سیر تُ النبّی
الواعظ نزار فرمان علی
الحمدُللہ ۱۲ربیع الا ول کا مبارک ، روح پر ور ، ایمان افروز، دن ارض و سما کی تمام دیدنی و نا دیدنی مخلوقات بالخصوص انسانیت و امت کے لئے اللہ تعالیٰ کی بے پا یاں دینی و دنیاوی نعمتوں ، رحمتوں ، بر کتوں ، مسرتوں ، نصرتوں و کا مرا نیں سے تا قیامت مستفید و فیضاب ہو نے کی نو ید و روشن دلیل کا دن ہے ۔ سر ور کو نین ،سردار رسول ،ہادی سُبل ، امام جز وکل، محسن انسانیت ،شفیع محشر ، حبیب خدا ، خاتم النبییں ، رحمت اللعٰلمین حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ولادت با عظمت حضر ت آمنہ کے پہلوئے مبارک سے ہو ئی ۔ اس عظیم الشان دن کے موقع پر نہایت عاجزی و تہیہ دامنی کے ساتھ دست بدعا بحضور رب ذو الجلا ل و اِکرام ہیں کے اپنے پیار احمد مجتبیٰؐ کی طہارت ، بزرگی ، ومحبت کے طفیل ہمارے گناہوں ، نا فرمانیوں اور نا شکر یوں کو در گز ر فرما ،یا باری تعالیٰ تیری ہد ایت کی مضبوط رسی (اسلام) پرعلم و عمل کی گر فت ڈھیلی ہو نے کی وجہ سے آپس میں الجھ کر ہمارے قد م لڑ کھڑانے لگے ہیں، اے پاک پر ور دگار تیرا کلام پاک جو تمام اقسام کی روحانی و عقلی امراض کے لئے شا فی آسمانی دواہے کو تیر ے حبیب کی وصیت و ہدایت کے مطابق اپنی قلبی ، فکر و عملی وجو د کا حصہ بنا کر امت کی حیثیت سے دنیا کی سر پرستی کی طاقت عنایت فر ما ۔اے پا ک پر ور دگار ہمیں پیارے محمد مصطفی ﷺ کی حقیقی اتبا ع و محبت کے ذریعے تیر ی قر بت و معر فت کی لا زوال وانمول دو لت نصیب فر ما ۔ (آمین)
آپ ﷺ کے لئے زندگی پھولوں کی سیج نہ تھی پہلے والد پھر ماں اور بعد میں دادا کا سایہ اُٹھ گیا ۔عربوں میں یتیم نظر آنے والا عرب و عجم کا سہارا بن گیا،آپ ﷺکا مدرسہ و استاد سے دور کا بھی واسطہ نہ پڑا اس لئے آپ اُمی یعنی ان پڑھ بھی کہلائے ۔بلاشبہ جس کا استاد خود خدائے دانا و بینا ہو اسے دنیوی سہارے کی ضرورت کہاں پڑھ سکتی ہے۔آپ ﷺ ساری انسانیت کے معلم صادق کہلائے۔مغرب میں قائم دنیا کی مشہور یونیورسٹی لنکن ان قانون کی تعلیم کے لئے مسلمہ ادارہ مانا جاتا ہے اس درس گاہ کے بیرونی داخلی دروازے پر محمدﷺ ایک عظیم قانون سازلکھا جانایقیناانحضرتﷺ کی ہمہ گیر شخصیت کا اثر ہے جو غیروں پر بھی جابجا پڑتا ہے ۔اسی طرح دنیا ئے علم و ادب کے مشہور مصنف مائکل ہاٹ جب دنیا کے 100 موثر شخصیات کی فہرست تیار کرتا ہے تو وہ عیسائی ہونے کے باوجود موسیٰ و عیسیٰ ؑ یا سنٹ آگسٹائن ،فرائڈ و گوتم بت کی تاریخ کو ایک طرف رکھ کرنبی پاک کی ذات اقدس کو سرفہرست قرار دیتا ہے۔جو علم و عمل ،کردار و اخلاق کی بنیاد پر بڑی سماجی و معاشرتی تبدیلی بپا کرنے والی صف او ل آپﷺ ہیں جو دینی و دنیوی دونوں محاذوں پر کامیاب ہوئے۔
اگر ہم تاریخ عالم پر نظر ڈالیں تو دینا میں جتنے بھی انقلابات آئے اس کے پیچھے عظیم مفکروں کا ہاتھ تھا انہوں نے پہلے نظریہ پیش کیا اور بعد میں طویل خونی جدوجہد جس میں اداروں اور لاکھوں انسانی جانوں کا ضیاع بھی شامل ہے۔کو کھونے کے بعد منزل ملی جبکہ ہمارے نبی کا معاملہ ساری دنیا سے مختلف ہے آپ ﷺ نے پہلے انقلاب برپا کیا بعد میں نظریہ پیش کیا۔تاریخ شاہد ہے کہ آنحضرت ﷺکے انقلاب میں کسی بڑے جانی و مالی نقصان کا ذکر نہیں ملتا کیونکہ کہ آپ کے انقلاب کی روح شدت و سختی کی روح نہ تھی بلکہ آپ ﷺ نے علم و حکمت اور اخلاق و کردار کے پاکیزہ قلم کی نوک سے خشک و بیابان زمین کے سرکش و ضدی بدووں کو تہذیت و تمدن کی رفعتوں تک پہنچایا۔آپ ﷺ کی آمد نے انسانی تاریخ کے دھارے میں ربانی ہدایت کی روح پھونک کر حیات نو بخشی۔بگڑی ہوئی انسانیت کی مکارم اخلاق کے پیمانے پر صورت گری فرمائی،زندہ درگور ہونے والی بچیوں کو معاشرے میں مساوی حقوق دلائے،غلامی کی طوق اتار ڈالی ،جہالت کے پردے چاک کئے،جانی دشمنوں کو سگے بھائیوں سا بنا دیا،فردکو فرد کی اسیر ی کی زنجیرو سے آزاد کرکے خدائے واحد و بے نیاز کی بندگی کے بندھن میں دائیمی طور پر باندھ دیا۔تمام تر مروجہ نسلی،لسانی ،علاقائی،قبائلی و خاندانی امتیازات کو ملیامیٹ کرکے نورِ ایمان و ایقان کی روشنی میں امت واحدہ میں پیرو دیا اور علم و عمل ،تقویٰ و نیکی ،بزرگی کا معیار ٹھہرا ۔دنیا کی نظروں سے پرے جاہل ،و پسماندہ و درماندہ ،منقسم قوم آپﷺ کی قیادت کی بدولت علم پرور جہانگیر و عہد و تمدن آفرین بن گئے۔” اے رسول !بیشک آپ اخلاق کے عظیم مرتبہ پر فائز کئے گئے ہیں” القرآن ” آپ ﷺ نے قرآن نما سیرت پاک کے ذریعے سیاست کو جارحیت سے جنگ کو انتقام و ملک گیری سے عدالت کو جانب داری و طرف داری سے،تجارت کو ملاوٹ و عہد شکنی سے پاک کیا،دولت کو قارونیت سے،عبادت و بندگی کوابلیسیت سے،علم و دانش کو بو جہلی سے ،قلم و الفاظ کے وجود سے سامریت سے ، ثقافت سے جمودعصبیت و تنگ نظری کی کثافت مٹا کر اسے علم ،سچائی اورحسن و حیا سے آراستہ کرکے عظیم تہذیب و تمدن میں بدل ڈالا”بیشک تمہارے لئے اللہ تعالی کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ہیں”القرآن”
جسطرح آپ ﷺ کی لائی ہوئی کامل کتاب قرآن تمام آسمانی کتابوں کا نچوڑ ہے اسی طرح آپ ﷺ کی ذات گرامی میں تمام انبیاء کی خصوصیات یکجا نظر آتی ہیں۔ہر نبی سے اس کی اپنی قوم مستفیض ہوگی،جبکہ آپ ﷺ رحمت العامین ہونے کی حیثیت سے تمام کائنات و انسانیت اور خاص طور پر امت کے لئے سرچشمہِ خیر وبرکت ہیں۔آپ سے قبل جتنے بھی صاحبان شریعت و کتاب رسول آئے انکی عمریں بھی طویل اور ان کے دعوت و تبلغ کا عرصہ زیادہ ہونے کے باوجود پیروکاروں کی تعداد سنکڑوں سے زیادہ نہیں ملتی جبکہ بنی آخرین کا اعجاز دیکھئے کے ماقبل انبیاء کے مقابلے میں مختصر عمر ہونے کے باوجوددعوت تبلغ کے فقط 23 سالوں میں آپ کے امتیوں کی تعداد لاکھ سے اوپر جا پہنچی۔گزشتہ ادوار کے انبیاء کے شریعتوں میں دین داری دنیاداری پر حاوی تھی جبکہ آپ ﷺ کی شریعت میں ان دونوں پہلوؤں میں ایک حسین امتزاج نظر آتا ہے یعنی دونوں جہانوں کی بھلائی بیک وقت با آسانی حاصل ہوسکتی ہے۔آپﷺ نے فرمایا "انا خاتم النیّینِ لا نبی بعدی” ترجمہ : میں آخری بنی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
جب دنیا آپ کے اخلاق حسنہ کے گونا گوں مثالوں پر نظر ڈالتی ہے تو وہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے۔آپ ﷺ مکی زندگی میں محلے سے گزرتے ہیں تو ایک غیر مسلم عورت آپ ﷺ پر کچرا پھنکتی ہے اس کوڑا کرکٹ پھینکنی والی کی علالت پر بیمار پرسی کے لئے جانا،طائف میں دعوت و تبلغ کے موقع پر آپ کا تمسخر اُوڑانے ،گالی گلوچ اور پتھر مار کر لہولہان کرنے والے نوجوانوں کو اس گستاخی کے بدلے میں دعائے خیر کرناآپ فاتحانہ حیثیت میں مکہ تشریف لائے اور بحیثیت سربراہ ریاست عرب چاہتے تو آپ کے خاندان و صحابہ کے قاتلوں کو عدل و انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کرکے قرار واقعی سزا دیتے۔ایسی مشکل گھڑی میں تمام گناہگاروں ،مجرموں کو عام معافی اور پوری آزادی کے ساتھ زندگی گزارنے کی اجازت دی۔آپ ﷺ نے دنیا کو ایک پیغام دیا کہ طاقت ور وہ نہیں جو حریف کو صفحہ ہستی سے مٹا دےبلکہ حقیقی طاقت ور وہ ہے جوموقع و اختیار ہونے کے باوجود بد ترین دشمن کو معاف کردے۔ حضرت محمد صلم نے اپنی بعثت کا مقصد اعلی مکارم اخلاق کو قرار دیا. جس کا پہلا بنیادی سبق” بہترین انسان وہ ہے جسکا وجود دوسروں انسانوں کے لئے فائدہ مند ہو” دوسرا اہم سبق” مسلمان وہ ہے جس کی زبان و ہاتھ سے دوسرا مسلمان بھائی محفوظ ہو۔تیسری بڑی اہم ہدایت جو روز قیامت بندوں سے پوچھے جانے والے سوالات میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے” افضل مسلمان وہ ہے جس کا اخلاق سب سے اچھا ہے” انحضرت ﷺ نے ایک موقع پر صحابہ کرام سے مخاطب ہوکر فرمایا کیا میں تمیں ایک ایسے عمل کے متعلق نہ بتاوں جو فرائض و مروجہ عبادات سے بھی زیادہ اہم ہے صحابہ عرض کرنے لگے بیشک یا رسول الللہ تو آپ ﷺ نے فرمایا ” باہم مل جل کر رہنا اور فتنہ و فساد سے بچنا فساد تو تباہ کن ہے”.
انحضرتﷺ نے دنیوی معاملات میں تازہ فکر ،نئے تجربات،ایجادات و انکشافات کے حوالے سے بڑی قدر دانی و حوصلہ افزائی فرمائی علمی،فنی و تمدنی پہلوں سے ہونے والی صحت مند پیش رفت چاہے اندرون عرب و بیرونی دنیا سے ہواگر ہو دین مبین کے الہٰیاتی و بنیادی اخلاقی اقدار سے ہم آہنگ ہو تو اسے پسند فرمایا مثلاً آپ نے بڑے سے بڑے کافر قیدی کو چند مسلمانوں کو تعلیم دینے پر سزا معاف فرمائی،جنگ خندق میں حضرت سلمان فارسی نے خندق بنانے کی ایرانی جنگی حکمت عملی پیش کی جسے انحضرت ﷺ نے استعمال کی اجازت دی، دبا بے و منجنیق کے استعمال کی تربیت کیلئے یمن و شام بیھجا،وفود تجارتی مقاصد سے مصر بھیجے گئے۔آپ ﷺ نے علم و حکمت کو مومن کی گم شدہ متاع قرار دیتے ہوئے اسے چین جیسے دورآفتادہ غیر اسلامی ملک تک رسائی حاصل کرکے اسے اپنانے پر زور دیا۔آئیں آج کے مبارک دن ہم عہد کریں کہ قرآن کریم اور رسول پاکﷺ کی اسوہ حسنہ پر دل و جان سے عمل پیرا ہو کر ایک منظم ،مضبوط ،باہمت و با اخلاق امت بن کر دنیا و آخرت میں کامیابی و سرخرؤی حاصل کریں ۔آمین یا رب العالمین