کالمز

جدیدفلسفہ محبت

لفظ"محبت” ادا کرتے ہوئے بھی زبان میں مٹھاس کی امیزش محسوس ہوتی ہے ،اس کے فلسفے پر سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کتابیں بھی لکھی گئیں ہیں اور تو اور متحدہ کے قائد نے بھی حال ہی میں فلسفہ محبت کے عنوان سے اپنی کتاب شائع کر دی ہے،کچھ رو ز قبل دارلحکومت کے ایک انتہائی مشہورو معروف کاروباری مرکز کم تفریح گاہ میں دوستوں کی ایک محفل میں محبت کے فلسفے پر گرما گرم بحث ہو رہی تھی ، ہر کوئی اپنے آپ کو افلاطون کا حقیقی جانشین تصور کر تے ہوئے اپنی رائے دے رہا تھا ، میں اس بحث سے لا تعلق ٹیبل کے آخری کونے میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ محبت کے فلسفے کی اصل روح کیا ہے؟ اور آج کل اس عظیم رشتے کو کس قدر بدنام کیا جا رہا ہے۔اللہ رب العزت کی اپنے بندوں سے محبت ،بندے کی اپنے رب سے محبت ،ماں باپ کی اپنے اولادسے محبت ، شوہرکی اپنی زوجہ سے،استاد کی شاگرد سے، بڑوں کی چھوٹوں سے، محبت کے ہر رشتے میں صداقت ،اور انسیت نظر آتی ہے، جدید اصطلاح میں محبت کے معنی بہت بدل چکے ہیں ، جس جگہ ہم بیٹھے اس موضوع پر بات کر رہے تھے ،مجھے آس پاس بہت سارے جدید محبت کے شاخسانے بھی نظر آرہے تھے، میں سوچ رہا تھا کہ محبت جسے حاصل کرنے کیلئے انسان کو کئی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے اور اس محبت کا حق ادا کرنے کیلئے انسان کو بہت ساری خواہشات کا گلہ گھونٹنا پڑتا ہے آج کل اتنا آسان اور بے وقعت کیوں تصور کیا جاتا ہے۔ایک زمانہ وہ بھی تھا جب کسی ایک سے محبت ہوتی تھی تو لوگ اسے حاصل کرنے کیلئے دل و جان کی بازی لگا دیتے تھے لیکن آج کل یہ ایک فیشن بن چکا ہے، ہر چوتھے روز محبوب بدلا جاتا ہے ، انڈین فلموں کی بھرمار اور ٹیکنالوجی کے غلط استعمال نے نوجوان نسل کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے، بہت سارے نوجوان اس موذی مرض کا شکار ہو کر نہ صرف اپنی زندگیاں خراب کرتے ہیں بلکہ اپنے کردار پر بھی بہت سارے سوالیہ نشان چھوڑ دیتے ہیں ، محبت کے جھوٹے دعووں کے ذریعے دوسروں کو بیوقوف بنانا بہت آسان ہو گیا ہے، اس بات سے کوئی انکاری نہیں کہ انسان کا دل کسی پر بھی فدا ہو سکتا ہے لیکن جس طرح کی خود سپردگی کا مظاہرہ آج کے زمانے میں ہوتا ہے اس نے بے راہ روی کے نئے دروازے کھول دئیے ہیں ، یہ کیسی محبت جو جھوٹ اور دھوکے پر قائم ہو ،جو لوگوں کی زندگیاں تباہ کرنے کا موجب بن رہی ہو ، جو امید کی کرن کے بجائے رسوائی کے اندھیروں میں دھکیلے، نوجوان نسل کے اس بگاڑ کی ایک بڑی وجہ والدین کی اپنی اولاد سے لاتعلقی اور محبت کی کمی بھی ہے ، جن نوجوانوں کو اپنے گھر میں محبت نہیں ملتی وہ اسے دوسروں میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور ایسے میں وہ بہت سارے مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں،اور ایک دفعہ اس دلدل میں پھنسنے کے بعد واپس نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔والدین کو چاہئے کہ وہ اپنی اولاد کیلئے وقت نکالیں تاکہ نئی نسل کو ایسے خرافات سے بچایا جا سکے ،محبت ایک پاکیزہ رشتہ ہوتا ہے اس رشتے کی پاکیزگی پر اگر داغ لگ جائے تو اس کا مداوا ممکن نہیں ۔آج کے زمانے کی محبت کا کچھ ایسا حال ہیکہ۔۔۔

اس ڈر سے کہیں ہو نہ جائے پھر سے محبت 

ہم نے شب دیجور پہاڑوں پہ گزاری

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button