امن کیسے قائم ہو۔۔؟؟
ایک بادشاہ نے جانوروں کو ایک ساتھ قطار میں جاتے ہوئے دیکھا حیران ہو کر چرواہے کو بُلا یا اور پوچھا یہ سارے کس طرح ایک ہی قطار میں چل رہے ہیں ؟اُس نے سادگی سے جواب دیا بادشاہ سلامت جو قطار سے باہر نکلتا ہے انہیں سزا دیتا ہوں۔بادشاہ نے اُس نے کہا میرے ملک کی نظام کو ٹھیک کر سکتے ہو کیا؟ اُس چرواہے نے مذاق سمجھ کر سادگی میں حامی بھر لی یوں بادشاہ انہیں اپنے ساتھ دارلحکومت لے آئے وہاں پونچتے ہی بادشاہ نے چرواہے کو جج بنا کر عدالت لگالی ایک چوری کا مقدمہ آیا اور ہاتھ کاٹنے کا حکم ملا۔جلاد نے وزیراعظم کی طرف اشارہ کرکے بتانے کی کوشش کی کہ انہیں وزیراعظم کی پشت پناہی حاصل ہے چرواہے نے پھر حکم دیا کہ چور کا ہاتھ کاٹا جائے۔وزیراعظم نے سمجھا شائد انہیں بات سمجھ نہیں آئی آگے بڑھ کرجج بنے چرواہے کی کان میں کہا یہ اپنا آدمی ہے۔چرواہے کو چونکہ بادشاہ نے وقتی طور پر جج بنایا تھا لہذا انکے فیصلے کو قبول بھی کرنا تھا جج نے فیصلہ دیا کہ چور کا ہاتھ اور وزیراعظم کا زبان کاٹا جائے بادشاہ نے فیصلہ قبول کر لیا یوں سلطنت میں ایک قربانی نے امن قائم کیا بلکل یہی صورت حال پاکستان کا بھی ہے اس ملک میں بھی اگر حاکم چاہئے تو امن قائم کرنا کوئی بڑی بات نہیں لیکن بدقسمتی سے ہمارے حکمران خود کسی کے کاندھوں پر سوار ہو کر حکومت تک پونچتے ہیں ایسے میں انکی حاکمیت بھی شخصیت کی مزاج کے مطابق چلتی ہے۔ گلگت بلتستان چونکہ ہمارا موضوع گفتگو ہے اور اس خطے کو بھی بلکل اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے کیونکہ حاکم کبھی نہیں چاہتے کہ اس خطے میں امن قائم ہو اس حوالے سے اُنہیں بین الاقوامی مجبوریوں کا سامنا رہتا ہے جس میں سب سے بنیادی مسلہ اس خطے کی آئینی حیثیت کے حوالے سے ہے لیکن نہ ہمارے مقامی رہنماوں میں وہ سیاسی بصیرت ہے نہ عوام میں شعور جو اس سازش کو سمجھیں۔ آج خطے میں بھی امن کیلئے سب رو رہے ہیں ہر انسان اپنی اصطلاح میں فارمولے پیش کررہے ہیں اہل قلم اورد دانشور حضرات بھی اس حوالے سے پریشان نظرآتے ہیں حکومت بھی امن کیلئے کوشاں ہے مذہبی جماعتیں بشمول وفاق پاکستان گلگت بلتستان میں امن کیلئے پریشان نظر آتے ہیں یوں زندگی کے تمام شعبے سے تعلق رکھنے والے ایک ہی بات کرر ہے ہیں لیکن یہاں امن قائم ہونے کا نام نہیں آخر وجہ کیا ہے کوئی جنات کی مخلوق تو یہاں کی امن خراب کرنے میں کردار ادا تو نہیں کررہے ہیں؟لمحہ فکریہ ہے۔ہمارے عوام بشمول اہل دانش حضرات بھیہرمسلے کامرکز کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں جب مرکز سے معلوم کریں تو انہیں وفاق سے شکایت ہوتی ہے کہ ہمیں امن وامان کے ضرورت کے مطابق لوازمات فراہم نہیں کرتے جو کہ درست ہے ۔اس خطے میں اگر وفاق پاکستان چاہے تو ایک دن میں تمام سیاسی مذہبی بُرائیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے مگر بدقسمتی سے وفاق کو یہ پسند نہیں کہ اس خطے میں امن قائم ہو انہیں ہمیشہ یہ خدشہ رہتا ہے کہ امن قائم ہونے کے بعد یہاں کے عوام اپنی حقوق کیلئے ااجتماعی آواز بلند ہوسکتے ہیں جو آج تک چند قوم پرستوں کی آواز تک محددو ہے۔ہمارے ہاں بھی اگر کسی ایک مجرم کو کڑی سزا مل جائے تو ممکن نہیں کہ کوئی اس خطے کی امن خراب کرنے کے بارے میں سوچے بھی۔لیکن جیسے اوپر ذکر کیا جب حاکم نہیں چاہتاتو عوام چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کرسکتے بلکہ یہی عناصر عوام کو مہرہ بنا کر استعمال کرکے مفادات حاصل کرتے ہیں لیکن ہمیں خبر نہیں کہ ہم کس کا مہرہ بن رہے ہیں ۔ لہذا اس سلسلے میں ہمیں صرف مرکز کو ذمہ دار ٹہرانا ہے درست نہیں کیونکہ مرکز خود ایک مہرہ ہے اور ایک رینٹل سسٹم کے تحت کام کرتی ہے۔ایسی صورت حال میں عوام کو ذیادہ سوچنے کی ضرورت ہے کیونکہ امن و امان کی خرابی کیلئے ہمیشہ عوام استعمال ہوتی ہے۔ لہذا عوام کو سوچ بلند کر کے باہمی احترام کے ساتھ دشمن شناسی کی ضرورت ہے ایک دوسرے کی مقدسات کا احترام کرتے ہوئے مذہبی اور معاشرتی رسومات میں شریک ہونے کی ضرورت ہے سوشل میڈیا کے مجاہدین کو کنٹرول کرنا سب سے اہم مسلہ ہے کیونکہ ایک فرد واحد ایک کمپیوٹر پر بیٹھے کسی خاص طبقہ یا کوئی مکتب فکر کا نام استعمال کرکے معاشرے میں شر پھیلا رہے ہوتے ہیں جو کہ حقیقت میں اُس مکتب سےُ ُدُور کا بھی تعلق نہیں ہوتااسطرح کے واقعات عوام میں دوریاں پیدا کرنے کی بنیادی وجہ ہے ۔لہذا عوام کو اسطرح کے عناصر کے بارے میں اگاہی کی ضرورت ہے اگر ہم فلسفہ باہمی احترام کو سیکھیں توامن اور ترقی کوئی ناممکن عمل نہیں۔ لہذا ہمیں امن وامان کے معاملے میں مایوس ہونے کے بجائے اس امن کو خراب کرنے والوں کا قلع قمع کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ امن سوچنے سے یا اخباری بیانات دینے سے نہیں ہوتی بلکہ اچھی حکمرانی سمجھ دار عوام امن کا ضامن ہے۔ہمارے گلگت بلتستان کا مسلہ یہی ہے کہ ہم عوام امن کے داعی نہیں ہم نان ایشو کو بڑا ایشو بناتے ہیں سیاسی بیانات کو بھی سیاسی طور پر سجھنے کے بجائے مسلک سے جوڑ کر احتجاج کرنے کو ہی امن کا راستہ سمجھتے ہیں جو کہ غافل معاشرے کی علامت ہے اور اس غفلت کے پیچھے بھی یہی سازشی عناصر ملوث ہے جو یہاں کے امن کا اصلی دشمن ہے ۔اس غافل معاشرے میں معاشرتی لاشعوری کے ساتھ ساتھ رہنمائی کی بھی کمی ہے ہم اپنے فرقے سے ہٹ نہ کر کسی کو اچھا مسلمان سمجھنے کیلئے تیار نہیں۔جس دن ہم انسانیت کی قدر اور منزلت کو جانیں گے تو امن امان کا کوئی مسلہ نہیں رہے گا۔لہذا ہمیں امن کو خواب سے تشبیہ دینے کے بجائے حقیقت میں عملدرآمد کیلئے محلے کی سطح سے شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے عوام بھی حکمرانوں کی طرح امن کیلئے بھی و