کالمز

گندم کے دانے کا کمال

قوموں کی زندگی میں بکھرنے اور یکجا ہونے کیلئے کوئی ایک بہانہ چاہئے ہوتا ہے گلگت بلتستان کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس قوم کو آذادی کے بعد تقسیم کرنے کیلئے تو ہر قسم حربے استعمال کئے لیکن بکھری قوم کو یکجا کرنے کے حوالے سے کوئی سیاسی مذہبی اور معاشرتی حوالے سے حکمت عملی نہیں بنایا جا سکا ۔یہاں کے عوام گزشتہ دہائیوں سے دوسروں کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہے جس کے سبب اس قوم میں دوریاں بڑتی گئی یہاں مذہبی منافرت پھیلانے کے کیلئے دشمنوں کی طرف سے ہر قسم کے ہتکنڈے استعمال ہوئے کیونکہ اس قوم کی اتحاد میں بہت سے عناصر کو نقصان پونچنے کا خدشہ خارج از امکان نہیں۔

my Logoیہاں کی تاریخ مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان میں مذہبی منافرت پھیلانے کے حوالے سے سب سے پہلی حکمت عملی جنرل ضیاء کے دور میں تیار کی گئی جس میں یہاں بسنے والے ایک اکثریتی طبقے کو دیوار سے لگانے کیلئے ایک منظم سازش کی گئی جس کیلئے بدقسمتی سے کچھ مقامی لوگ استعمال ہوئے اور کچھ باہر سے بُلائے گئے جو کہ گلگت بلتستان کی تاریخ کا ایک سیاہ باب تھا جسکا تسلسل گزرتے وقت کے ساتھ جاری رہی لیکن کسی بھی سیاسی اور مذہبی جماعت کی طرف سے اس آگ کو بجھانے کیلئے ملکی سطح کوشش نہیں کی گئی گلگت بلتستان کو پاکستان کا نظریاتی سرحد سے تشبیہ دینے کے بڑے نعرے لگے لیکن انہی عناصر کی منافقانہ پالیسیوں کے سبب یہاں کے عوام میں دوریاں کم ہونے کے بجائے بڑھتے چلے گئے کبھی تو ایسا لگتا تھا کہ یہ قوم کبھی قومی مسلے پر بھی اکھٹا نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ اس معاشرے میں منافرت کی تعلیم کو دین سمجھ کر پڑھایا جاتا رہا ۔ اس طرح کی صورت کو ختم کرنے کیلئے یہاں کے اہل قلم حضرات اورپرنٹ میڈیا بھی ایک مثبت کردار ادا کر رہے ہیں لیکن لگتا ہے کہ سرکار کی خواہش ہے کہ یہ قوم مسلکی اختلاف پر دست گریباں رہے تاکہ اصل مسلے تک نہیں پونچ سکے یہی وجہ ہے تمام تر کوششوں کے باوجود اس قوم کو یکجا کرنے کے حوالے پھر بھی پیش رفت نظر نہیں آرہا تھا ۔ جب کبھی کوئی غیر مقامی مولوی سر راہ کفر کا فتوی لگاتا تھا اور سامعین نعرہ تکبیر کی صداوں میں فلاں کافر کا جواب دیتا تو یقین کریں دل خون کے آنسو روتا تھا کہ خدایا یہ قوم کب تک دوسروں کی کٹ پتلی بنا رہے گا ۔راقم سمیت گلگت بلتستان کے کئی کلام نوسیوں بالخصوص دیامر کے اہل قلم حضرات نے اس حوالے سے آواز بلند کرنے کی کوشش کرتے ہوئے کئی مضامین لکھے لیکن نہیں معلوم ہوتا تھا کہ ہمارے معاشرے کوئی صاحب فہم بھی بستے ہیں مگر آج غیر یقینی طور پر گندم کے ایک دانے نے اس قوم کو یکجا کیا تو یقین کریں مجھ سمیت بہت سے اہل قلم دوستوں نے سجدہ شکر ادا کرتے ہوئے دعا کیا خدایا اس گندم کو 100روپیہ اور مہنگا کردے تاکہ یہ قوم اس بہانے سے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اس کے خلاف ایک ہو کر شیر شکر ہوجائے جس قوم میں عوام سمیت علماء اور مفکرین کسی کی جان بچانے کیلئے ایک نہیں ہو سکے تھے وہاں گندم کے اس دانے نے تمام مسلکی اختلاف کو بُلا کر ایک پلیٹ پر جمع کر دئے ۔یوں ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو کام خطے کی اکابرین نہیں کر سکے گندم کی اس سبسڈی کے مسلے نے کر دیا جس کیلئے اگر ہم ایک لمحے کیلئے اس مسلے کو پیدا کرنے والوں کا شکریہ ادا کریں تو بُرا نہیں ہوگا کیونکہ اس مسلے نے قوم کو سوچنے پر مجبور کیا کہ آپس کے اختلافات ہمارے مسائل کا حل نہیں بلکہ آپس کی بھائی چارگی ہماری اصل ضرورت ہے۔یہاں یہ بات کرتا چلوں ان باتوں کی ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس قوم کو اپنے مسائل کو سمجھ کر مزید متحدہونے کی ضرورت ہے کیونکہ آج تک ہمارے اندر کی ناچاقیوں سے فائدہ اُٹھا کر اس طرح کے مسائل میں الجھا رکھا لیکن چلیں یہ بھی قومی تاریخ میں ایک سبق سمجھا جائے اور ایسی غلطیوں سے یقیناًہمارے عمائدین سبق سیکھتے ہوئے اس قوم کو تمام تر مسلکی علاقائی اختلاف کو بھلا کر قومی حقوق کیلئے ایک زبان ہو کر کہیں گے کہ ہم گلگت بلتستان ہے ، ہم غازی ہیں اور ہم اُن شہیدوں کے وارث ہے جنکی عظیم قربانیوں کی بدولت گلگت بلتستان معرض وجود میں آیا ۔

ہماری اصل ضرورت خطے کی آئینی حیثیت کا تعین ہے لہذا اس مسلے کی حل تک ہمیں جد جہد کرتے ہوئے باہمی اخوت اور معاشرتی رواداری کو جاری رکھتے ہوئے منزل کی طرف سفر کرنا ہے ۔ بہتر مسقبل کی اس سفر میں ہمیں ہماری ضروریات کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے اس خطے کے حوالے سے بین الاقوامی قوانین کے مطابق ان تمام اشیاء پر سبسڈی دلانے دینے کیلئے مطالبات کرنے ہونگے کیونکہ یہ اس خطے کا قانونی حق ہے۔ اس خطے کو جس طرح آئینی حقوق سے محروم رکھاہوا ہے بلکل اسی طرح ضروریات زندگی کی ترسیل کیحوالے سے بین الاقوامی قوانین کی پاسداری نہیں ہو رہی ہے۔ لہذا اس طرح کے مسائل کی مستقل حل کیلئے امید کرتے ہیں کہ گندم کی اس دانے نے جس طرح بکھری قوم کو اکھٹا کرکے تمام مسالک کے علماء کرام اپنے علاقوں میں دوسرے مسالک کے علماء کو دعوت دینے کا ایک مثبت روئے کی ابتداء ہوئی مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔یہاں ایک اور اہم بات بھی اس حوالے کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اس حوالے ابتدائی پیش رفت کرنے کیلئے کچھ قوم پرست رہنماوں اور کچھ علاقائی عمائدین نے اہم کردار ادا کیا ہے لہذا انکی اس قومی یکجہتی کے لئے کی جانے والی کوشش کو بھی سرہانا چاہئے ۔آخر میں دعا کرتے ہیں کہ یہ سلسلہ جاری رہے اور ایک دوسرے کی گھر میں آمد رفت کا سلسلہ دیامر، داریل تانگیر سے شروع ہوکر ہنزہ ،نگر استور غذر سے ہوتا ہوا گلتری ،اولڈینگ کے سرحدوں تک پہنچ جائے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button