چترال کا مثالی امن ثقافت کو زندہ رکھنے کی وجہ سے قائم ہے ۔ سکالرحاجی محمد ظفر
چترال(گل حماد فاروقی) چترال امن کا گہوارہ ہے اور اس کی مثالی امن پوری دنیا میں مشہور ہے جو یہاں کے محصوص ثقافت، طرز زندگی اور تمدن کی وجہ سے قائم ہے ۔ ان حیالات کا اظہار معروف سماجی کارکن اور روحانی سکالر حاجی محمد ظفر آف تریچ نے امن کے نام پر ایک ثقافتی شو کے موقع پر کی۔ چترال کے معروف فولک موسیقار منصور علی شباب اور انکے گروپ نے نئے سال کی آمد پر امن کے نام پر ایک ثقافتی شو کا اہتمام کیا۔
ثقافتی شو میں پہلے رباب اور ستار بجانے والا ایک گانے کا دھن پیش کرتا ہے اس کے ساتھ طبلہ نواز اور جیری کین جو ڈھولک کی جگہہ بجایا جاتا ہے اس کا ماہر بھی اسی گانے کو اپنے اوزار میں گنگناتا ہے۔ اس کے بعد (سنگر) موسیقار اسی گانے کو ترنم سے گاتا ہے۔
ثقافتی شو میں بچے، جوان، بوڑھے اور ہر عمر کے لوگ نہایت ادب سے بیٹھ کر موسیقی سنتے ہیں ۔ بیٹھنے والوں میں اگر کوئی روایتی رقص پیش کرتا ہے تو دیگر لوگ نہایت احترام کے ساتھ ا ن کے ہاتھ میں پیسے پکڑواتے ہیں جو ان کے ساتھ عقیدت اور محبت کی نشانی سمجھی جاتی ہے۔ وہ یہ پیسے لیکر ستار نواز، ڈھولک اور دیگر فنکارو ں پر نچھاور کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ یہ سب لوگ رضاکارانہ طورپر بغیر کسی تنخواہ اور بلا معاوضہ اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کو محظوظ کرتے ہیں۔جب رقص کرنے والا حرکت میں آتا ہے تو گانا گانے والا اور دیگر اوزار بجانے والے بھی موسیقی کو تیز کرتے ہیں جس سے رقص کرنے والا شحص جوش میں آکر خوب گرمی سے ناچتاہے۔
اس ثقافتی شو کے موقع پر حاجی محمد ظفر معروف روحانی اور دینی سکالر مہمان حصوصی تھے جنہوں نے چترال کے فن کاروں کو داد دی۔ انہوں نے کہا کہ کسی ایسے غلط کام جس سے دیگر انسانوں کو نقصان پہنچتا ہے اس سے پر امن طور پر فارغ اوقات میں بیٹھ کر موسیقی سننا اچھا ہے۔ انہوں معروف صوفی شاعر اور بزر شحصیت کے مالک رحمان با با کا حوالہ دیا کہ وہ فارغ اوقات میں ربابجاتے تھے اور ان کے ایک شعر کا حوالہ کیا کہ
ددے خوشے پوچ گوئے چہ زہ ئے اورم
پ نغہ پہ ترانہ د رباب حوح یم۔
رحمان بابا کہتے ہیں کہ فضو ل گفتگو اور غیبت کرنے سے میرے لئے رباب سننا اچھا ہے۔ فنکاروں نے اپنے حیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم دنیا بھر کو امن کا پیغا م دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے بزرگوں کا بھی مشکور ہیں جو ہمارا حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ منصور شباب نے کہا یہ ثقافت سینکڑوں سال پرانی ہے اور ابھی تک ہم نے اسے نہ صرف زندہ رکھا ہوا ہے بلکہ اسی حالت میں اسے محفوظ کیا ہوا ہے۔
ڈاکٹر محمد طیب نے کہا کہ میں پہلی بار چترال آیا ہوں اور یہاں کے ثقافت اور موسیقی سے نہ صرف محظوظ ہوا بلکہ متاثر ہوا اور ان لوگوں کو داد دیتا ہوں جو نہایت احترام کے ساتھ پر امن طریقے سے بیٹھ کر موسیقی سنتے ہیں۔
فنکاروں نے کھوار(چترالی زبان ) کے علاوہ اردو ا ور پشتو میں بھی نغمے پیش کئے۔ پروگرام ماسٹر امیر علی کے رہائش گاہ پر منعقد ہوا جس میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کرکے فنکاروں کو داد دی۔فنکاروں کا کہنا ہے کہ یہ پروگرام امن کے نام پر ہے اور ہماری دعا ہے کہ نیا سال امن اور خوشی سے گزرے۔انہون نے کہا کہ ہم نے اپنے فن کے ذریعے موسیقی کی آواز میں نئے سال کو خوش آمدید کہا۔