کالمز

شگری ،گیلانی فارمولہ اور مسئلہ کشمیر

گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی موجودہ آئینی صورتحال اور نئی پیش رفت پر بحث کرنے سے قبل مسئلہ کشمیر کی وجوہات اور تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالنا اشد ضروری ہے ۔تقسیم پاک و ہند ” قانون آزادی ہند” کی رو سے ہوئی، اس قانون میں ریاستوں کے بارے میں کہا گیا تھا کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق پاکستان یا بھارت سے الحاق کر سکیں گے ، قیام بھارت کے بعد بھارت نے اپنے علاقے میں موجود تمام ریاستوں پر قبضہ کر لیا ، ان دنوں کشمیر پر مہا راجا کی حکومت تھی ۔اس نے پاکستان کے ساتھ کشمیر کی صورت حال کو جوں کا توں رہنے کے اصول پر معاہدہ کر لیا اور پاکستان نے ریاست کی تمام ذمہ داریاں سنبھال لیں ، مہا راجا کشمیر نے درپر دہ بھارت سے الحاق کر لیا اور مشرقی پنجاب سے ہندووں اور سکھوں کے دستے طلب کئے جنہوں نے کشمیر میں مسلمانوں کا قتل عام کیا اکتوبر 1947 ء میں کشمیری مسلمانوں نے آزاد کشمیر کے نام سے اپنی الگ حکومت قائم کر لی اور راجا کی فوج کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا، راجا کشمیر نے کشمیر کو بھارت کے ساتھ شامل کرنے کی استدعا کی تو تو بھارت نے جھٹ اسے قبول کر لیا ، حکومت پاکستان نے اس نام نہاد الحاق کو غلط قرار دیتے ہوئے احتجاج بلند کیا ۔ کشمیریوں کی بغاوت سے بچنے کیلئے بھارت نے سلامتی کونسل میں شور مچایا کہ پاکستان مجاہدین کی پشت پناہی کر رہی ہے تاہم اس الزام کی پاکستان نے تردید کر دی ۔ سلامتی کونسل نے یکم جنوری 1948 ء کو جنگ بندی کی قرار داد منظور کر لی جس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ کشمیرمیں رائے شماری سلامتی کونسل کی نگرانی میں کرائی جائیگی ،اس کے بعد پاکستان اور بھارت نے ایک کمیشن مقرر کیا جس نے 7 جولائی 1949 ء کو ایک قرارداد تیار کی جس میں کہا گیا کہ کشمیر میں عارضی صلح کرا کے یہاں سے تمام بیرونی فوجوں کو نکال دیا جائے گا ، اور یہاں اقوام متحدہ کی نگرانی میں غیر جانبدار رائے شماری کرائی جائے، بھارت نے بظاہر قرار داد پر دستخط کر لئے لیکن عملی طور پر ایسا نہیں کیا ، مابعد دونوں ممالک کے مابین اس مسئلے کو لیکر کئی جنگیں بھی لڑی گئیں ، آزاد کشمیر کی آزادی کے بعد گلگت بلتستان کے عوام نے بھی ڈوگرہ فوج کو شکست دیکر پاکستان کے ساتھ الحاق کیا ، 66سالوں سے یہ دونوں علاقے پاکستان کی عمل داری میں ہیں ، لیکن اقوام متحدہ کی قرارداد اور استصواب رائے کے اختیار کی وجہ سے ان علاقوں کو آئینی حقوق نہ مل سکے ،تاہم ہر دور میں ان دونوں علاقوں کے عوام نے آئینی حقوق کے لئے جدوجہد جاری رکھی ہے، متنازعہ حیثیت کی وجہ سے ایسا کوئی بھی قانون نہیں بنایا جا سکتا جس کے تحت ان دونوں علاقوں کو صوبے کا درجہ دیا جا سکے ، تاہم ماہرین قانون نے آئینی حقوق کا حل تلاش کر لیا ہے ۔موجودہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت جس نے اپنے ماضی میں بھی کشمیر کے مسئلے پر اپنا ٹھوس موقف عالمی برادری کے سامنے رکھا ہے ان دنوں گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو آئینی حقوق دینے سے متعلق غور و فکر کر رہی ہے اور حالات و واقعات سے لگ یہی رہا ہیکہ شاید اب یہ مسئلہ حل کی طرف جا رہا ہے۔

گلگت بلتستان کی آئینی صورت حال پر بحث کوئی نئی بات نہیں ہے گزشتہ 66 سالوں سے اس علاقے کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی باتیں ہوتی رہیں ہیں ،ہمارے وزراء بھی آئے روز نت نئے اخباری بیانات کے ذریعے آئینی حقوق کی ڈیمانڈ کرتے نظر آتے ہیں ، اس سے قبل سنجیدہ اور عملی کوششیں کم ہوائی باتیں زیادہ سننے کو ملیں ہیں ۔گلگت بلتستان کے سیاسی مفکرین اور صحافی برادری نے آئینی حقوق کے حصول کیلئے ہمیشہ ایک ایسے فارمولے کی ڈیمانڈ کی ہے جس سے نہ تو کشمیر کاز کو نقصان پہنچے نہ ہی علاقے کے عوام آئینی حقوق سے محروم رہیں ، بلکہ گلگت بلتستان کی عوام کو حق خود ارادیت کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ میں نمائندگی پر زور دیا گیا ہے۔

گزشتہ ماہ اس حوالے سے ایک اہم پیش رفت سامنے آئی ، آزاد کشمیر کے سابق چیف جسٹس سید منظور حسین گیلانی ، سابق آئی جی پی گلگت بلتستان افضل شگری ،سابق وفاقی سیکریٹری شیخ محمد جنید،سابق سفیر آصف عزدی اورسابق پروفیسر ڈاکٹر اعجازحسین کی طرف سے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے آئینی حقو ق سے متعلق قانونی مسودہ وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ میں پیش ہو چکا ہے اور اس مسودے پر ابتدائی پیش رفت بھی شروع ہو گئی ہے، اور یہ مسودہ مزید غور و خوص کیلئے وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کو بجھوا دیا گیا ہے، تاہم دونوں علاقوں کے قانونی ماہرین، سیاسی مفکرین اور قومی اداروں کی رائے لینے کے بعد اس کو عملی جامہ پہنایا جائے گا، اس قانونی مسودے کے اطلاق سے یقیناًگلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی عوام کے آئینی حقوق کی راہ ہموار ہوگی، لیکن اکثریت اس مسودے کے حوالے سے اب بھی تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں ان کا موقف یہ ہیکہ اس طرح کے کسی بھی اقدام سے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئیے جس کے لئے ان علاقہ جات کے عوام نے 66 سالوں سے قربانیاں دی ہیں، تاہم وہ کشمیر کاز کو نقصان پہنچائے بغیر اس فارمولے پر عمل درآمد کے حامی ہیں ، اونٹ نے آخر کار کسی نہ کسی کروٹ ضرور بیٹھنا ہے ، جمہوری نظام کے ثمرات سے محروم پاکستان کے ان علاقہ جات کو اگر پارلیمنٹ میں نمائندگی مل جاتی ہے تو کسی حد تک لوگوں کی مایوسی کو کم کیا جا سکتا ہے۔

سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ آزاد کشمیر سید منظور حسین گیلانی نے ایک کشمیری اخبار کو حال ہی میں ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہیکہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت کو چھیڑے بغیر ان دونوں علاقو ں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی دی جا سکتی ہے، انہوں نے کہا کہ الگ صوبہ نہ تو آزاد کشمیر بن سکتا ہے نہ ہی گلگت بلتستان ، ان کے مطابق کونسل ایک غیر فعال ادارہ ہے اس لئے اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ انہوں نے تقسیم کار کا ذکر کرتے ہوئے قومی اسمبلی میں گلگت بلتستان کو 3 اور آزاد کشمیر کو 8 سیٹیں مختص کرنے کی تجویز پیش کی ہے تاہم سینٹ میں دونوں علاقوں کی پانچ پانچ نشستیں دینے کی تجویز پیش کی ہے۔آئینی امور کے ماہر جسٹس منظور گیلانی کا کہنا ہیکہ جب آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ” خصوصی حیثیت ” دے دی جائے تو ان دونوں علاقوں کے کونسل کو ختم کر کے ان کے دائرہ اختیار میں آنے والے ایسے اختیار جن کا تعلق وفاق سے ہے،حکومت کے حوالے کر دئیے جائیں گے،یعنی 18 ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کے جو اختیارات وفاق کے پاس ہیں،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے انہیں امور کے متعلق اختیار ات جو اس وقت کشمیر اور گلگت بلتستان کونسل کے پاس ہیں حکومت پاکستان کے حوالے کر دئیے جائنگے،اور جس نوعیت کے اختیارات اس وقت صوبوں کے پاس ہیں وہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کو واپس کر دئیے جائنگے، ان اقدامات سے دونوں علاقوں میں تیسرے درجے کا شہریہونے کا تاثر نہ صرف ختم ہو جائے گابلکہ دونوں علاقوں کو نمائندگی کیلئے بڑا فورم دستیاب ہوگا،۔انہوں نے اپنے انٹر ویو میں مزید کہا کہ ان علاقوں کو صوبہ نہیں بلکہ صوبائی طرز کے حقوق دئیے جا سکتے ہیں ، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق صوبہ بنانے پر پابندی ہے حقوق دینے پر نہیں ہے۔

گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی سابق وفاقی حکومت نے 2009 ء کے انتخابات گورننس آرڈر کے تحت منعقد کروائے،جس کے تحت پہلی دفعہ گلگت بلتستان میں گورنر اور وزیر اعلی کے عہدوں پر تعیناتی عمل میں لائی گئی تاہم اس صدارتی پیکیج سے گلگت بلتستان میں غیر ترقیاتی اخراجات 80 فیصد تک پہنچ گئے اور نئے ترقیاتی سکیمیں تو دور کی بات پرانی سکیموں کے بھی پیسے کم پڑ گئے ،جس کی وجہ سے گلگت بلتستان میں ایک طرف تو ترقی کا پہیہ جام ہوگیا دوسری طرف اس پیکیج کی خامیوں کی وجہ سے علاقے میں بد نظمی اور انظامی بحران پیدا ہو گیا، وزیر اعلی او روہ اسمبلی ممبران جو اس پیکیج کو گلگت بلتستان کے عوام کے دیرینہ مسئلے کا حل تصور کرتے تھے آج کل اس کی خامیاں اور کمزوریوں کا رونا رو رہے ہیں، خیر ایک بات تو طے ہے کہ کسی بھی اہم مقصد کو حاصل کرنے کیلئے کچھ نہ کچھ تبدیلی لازمی ہے ، لیکن ایسی تبدیلی جو قوم کو اندھیروں میں دھکیلے کسی صورت منظور نہیں ہے۔

حال ہی میں کشمیر اور گلگت بلتستان کے تھنک ٹینکس کی جانب سے پیش ہونے والے مسودے پر کاروائی سے ظاہر یہ ہوتا ہیکہ مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے آئینی حقوق کے مسئلے کو حل کرنے کی خواہاں ہے ،کئی عشرے گزرنے کے بعد ایسی آئینی تبدیلی یقیناًگلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی عوام کیلئے خوشگوار ہوگی ، تاہم دیکھنا یہ ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کی موجودہ حیثیت کو

چھیڑے بغیر کس طرح پارلیمنٹ اور سینٹ میں نمائندگی حاصل ہوتی ہے، اگر اس مسودے پر واقعی عمل ہوتا ہے تو آئین پاکستان میں لازما ترمیم لائی جائے گی اور ان علاقہ جات کو سپیشل ٹیریٹری قرار دے کر نمائندگی دی جا سکتی ہے، حکومت اور طالبان مزاکرات کی وجہ سے مذکورہ مسودے پر کام سرد پڑ گیا ہے ، اور وزارت امور کشمیر و گلگت بلتستان کی اطلاعات کے مطابق فی الحال مسودے پر کام رکا ہوا ہے، یہ قوی امکان ہے کہ گلگت بلتستان میں 2014 میں ہونے والے انتخابات سے پہلے یا فورا بعد کسی ایک فارمو لے پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے گا، ایسی صورت میں اسمبلی اور سینٹ میں نمائندگی کیلئے جنرل الیکشن کے بجائے کونسل ممبران کے چناو کے طریقہ کار کے ذریعے اسمبلی اور سینٹ کیلئے صوبائی اسمبلی سے نمائندے چنے جائنگے، لیکن موجودہ صورت حال کو جوں کا توں رہنے دیا جائیگا۔اس مسودے پر ایک اندازے کے مطابق سبھی سیاسی پارٹیاں متفق نظر آتی ہیں ،اخباری بیانات کو اگر دیکھا جائے تو سب کا جھکاو بھی اسی طرف نظر آتا ہے۔

آئینی و قانونی ماہرین کے علاوہ سیاسی سمجھ رکھنے والے افراد اس مسودے کو بھی مشکوک نظروں سے دیکھنے پر مجبور ہیں کیونکہ اس مسودے کو پیش کرنے والوں میں سے کچھ کرداروں پر غیر ملکی ایجنٹ ہونے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں ،خیر انہوں نے اس بات کی اپنی جگہ تردید بھی کر دی ہے ۔بحر حال یہ ایک انتہائی حساس مسئلہ ہے اور اس مسئلے کے حل کیلئے پاکستان نے بہت قربانیاں دی ہیں ، ایسے میں اگر کسی کے دل میں بھی بد نیتی پیدا ہو جائے ، اس بہانے موجودہ حیثیت کو چھیڑا گیا اور عوام کو حق خودارادیت سے محروم کیا گیا تو یہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے موقف کی نہ صرف ہار ہوگی بلکہ دونوں علاقوں کے عوام کی 66 سالہ قربانیوں کا بھی کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button