ہندوکش ہائی وے
چترال اور گلگت بلتستان ثقافتی ، تہذیبی ،لسانی اور نسلی اعتبار سے ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، دونوں خطے طویل عرصے تک ایک ہی ریاست کا حصہ رہے ہیں، البتہ 19وین صدی کے آخری عشروں میں انگریزوں کی آمد اور پھر علاقے کے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس قدیم تہذیب کو’’ تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کے تحت تباہ کر دیا گیا اور یوں 1895ء میں پہلی مرتبہ اس ریاست کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر کے مختلف حکمرانوں کے حوالے کیا گیا۔ اس کی اصل وجوہات میں سے ایک وجہ مہترانِ چترال کا 1885ء میں اپنی جابرانہ حکومت کو مزید دوام بخشنے کے لئے انگریزوں کے ساتھ کئے گئے وہ معاہدے تھے جنکی رو سے شاہی حکمرانوں کو عوام کے سامنے کسی بھی قسم کی جواندہی سے استثنأ حاصل ہو ا اور ریاستی معاملات میں انگریزوں کا عمل دخل بہت بڑھ گیا ،اگر چہ بعض مؤرخین کے مطابق انگریزوں کی چترال آمد کے بعد یہاں جمہوری اصولوں کے پنپنے میں آسانی ہو ئی ،لیکن حقیقت اسکے بالکل برعکس ہے انگریزوں نے 1895ء میں مہترِ چترال کی نو عمری کا بہانہ بنا کر مستوج ، غذر اور یٰسین کو ریاست سے علیٰحیدہ کر دیا ،اور یوں ایک ہی قوم کے لوگوں میں فاصلے بڑھ گئے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ معاملات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ آج معمولی اختلافات بھی سنگین صورتحال اختیار کر گئے ہیں ۔کہنے کا مطلب تاریخ کی قبر کشائی یا پوسٹ ماٹم ہر گز نہیں البتہ ان تاریخی غلطیوں پر سرسری نگاہ دوڑانی ہے جن کی بنا سے ایک تہذیب دو ٹکڑوں میں بٹ کر برباد ہو گئی ۔ انتہائی افسوسناک امر یہ ہے کہ نہ تو اہلِ قلم ،دانشور اور سول سوسائٹی ان غلطیوں کے آزالے کی کسی قدر کوشش کی اور نہ ہی حکمرانوں نے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دونوں خطوں کے عوام کے درمیان بے انتہا غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں ،ہاں البتہ ایک بات بڑی ہی حوصلہ افزأ ہے کہ حالیہ چند دنوں کے اندر دونوں خطوں کے اقتصادی ، سماجی ،ثقافتی اور دودسرے مسائل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے’’ گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی ‘‘نے ایک قرار داد منظور کی جس میں حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ شاہراہِ قراقرم کی مخدوش صورتحال اور پے در پے اس روڈ میں رونما ہونے والی دہشتگردی کے واقعات کی وجہ سے یہ سڑک سفر کے لئے انتہائی غیر محفوظ ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب گلگت چترال روڈ کو’’ آل ویدر روڈ‘‘ میں تبدیل کر کے عوام کے اس سنگین مسئلے کو حل کیا جائے۔ قرارداد کا متن کچھ یوں ہے ’’گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا یہ مقتدر ایوان اس امر کا مکمل ادراک رکھتا ہے کہ گلگت چترال روڈ علاقے کی تعمیر و ترقی میں نہایت اہمیت کا حامل ہے ،اس روڈ کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس حقیقت سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ سال 2010ء کے تباہ کن سیلاب سے جب قراقرم ہائی وے کی بندش ہوئی تھی اور جب ہال ہی میں دہشت گردی کے خطرات کے پیشِ نظر KKHبند رکھا گیا تو ہزاروں مسافروں نے گلگت چترال روڈ کا سہار ا لیا اور بحفاظت اپنی منزلوں تک پہنچ گئے۔
یہ اندازہ بھی باآسانی لگایا جا سکتا ہے کہ گلگت چترال روڈ آئیندہ کے لئے نہ صرف قراقرم ہائی وے کا متبادل راستہ بن سکتا ہے بلکہ یہاں کی معاشی و سماجی ترقی کا سبب بھی بنے گا بشرطیکہ موجودہ روڈ کی خستہ حالت کو بدل کر اسے آل ویدر روڈ کی حیثیت دی جا سکے تاکہ علاقے کی تجارتی و سیاحتی سرگرمیوں کو خاطر خواہ فروغ مل سکے۔
لہذأ یہ مقتدر ایوان قرار دیتا ہے کہ حکومتِ پاکستان سے درخواست کیجائے کہ وہ گلگت چترال روڈ کو بین الصوبائی حیثیت دے دیں اور اسے نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے سپرد کرے تاکہ وہ اس روڈ کو آل ویدر ہائی وے بنانے کی تمام ضروری انتظامات کرے اور اسے ’’ہندوکش ہائی وے‘‘ کے نام سے موسوم کرے‘‘۔
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کا یہ فیصلہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے اگر گلگت چترال روڈ کو سال کے بارہ مہینے کھلا رکھا گیا تو اس کے دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ حسن ابدال جہاں سے آگے قراقرم ہائی وے شروع ہوتا ہے ون وے سڑک ہے ،بہت بڑے علاقے کو کور کرنے کی وجہ سے اس روڈ میں بہت زیادہ رش رہتا ہے جس کی بنأ پر ٹریفک حادثات روزمرہ کے معمول بن گئے ہیں ،اگر گلگت چترال روڈ کو آل ویدر روڈ میں تبدیل کر کے اس کی موجودہ صورتحال میں بہتری لائی گئی تو اس کا بہت ہی مثبت اثر قراقرم ہائی وے پر پڑ سکتا ہے، گلگت بلتستان سے آنے والی ٹریفک کا بہاؤ ختم ہونے پر اس ون وے روڈ پر پریشر ختم ہوگا اوریوں ایک متبادل راستے کی فراہمی بہت سارے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کا ضامن ہو سکتی ہے ۔علاوہ ازین قراقرم ہائی وے پر کوہستان کے علاقے میں مبینہ دہشت گردوں کی جانب سے کئی مرتبہ مسافروں کو بسوں سے اتار کر گولیا ں ماری گئی اور یوں سینکڑوں مسافر ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتے ہوئے زندگی کی بازی ہار گئے۔ اس کے مقابلے میں ’’شاہراہِ ہندوکش‘‘ ایک محفوظ راستہ ہے اور خاض کر ملاکنڈ میں فوجی اَپریشن کے بعد علاقہ مکمل طور پر انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے۔ ہر حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کسی بھی صورت اپنے شہریوں کے جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائے حکومتِ پاکستان کے لئے قراقرم ہائی وے میں گلگت بلتستان کے عوام کو تحفظ دینا مشکل ہو گیا ہے اس لئے یہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ کوئی متبادل تلاش کیا جائے جس کے لئے گلگت چترال روڈ سے زیادہ مناسب شاید ہی کوئی اور راستہ ہو ۔
اس کے علاوہ گلگت بلتستان اور چترال کو سیاحتی جنت کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا سہولیات کی عدم فراہمی اور علاقے کی پزیرائی نہ ہونے کی وجہ سے ایسے سیاحتی مقامات دنیا کی نظروں سے اوجھل رہے ہیں اگر جی بی چترال روڈ کی تعمیر اور ان کو سال کے بارہ مہینے کھلا رکھا جائے تو اس سے چترال اور گلگت دونوں خطوں میں سیاحت ،ہو ٹلنگ اور دوسرے کاروباری شعبوں کو فروع ملے گا، اور مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع میسر آئینگے جس سے علاقے میں پائی جانے والی بے انتہا غربت پر قابو پایا جا سکتا ہے، دونوں خطوں کے عوام کے درمیان بھائی چارگی کی فضا کو فروع ملے گی اس کے نتیجے میں عوام کے درمیان پائی جانے والی بد اعتمادی کا بھی خاتمہ ہو سکتا ہے ۔
چترال میں ٹریفک کا نظام انتہائی دگر گوں ہے ایک طرف سڑکوں کی خستہ حالی تو دوسری طرف ڈرائیو ر برادری کی من مانیاں عروج کو پہنچی ہوئی ہیں ،دوسرے لفظو ں میں کہا جائے تو ڈرائیوروں کے ہاتھوں اہالیانِ چترال انتہائی ذلت و رسوائی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے ،اگر گلگت چترال روڈ کی بحالی ہوتی ہے تو چترال میں ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے بلکہ اس سڑک کی تعمیر و بحالی سے گلگت سے زیادہ چترال کو اس کے فوائد مل سکتے ہیں ۔
گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی جی بی چترال کو ہندوکش ہائی وے کا نام دے کر آل ویدر روڈ بنانے کا قرار داد منظور کر کے وزیر اعظم کو بھیج دیا ہے۔ اب بال چترا ل کے ممبرانِ اسمبلی، اہلِ قلم، صحافیوں اور طلبأ کی کوٹ میں ہے کہ وہ بھی اس سلسلے می اپنا کردار ادا کریں ،خاض کر ممبران کو خیبر پختونخواہ اسمبلی میں اس حوالے سے قرارداد پیش کرنا چاہئے اور یوں سب مل کر اس سلسلے میں کام کریں تو اس منصوبے کو قابلِ عمل بنایا جا سکتا ہے۔ ہندوکش ہائی وے کی تعمیر سے علاقے میں ترقی کے نئے دروازے کھل سکتے ہیں اور علاقہ ترقی کے نئے مدارج طے کر سکتا ہے۔
حرفِ آخر یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت موٹر ویز بنانے میں کافی دلچسپی رکھتی ہے سوال یہ ہے کہ اگر شہری علاقوں میں اربوں روپے کی سڑکین تعمیر کی جا سکتی ہے تو پھر دور دراز اور پسماندہ علاقوں کو نظر انداز کیوں رکھا جا رہا ہے؟؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی اور KPکی صوبائی حکومت چترال اور گلگت بلتستان کے گوناگوں مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے گلگت چترال رو ڈ کی تعمیر اور اسے آل ویدر روڈ میں تبدیل کرنے کے لئے ہنگامی بنیادوں پر کام شروغ کریں۔