عار محسوس نہیں کرینگے ۔عوام کی جانب سے وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دورے کو فضول اور بے مقصد قرار دینا اس لئے جائز ہے کہ میا ں صاحب اس بار صرف میاں ہی نہیں بلکہ بدلے ہوئے میاں بن کر تشریف لائے تھے ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ گزشتہ برس جب میاں نواز شریف سانحہ گیاری کے شہداء کے لواحقین میں پانچ پانچ لاکھ روپے کے امدادی چیک تقسیم کرنے جب گلگت تشریف لائے تھے تو اس وقت ان کے اندر گلگت بلتستان اوریہاں کے عوام سے دلچسپی اور عوامی محرومیوں کا جو احساس نظر آرہاتھا وہ اس بار دیکھنے میں نہیں آیا حالانکہ میاں صاحب اس بار تو پہلے سے کئی گنا زیادہ مضبوط پوزیشن میں تھے ۔ان کے پاس پہلے سے زیادہ اختیارات اور وسائل بھی تھے ان وسائل اور اختیارات کے استعمال کیلئے گلگت بلتستان کونسل کے نام پر ایک بہترین پلیٹ فارم بھی تھا اور پھر بنیادی حقوق سے محروم خطے کی تعمیر و ترقی ان کی جماعت کے انتخابی منشورکا حصہ بھی تھا لیکن بد قسمتی سے میاں صاحب وزارت عظمیٰ کا قلمدان سنبھالنے کے چند ماہ بعد گلگت بلتستان کے اپنے اولین دورے پر ہی عوامی امنگوں کی حقیقی ترجمانی کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔اس بار تومیاں صاحب عوام اور علاقے کی فکر تو کیا اپنی جماعت کے صوبائی سربراہ کے نام تک یاد نہیں رہا تا ہم اپنے دورے کے دوران وزیر اعظم نے جو تھوڑے بہت اعلانات کئے یا کچھ قوانین کی منظوری دیدی ان سے بھی عوام کو براہ راست فائدہ حاصل نہیں ہوا کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام کے چند مشترکہ مسائل جن میں وفاقی حکومت کی جانب سے گلگت بلتستان میں سرکاری ملازمتوں پر پابندی کا خاتمہ، گندم پر ملنے والی سبسڈی بر قرار رکھنے کا فیصلہ ،سیلاب سے ہونے والے نقصانات کے ازالے کیلئے درکار پانچ ارب کی گرانٹ، مختلف سرکاری محکموں کیلئے نئی اسامیوں کی منظوری اور جگلوٹ تا سکردو سڑک کی کشادگی سر فہرست تھے جو کہ وزیر اعلیٰ مہدی شاہ نے اپنے سپاسنامے کے ذریعے بھی وزیر اعظم کے کانوں میں ڈالنے کی کوششوں کے باوجودمیاں صاحب کی جانب سے کوئی گرین سگنل نہیں ملا جو یقیناًلمحہ فکریہ ہے اور شائد مقامی صحافیوں کو زیر اعظم کے دورے کی کوریج سے دور رکھنے کی اصل وجہ بھی ہی تھی کہ وہ بھی میاں صاحب سے درجہ بالا مسائل سے متعلق تلخ سوالات پوچھیں گے ۔بہر حال صحافیوں کو وزیر اعظم کے دورے کی کوریج سے دور رکھنے کا فیصلہ جس کسی نے بھی کیا تھا نقصان مسلم لیگ ن کو ہوا کیونکہ مرکز میں مسلم لیگ ن کی حکومت ہی سہی صوبائی سطح پر کسی بھی وی آئی پی شخصیت کے دورے کے متعلق انتظامات صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ صوبائی حکومت اپنی یہ غلطی تسلیم کرنے کو تیار ہے یا اسے بھی دوسروں پر مسلط کر کے خود کو بے اختیار قرار دیتی ہے ۔