کالمز

رینٹل ریاست اور سیاست آخر کب تک۔۔؟؟

وزیراعظم پاکستان جناب میاں محمدنواز شریف صاحب کا حالیہ دورہ گلگت پرتوقعات بارش کی طرح پرس کر ارمانوں کو سیلاب کی طرح بہا کر کارکنوں کو ناراض اور جیالوں کو خوش کر کے چلے گئے۔اس دورے کے حوالے سے مقامی میڈیا پر کئی قسم کی فسانے بیاں کئے گئے لیکن راقم نے پہلے ہی اشارہ دیا تھا کہ اس طرح کے دو رے سیر سپاٹے اورپاڑتی معاملات سے ہٹ کر نہیں ہوتے لہذا عوام کو ذیادہ خوش فہم ہونے کی ضرورت نہیں۔آخر ہوا وہی جس کی توقع کی جارہی تھی یہاں تک کہ مقامی میڈیا اور صحافیوں کو بھی ملنے کی اجازت نہیں ملی جو کہ نہایت دکھ اور قابل مذمت فعل ہے۔ سوال یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں ہی آخر اس طرح کے واقعات ہمیشہ کیوں پیش آتے ہیں کہ پاکستان سے کوئی وزیر یا مشیر کسی بھی غرض سے یہاں آتے ہو اُن کیلئے سڑکیں سجائی جاتی ہے سیکورٹی کے نام پر نظام زندگی مفلوج کی جاتی ہے۔یہاں تک اکثر و بیشتریہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ اسکولوں کی بھی چھٹی کی جاتی ہے۔یعنی یہاں کے عوام کی مثال ایک درباری کی طرح ہے جس کاکام دربار کو رونق بخشنا ہی ہے اس کے علاوہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی پھر بھی ہمارے لوگ نہیں سمجھتے ہیں۔ہر بار ہر وزیر یا مشیر کو آزمائے جاتے ہیں لیکن آخر میں نتیجہ وہی نکلتا ہے کہ ہم عوام کے ساتھ ہے اور عوام ہمارے ساتھ ہے یعنی الیکشن میں ووٹ دینے کیلئے عوام ہمارے ساتھ ہے اور عوام کو بیوقوف بنانے کیلئے ہم عوام کے ساتھ ہے ۔اس سے بڑھ کر نہ عوام کی کوئی حیثیت ہے نہ ووٹ کی یوں اس طرح کے نظام کو رینٹل سیاست کہا جاسکتا ہے جہاں کچھ لوگ مخصوص مقاصد لیکر عوام میں جاتے ہیں اور عوام کو بیوقوف بنا کر یہی رینٹل لوگ ایک نظام کیلئے کام کرتے ہیں جس کا بنیادی مقصد کچھ ریاست میں رٹ قائم رکھنا ہے نہ کہ عوامی فلاحی کام کرنا۔ وزیراعظم کی حالیہ دورے کے حوالے سے کوئی بات کرنا بھی بیکار ہے کیونکہ اُن کا اصل مقصد نہ عوام کی فلاح ہے نہ ریاست کو حقوق دینا بلکہ جیسے پہلے ذکر کیا اس ریاست کی سیاست میں آج سے پہلے اُنکی پارٹی کوئی مقام نہیں مل سکا جسکے میاں صاحب خواہاں تھے کیونکہ اس خطے کے اکثریتی لوگ فطری طور پر انہیں ناپسند کرتے رہے ہیں۔ لہذا آج تخت اسلام آبادانکے ہاتھ میں ہے اور یہی سب سے بہتر موقع ہے کہ اس ریاست کو بھی اپنے زیر اثر لائیں تاکہ مثل فرعون اپنی حاکمیت پرفخر کر سکیں۔اس بات سے کسی بھی حاکم کو کوئی سروکار نہیں کہ ریاست میں عوام کس طرح زندگی گزار رہے ہیں امن امان کی صورت کیوں بدتر ہوتی جارہی ہے بس انہیں ایک چیز کی فکر رہتی ہے کہ ریاست میں انکیحکومت قائمہو۔یہی سلسہ سابق ادوار حکومت میں بھی رہی گلگت بلتستان میں موجود سیاسی نظام کو کئی قسم کے نام دیئے گئے اور آخری بار 2009میں بھی ایک نام نہاد پیکج دیا وہ بھی پاکستانی سیاست کی ایک ضرورت تھی ۔ سابق ادوار میں بھی وزرائے اعظم اور صدر پاکستان کے مختلف اوقات میں یہاں کے دورے کئے اور کئی میگا پراجیکٹ کے حوالے سے وعدے اور فوری عمل درآمد کا بھی حکم دیا لیکن کرسی کے ساتھ وہ سارے وعدے اور بھی حسب دستور اعلان کی دنیا سے باہر نہیں آسکے۔داخلی طور پر بھی کئی اضلاع بنائے گئے عمل درآمد کیلئے نوٹیفکیش بھی جاری ہونے کی خبریں ملی لیکن بات پھر وہی کہ اس خطیکا نظام ایک رینٹل سسٹم کے تحت کام کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وعدے اور ارادے چہروں کی بدلنے کے ساتھ ساتھ بدل جاتے ہیں۔لہذا یہاں کے عوام کو وفاق سے کسی بھی قسم کا توقع رکھنے کے بجائے اپنے اندر کی خودی کو جگانے کی ضرورت ہے اگر ہمارے اندر سے خودی بیدار ہوگئے تو ہمیں نہ کسی سودی قرضے کی اور نہ کسی جھوٹے وعدوں کی ضرورت ہوگی کیونکہ اللہ نے اس خطے کو قدرتی وسائل مالا مال کیا ہوا ہے لیکن ہمارے اندر کے کرائے پر چلنے والے نام نہاد ساست دانوں کی غلط فیصلوں اور ہماری کوتاہوں کی وجہ سے ہم آج ایک بوری گندم کیلئے بھی اسلام آباد کا محتاج ہے ہم آج بھی گندم کی قیمت میں سو روپے کی اضافے پر پریشان ہے حلانکہ گلگت بلتستان میں گندم کی کاشت کا کثیر مواقع موجود ہے لیکن ہم محنت سے عاری اور سبسڈی سے محبت کرچکے ہیں سبسڈی نے اس خطے کی عوام سے کھیتی باڑی چھین کر رینٹل نظام کا حصہ بننے پر مجبور کیا ہے جس کی ہمیں خبر نہیں ۔ آج اشیاء خورد نوش اس خطے میں چین اور انڈیا سے پاکستان کی مارکیٹ سے کم قیمت پر درآمد کیا جاسکتا ہے لیکن ہمیں اس کیلئے راستے ہموار کرنے کی ضرورت ہے اس رینٹل سسٹم کو خدا حافظ کہہ کرایسے لوگوں کو چُننے کی ضرورت ہے جو یہاں کے اصل مسائل کی حل کیلئے کوئی حکمت عملی طے کریں ۔یہاں پر شائد کچھ لوگ یہ شک پیدا کرنے کی کوشش کریں گے کہ یہ پاکستان سے نکلنے کی بات کررہے ہیں ایسا بلکل نہیں کہ پاکستان کی دفاع میں اس خطے کے جوانوں کا کردار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ایسا بھی نہیں ہے کہ راقم یہاں کے عوام کو بغاوت کیلئے ورغلا رہے ہیں بلکہ یہ شکوہ ہے کہ پاکستان کو سب کچھ دینے کے باوجود گلگت بلتستان کو کچھ نہ ملا۔تمام تر حق تلفیوں کے باوجود پاکستان کی بقاء کیلئے اس خطے کے جوانوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ بھی پیش کیا کارگل ہو یا سیاچن اس خطے سے تعلق رکھنے والے فوجی جوان فرنٹ لائن فائٹر کا کام سرانجام دیتے ہیں اس کے باوجود جب حقوق کی بات کریں تو کبھی کشمیر سے ملایا جاتا ہے تو کبھی کسی سے حالانکہ یہ بات پانی سے بھی شفاف ہے کہ یہ خطہ عوامی طاقت کے بل بوتے پر قائم ہوئے اور اپنی مرضی سے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا لیکن پاکستان میں شامل ہونے کے بعد جس سازش نے گلگت بلتستان کو اس دھانے پر پونچا دیا آج وہی لوگ ہمارے مہربان بنکر ہمیں اپنی حاکمیت
قبول کرنے کی دعوت دے رہے ہیں جو کہ ان ناممکن عمل ہے۔اس خطے کو رینٹل نظام کی ضرورت ہے نہ سیاست کی اس خطے کو وہی حقوق دئے جائیں جس کا یہ حقدار ہے۔صرف زبانی دعوے سے اب معاملہ سنبھالنے والا نہیں کیونکہ بیدار ی عوام کے بہت قریب پونچ چکی ہے نوجوان نسل وفاق پرستی کے نقصانات کو سمجھ چکے ہیں لہذا امطالبہ کرتے ہیں کہ وزیراعظم پاکستان اس خطے کے حوالے سے آئین میں ترمیم کرکے گلگت بلتستان کوآئین کا حصہ بنائیں یا اس کی خود مختاری کو قبول کرکے ریاست گلگت بلتستان کا درجہ دیں کیونکہ یہاں کے عوام اب مزید اس رینٹل سسٹم کو برداشت نہیں کر سکتی۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button