ایف ایم ٩٩ کے ساتھ ایک شام
تمام اسلامی مہینے مقدس و متبرک ہیں۔اسلامی مہنیوں میں ربیع الاول کو انتہائی اہمیت حاصل ہے، کیونکہ اس ماہ میں سرورکائنات حضرت محمدﷺ کی ولادت باسعادت بھی ہوئی ہے اور آپ ﷺ اسی مہینے میں ہی اللہ رب العزت کے پیارے ہوگئے ہیں۔اس میں دو رائے نہیں کہ آپ ﷺ کی ذات عالم انسانیت کے لیے مینارہِ نور ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تمام انسانیت بلکہ خَلقُ اللہ کے محسن ہیں۔یہ ایک بدیہی سچ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنی تعلیمات کے ذریعے دنیائے انسانیت کو امن کا گہوارہ بنایا۔مغرب کا تیار کردہ موجودہ انسانیت کا عالمی چارٹر تعلیمات نبوی اور اعمال نبوی کا چربہ ہے۔سچ یہ ہے کہ خطبہ حجۃ الوداع کی کاپی کی گئی ہے۔ اس آفاقی خطبے کومغرب نے اپنی مرضی سے اپنی خواہشات کے مطابق کچھ ترمیمات کرکے انسانی بنیادی حقوق کا چارٹر کے نام سے دنیا میں متعارف کروایا ہے۔
بارہ ربیع الاول دن ڈیڑھ بجے کا وقت تھا ، میں اپنے تدریسی مشاغل سے فارغ ہوکر گھر پہنچا تھا کہ برادرم عثمان کا فون آیا کہ ایف ایم 99کے کچھ دوست آج تین بجے سے پانچ بجے تک سیرت رسول ﷺ پر آن آئیر پروگرام کرنا چاہتے ہیں توآپ کی کیا رائے ہیں۔ چونکہ پروگرام بہت طویل تھا جس کے لیے باقاعدہ تیاری بالخصوص سکرپٹ کی تیاری ضروری تھی۔ تاہم میں نے انہیں بیس منٹ میں جواب دینے کو کہا ۔ اگلے بیس منٹ میں ، میں نے خود کو ذہناً تیار کیا اور انہیں ہاں میں جواب دیا۔ یوں ایف ایم 99کے برادر نوید (آرجے) مجھے لینے آئے اور ہم ڈھائی بجے جوٹیال میں واقعہ ایف ایم 99کے مرکزی آفس پہنچ گئے۔ہمیں کنٹرول روم میں بٹھادیا گیا۔اور برادر نوید کچھ ضروری ہدایات دے کر پروگرام کی تیاری میں مصروف ہونے لگے۔ میرے ساتھ مولانا ذاکراللہ عزیزی صاحب بھی تھا۔ یوں فیکس تین بجے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہماری گفتگو شروع ہوئی ،جو پانچ بج کر پانچ منٹ تک چلتی رہی۔ہم نے اپنی دانست کے مطابق سیرت پر کافی تفصیلی بات کی۔ مولانا ذاکراللہ عزیزی صاحب نے زیادہ بات کی ، انہوں نے شستہ اور موثرگفتگو کی۔ ان کا انداز مروجہ مبلغانہ تھا۔ یعنی اپنے ایک مخصوص انداز میں بات کو طول دینا اور گھمانا۔تاہم آئن لائن اور الیکٹرونک میڈیا کے تقاضے کچھ مختلف ہوتے ہیں۔
دو گھنٹوں کی طویل نشست میں سامعین نے کافی سوالات بھی پوچھے۔ہم نے اپنی علمی بساط کے مطابق جوابات دینے کی کوشش کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے کافی پہلو زیر بحث آئے۔ بالخصوص غیر مسلموں کے ساتھ تعلقات، مسلم ریاستوں میں ان کے حقوق وفرائض اور اسلامی نصاب میں ان کا تذکرہ،سیرت طیبہ اور قوانین عالم،گلگت بلتستان کے معاشرے کے بنیادی تقاضے اور قرآن وسیرت ﷺ کی روشنی میں ان کا حل، تعلیم و تربیت اور زندگی گزارنے کے دیگرطریقے سیرت نبی ﷺ کی روشنی میں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت وشفقت کے کافی قصے بھی موضوع بحث رہیں۔مجموعی طور پر اس نشست کو کافی سراہا گیا۔ دوران نشست ہی فیس بک اور فون کے ذریعے تہنیت کے کافی پیغامات موصول ہوئے اور کچھ اہم سوالات بھی پوچھے گئے۔سامعین کی طرف سے اس نشست کو ’’موسٹ انفارمیٹیو‘‘ قرار دی گئی ۔برادرم نوید(آرجے ایف ایم 99 ) بھی ٹھہر ٹھہر کر بہت اچھی گفتگو کرتے ہیں۔ انہوں نے کئی خوبصورت سوالات کیے۔پروگرام کے بعد کئی اہل علم نے اس کوشش کو تحسین کی نگاہ سے دیکھا اورآئندہ اس مساعی جمیلہ کو تیز کرنے کی حمایت بھی کی اور مخلصانہ مشوروں سے بھی نوازا۔مجھے پہلے سے ریڈیو پاکستان گلگت میں اس طرح کے پروگرامات میں حصہ لینے کا تجربہ رہاہے۔وہاں کے پروڈیوسرز بھائیوں کی توجہ پر کئی دفعہ علمی و ادبی نشستیں ان کے ساتھ ہوچکی ہیں اورمختلف موضوعات پر میری چند ایک ریکارڈنگ ریڈیو پاکستان میں محفوظ ہیں جنہیں وقتاً فوقتاً نشر کی جاتیں ہیں۔
اس تحریر کا اصل محرک ماہ ربیع الاول کے حوالے سے ہونے والی تقریبات اور پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کی نشریات ہیں۔ہم مسلمان دنیا میں عجیب قوم ہیں۔ہم بھی مغرب کی طرح اپنے محسنوں کو مخصوص ایام میں یاد کرتے ہیں۔ یہ رواج تو مغرب کا عطاء کردہ ہے۔وہاں نوجوان اپنے بوڑھے والدین کو سال میں ایک دفعہ ’’Happy Birth Day‘‘ کہنے کے لیے اولڈ ہاوسز جاتے ہیں۔ کسی کی یاد میں کسی خاص دن شمعیں جلاتے ہیں اور بس…..۔ ہم بھی اس نقالی میں ان سے آگے نکل چکے ہیں۔ ماہ محرم میں حضرت فاروق اعظمؓ اورنواسے رسول،جنت کے نواجوانوں کے سردار ، جگر گوشہ بتول اور میدان کرب وبلا میں دادِ شجاعت دینے والے حضرت حسینؓ کو یاد کرتے ہیں اور پھر سال بھر ان دونوں کی تعلیمات، ایثار وجذبہ اور آفاقی مشن بھول جاتے ہیں۔ پھر ربیع الاول میں ہم محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں محلے گلیاں سجاتے ہیں ، کھیر اور حلیم کی دگیں پکاتے ہیں۔ مساجد اور پبلک مقامات میں اجتماعات منقعد کرتے ہیں اور ساتھ ہی الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا بارہ ربیع الاول کو خصوصی نشریا ت کا اہتمام کرتی ہیں اور پھر پورے سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بھول جاتے ہیں اور ان کی جاندار تعلیمات کو بھی۔ کیا محمد ﷺ کا ہم پر صرف اتنا ہی حق ہے؟۔
میری ان تمام حضرات جو سیرت نبوی پر آنحضرت ﷺ کی شان و منقبت اور سیرت و صورت اور تعلیمات پر اجتماعات کا اہتمام کرتے ہیں اور ریڈیو اور ٹی وی میں محافل سجاتے ہیں سے گزارش ہے کہ وہ ان پروگراموں کو صرف اس ایک مہینہ اور ایک دن کے ساتھ مخصوص نہ کریں ۔ کیونکہ نبی ﷺ ساری زندگی ہمارے لیے نبیِ رحمت ہیں۔اس کے لیے باقاعدہ انتظامات ہونی چاہیے۔ ہنگامی بنیادوں پر کی جانے والی تقاریرسامعین کو کچھ بھی نہیں دے سکتی ،الٹا مقرر کی کمزور باتوں سے سامعین اکتا جاتے ہیں اور دین سے دور بھی ہوتے ہیں۔ اور ایک اہم بات یہ ہے کہ ان عوامی اجتماعات اور میڈیائی پروگراموں کو شرعی اور اسلامی بھی بنانے کی ضرورت ہے۔ سیرت کے پروگرام میں ڈھول ، ناچ، بنگڑا اور قوالیوں کا کیا تُک ہے۔ اور ہاں میڈیائی پروگراموں میں سیرت نبوی کے بیان کرنے کے دوران بیک گراؤنڈ میں میوزک کی کیا ضرورت ہے۔ میں اکثر ایسے پروگرامات دیکھ کر کڑھنے لگتا ہوں کہ ایک طرف سیرت بیان ہورہی ہے اور ساتھ ہی قوالی،بیک گراؤنڈ میں انڈین سُر اورلَے میں کئی مخصوص قسم کی سونڈ چلائے جاتے ہے۔ جو یقیناًخیر کے بجائے شر کا سبب ہیں۔ اس سے اجتناب بہت ضروری ہے۔اجتماعات اور میڈیائی پروگراموں کے ذمہ داروں سے گزارش ہے کہ وہ ان پروگراموں کو ہنگامی بنیادوں پر تربیت دینے کے بجائے باقاعدہ ہوم ورک کرکے انجام دیں۔ہفتہ قبل ہی وسیع المطالعہ، وسیع النظر،تجربہ کار،عربی وعلاقائی زبانوں پر دسترس اور بالخصوص قرآن و حدیث اور قدیم و جدید علوم سے واقفیت رکھنے والے علماء کرام، مفتیان عظام،شیوخ ، اسکالرز اور محققین سے رابطہ کریں اور انہیں کسی ایک خصوصی موضوع پر لب کشائی کرنے کی دعوت دیں تو یقیناًنتائج بہت ہی بہتر اور مثبت نکلیں گے۔ اور اکثر موضوعات پر جب تحقیقی گفتگو سامعین کے سامنے مختلف صورتوں میں آجائے گی تو انہیں عملی زندگی میں اپنانے کے لیے سہولت بھی ہوگی۔رٹی رٹائی باتوں پر اکتفا کرنا قطعا مفید نہیں اور نہ ہی قوم کو اس کی ضرورت ہے۔ایک اور اہم گزارش ایف ایم 99کے ذمہ داروں سے کرنی ہے۔ میں خود اس ایف ایم کا سامعی ہوں۔ایف ایم 99 کوگلگت بلتستان کے ہزاروں لوگ شوق سے سنتے ہیں۔ اس میں سال بھر انڈین اور دیگر سونگ(گانے) چلائے جاتے ہیں اور کبھی کبھبار کوئی دینی پروگرام بھی کیا جاتا ہے۔توکیا ایسا ممکن نہیں کہ ہفتہ میں تین پروگرام دینی ہوں۔ ایک سیرت نبی ﷺ کے مختلف پہلوں کے لیے مخصوص ہو اور دو پروگرام دیگر قرانیات و احادیث کے لیے ہوں۔ کیا ہفتے کے 168گھنٹوں میں صرف تین گھنٹے جناب محمد ﷺ اور اس کی تعلیمات کا حق نہیں ہے؟۔ یقیناًحق ہے اگر کسی کے دل میں محمدیت اور حسینیت کی تھوڑی سی رمق بھی موجو د ہے تو۔ ورنہ مسلمانی اور دینداری کی باتیں تو کوئی بھی کرتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ شاید یہی چھوٹا سا فیصلہ ایم ایف 99کے فیصلہ ساز لوگوں کی بخشش کا سبب بنے اور دو جہاں میں آقائے کل کی برکتوں سے کامیابیاں ملے۔آر جے نوید نے آخرمیں مجھ سے پوچھا کہ ایف ایم 99 میں آکر آپ کو کیسے لگا؟ تو میرا برجستہ جواب تھا کہ ’’ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ الحسنۃ، وجادلہم بالتی ھی احسن‘‘ اللہ کا فرمان ہے کہ دین کی باتیں حکمت ، موعظت اور خوبصورت دلائل کے ساتھ پیش کیا جائے، تو میں نے بھی یہاں آکر آج ہواؤں کے دوش، دین اسلام کی کافی باتیں ہزاروں لاکھوں میل دور بیٹھے لوگوں تک حکمت، بصیرت اور خوبصورت دلائل کے ساتھ پہنچایا ہے ۔ اس ابلاغ میں ایف ایم 99کا مرکزی کردار ہے تو مجھے یہاں آکر بہت اچھا لگا ہے۔اللہ قبول فرمائے۔
گلگت بلتستان کی حکومت، تمام تعلیمی اداروں اور مذہبی رہنماؤں سے ایک درمندانہ گزارش ہے کہ وہ گلگت بلتستان میں سیرت نبوی ﷺ پر بہترین کانفرنسوں کا اہتمام کریں۔پھر ان کانفرنسوں میں ارباب علم و دانش اور صاحبان فکر وبصیرت کو علمی و تحقیقی مقالے پیش کرنے کی دعوت دیں ۔ یہ کوئی نئی بات بھی۔ پاکستان کے دیگرصوبوں میں یہ طریقہ کافی عرصے سے مروج ہے جس کا علمی دنیا میں بہت اچھے نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ گلگت بلتستان میں اس کی ایک مثال اسماعیلی ریجنل کونسل کی طرف سے سیرت پر سالانہ کانفرنس کے انعقاد کی شکل میں موجود ہے۔ ان سے بھی معلومات لی جاسکتی ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسرے مسالک کے ذمہ دار بھی باقاعدہ پالیسی کے تحت سالانہ سیرت کانفرنسوں کے انعقاد کو یقینی بنائے۔ کم علم اور غیر مستعد لوگوں کے ذریعے ہنگامی طور پر منعقد ہونے والے اجتماعات ہرگز مفید نہیں ہوتے ۔ ایسے پروگرومات میں مقررین سیرت کے بیان سے زیادہ اپنی سیاسی گفتگوؤں سے فارمیلٹی پوری کرتے ہیں۔ان علمی کانفرنسوں کے ذریعے اسلامی تعلیمات نکھر کر سامنے آئیں گی اوراہل علم کو علمی مواقع بھی میسر آئیں گے اور انہیں دادِ تحقیق دینے کا موقع بھی ملے گا۔اور عوام کی کم علم، اُجڈ اور منافرت پھیلانے والے مذہبی نیتاؤں سے جان بھی چھٹے گی۔
خلاصہ کلام کہ ان علمی کانفرنسوں ،میڈیائی نشریات اور اجتماعات کے ذریعے سماجی انصاف اور بہترین قیام عدل پر مبنی ایک دیندار معاشرہ تشکیل پائے گا ۔فی الوقت جس کی سب سے اشد ضرورت ہے۔ اللہ کا ہی فرمان ہے’’وما کنا مہلک القرٰی الا واھلہا ظٰلمون‘‘(۴۵) یعنی:’’اور ہر گز نہیں غارت کرنے والے بستیوں کے مگر جبکہ وہاں کے لوگ گناہ گار ہوں.‘‘۔بنظر غائر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں تمام گناہ بدرجہ اتم موجود ہیں جو قہرالٰہی کا سبب بن سکتے ہیں۔ اعلیٰ اقدار کی ترویج اورعدل و انصاف کا قیام خواب بن کر رہ گیا گا۔قانونی اور معاشرتی مساوات کا جنازہ نکل گیا ہے ۔مذہبی آزادی کی جگہ مذہبی دل آزاری نے لے لی ہے۔ مال وجان ، عزت وآبرو اور بنیادی انسانی حقوق بری طرح پامال ہورہے ہیں۔شخصی آزادی ختم ہوکر رہ گئی ہے۔تعلیم و تعلم اور روشن خیالی و فکری کے دروازے بند ہوچکے ہیں۔اطاعت حکومت، قانون کی پابندی، آئین کی بالادستی، لااینڈآرڈر اور باہمی تعاون ایثار، اخلاقی صفات،رواداری،رفاہ عامہ اور ان جیسی بے شمار باتیں مفقو د ہیں۔معیشت کی گاڑی بیٹھ چکی ہے۔احتساب ،سزا و جزا کا تصور دور دور تک نظر نہیں آتا۔ چوروں کا راج ہے۔ اندیھر نگری ہے۔ڈاکوؤں کے موج ہیں۔لٹیرے مسلط ہیں۔حرام حلال کی تمیز ختم ہے۔غربت ،بیروزگاری،کرپشن،اقرباء پروری اور افراتفری شیش ناگ کی طرح پھن نکالے ڈسنے کو تیار بیٹھے ہیں۔نمود ونمائش عام ہے۔تجارتی اور معاشرتی اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا گیا ہے۔ذخیرہ اندوزی جڑیں پکڑ چکا ہے۔جوا بازی معمول کا حصہ ہیں۔سماجی، فلاحی اورمعاشی انصاف خواب بن کر رہ گیا ہے۔
ہم بار دگر عرض کرتے ہیں کہ خدائی احکامات اور سنت نبوی ﷺ کے مطابق جو نظام ہوگا، جو ریاست چلے گی اورجو حاکم اس کا عملی نمونہ بنے گا ،جو تاجر اس کی تعلیمات کے مطابق تجارت کرے گا اور جو تعلیمی نظام تعلیمات الہٰی و نبوی پر مشتمل ہوگا ،غر ض زندگی کے تمام پہیے دین اسلام کے مطابق چلنے لگیں گے تو اس ریاست و معاشرے میں زمین اپنے چھپے ہوئے قیمتی خزانے اُگل دے گی۔ ایسے معاشروں میں آسمان اپنی بے انتہا نعمتوں اور رحمتوں کی بارش کرنے لگتا ہے۔ افلاس و تنگی، ظلم وجبر،تشدد و دہشت اور انتہا پسندی اور دیگرسماجی و معاشرتی مکروہات ختم ہوکررہ جاتی ہیں۔اور ہر طرف امن و آمان، خوشحالی و خوش بالی اور سماجی انصاف قائم ہوجاتا ہے۔نعمتوں اور رحمتوں کا دورہ دور ہوتا ہے۔’’وما ارسلناک الا رحمۃ للعٰلمین‘‘ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔