کالمز

اسلام دین امن ہے

( یہ مقالہ ریڈیو پاکستان گلگت میں’’ اسلام دین امن ہے ‘‘ کے عنوان سے منعقدہ سیمنار میں پڑھ کر سنایا گیا۔ جو ریڈیو پاکستان اسلام آباد سے قومی نشریاتی رابطہ کے ذریعے نشر کیا گیا) 

haqqani-logo-and-pictureیہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اسلام دین امن ہے۔اسلام کا اولین سنہری دور کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلام نے معاشرتی امن اور سماجی انصاف کے لیے جتنی فکری اور عملی کوششیں کی ہیں اس نظیر کہیں نہیں ملتی ہے۔اسلام کبھی بھی فکری طور پر مفلوج اور مبہم نہیں رہا ہے۔ اسلام کا پیغام کسی مخصوص علاقہ ، نسل یا زبان اور مسلک و مذہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے خاص نہیں ہے بلکہ تمام انسانیت کے لیے عام پیغام ہے اور اہل کتاب کے لیے تو خصوصیت کے ساتھ قرآن و حدیث میں احکامات صادر ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشا د ہے کہ’’ قل یا اہل الکتاب تعالوا الی کلمۃ سواء بیننا و بینکم، الا نعبد الا اللہ و لانشرک بہ شیئا‘‘اس ایت کی روشنی میں ہمیں یہ پیغام واضح طو ر پر ملتا ہے کہ قرآن نے اہل کتاب کو توحید کی دعوت دی ہے اور شرک سے بچنے کی تلقین بھی کی ہے۔ یہ دونوں موضوعات اہل کتاب اور اسلام کے مابین مشترک ہیں ، تاہم بعدمیں ان کے مذہبی پیشواؤں نے اس آفاقی پیغام میں تحریف کی ہے۔ قرآن نے اس مشترک پہلو کی طرف بے حد خوبصورت پیرائے میں دعوت دی ہے۔ اور اسلام نے اسلامی مملکت و ریاست کے اندر بھی اہل کتاب اور دیگر غیر مسلم کی حفاظت کا صرف حکم نہیں دیا بلکہ حفاظت کی ذمہ داری بھی اٹھائی ہے،میثاق مدینہ،بہترین حکمرانی اور سماجی انصاف کے لیے یاد گاہ معاہدہ ہے ،مدینہ منورہ میں پہنچ کرآنحضرت ﷺنے سماجی انصاف اور معاشر ے میں قیام امن کے لیے جملہ اقوام سے ایک عمرانی معاہدہ بین الاقوامی اصول پر کیا تاکہ معاشرتی اور مذہبی اختلافات اور تنازعات میں قومی وحدت قائم رہے۔اور سماجی انصاف کا قیام ہوسکے۔ اس معاہدہ میں مختلف مسالک، مذاہب زبان و نسل اور علاقہ کے لوگوں کے درمیان قیام امن اور آشتی کے ساتھ رہنے کے لیے بہترین رہنمائی ملتی ہے۔اس معاہدے کے جستہ جستہ فقرے یہ ہیں۔.قاضی سلیمان منصور پوری،اپنی مشہور کتاب ’’رحمۃ اللعالمین‘ ‘ میں لکھتے ہیں کہ:

۱…انہم امۃ واحدۃ…………یہ سب لوگ ایک ہی قوم سمجھے جائیں گے۔

۲… وان بینہم النصح و النصیحۃ والبر دون الاثم…….معاہد ہ اقوم کے باہمی تعلقات، باہمی خیرخواہی، خیراندیشی اور فائدہ رسانی کے لیے ہونگے ضرر اور گناہ کے نہ ہونگے۔

۳…وأن النصر للمظلوم…… مظلوم کی مدد ونصرت کی جائے گی۔

۴۔وان یثرب حرام جرفہا لاہل ہذہ النصیحۃ..مدینے کے اندر کشت و خون کرنا اس معاہدے کرنے والے سب قوموں پر حرام ہے۔(ص ۹۱،۹۲،ج نمبر اول)

موجودہ دور میں گڈ گورننس (Good governance)کی اصطلاح چلی ہے۔گڈ گورننس اور اچھی طرز حکمرانی کی بے شمار مثالیں اسلامی تاریخ کے صفحات سے بھری پڑی ہیں۔ ہم ایک مثال عرض کیے دیتے ہیں۔علامہ کوثرنیازی صاحب لکھتے ہیں:

’’امیرالمؤمنین حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ گشت کررہے تھے کہ انہوں نے ایک غیر مسلم کو دیکھاجو بھیک مانگ رہا تھا۔ آپؓ نے اس سے پوچھا، تم بھیک کیوں مانگ رہے ہو؟ اس نے جواب دیا کہ اب میں کمانے کی سکت نہیں رکھتا، امیرالمؤمنین نے یہ سن کرفرمانے لگے کہ’’ افسوس ہے عمرؓ پر جس سے اس کی جوانی کے زمانے میں جزیہ تو لیا لیکن بوڑھا ہوگیا تو اس سے اپنے حال پر چھوڑ دیا‘‘ حکم دیا کہ اس کا وظیفہ بیت المال سے مقرر کیا جائے( کتاب: اسلام ہمارا رہنما ہے، ص،۹۳)۔

اس واقعہ سے ہم آسانی کے ساتھ یہ نتیجہ اخذ کرسکتے ہیں کہ مسلمان حکومت غیر مسلموں کے ساتھ جس رواداری اور سماجی انصاف دینے کے فراخدالانہ مظاہرہ کررہی ہے دنیا کا کوئی دوسرا نظام حکومت اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

مسلم ریاست میں غیر مسلموں کے حقوق بھی بہت ہی واضح طور پر موجود ہیں۔ سماجی انصاف مہیا کرنے میں مسلم ریاست اور مسلمان حکومت و حکمرانوں کے نزدیک مسلم اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں، اگر ایک مسلمان کسی ذمی(غیر مسلم ) کو قتل کرڈالے تو فقہ حنفی کے رو سے اس مسلمان کو قصاص میں قتل کردیا جائے گا۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہوگا کہ قاتل مسلم ہے اور مقتول غیر مسلم ہے کہہ کر کوئی ناانصافی کی جائے یا امتیاز روا رکھا جائے۔آنحضرت ﷺ نے فرمایا’’ من قتل معاھداً لم یرح رائحۃ الجنۃ‘‘(. محمد بن اسماعیل البخاری، الصحیح البخاری، کتاب الجہاد، باب اثم بن قتل معاہداًبغیر جرم: جلد اول، ص ۴۴۸، ا) یعنی: ’’ ذمی کو قتل کرنے والا مسلم کبھی جنت کی خوشبو نہیں سونگھے گا‘‘۔ جان بہت عزیزچیز ہے ۔اسلام نے تو غیر مسلموں کی شراب، صلیب اور سور(خنزیر) کے گوشت تک کو نقصان نہ پہنچانے کا حکم دیا ہے۔فتاویٰ عالمگیری اور بدائع الصنائع فی الترتیب الشرائع میں مذکور ہے کہ’’ولو اتلف مسلم أو ذمی علی ذمی خمراً اور خنزیراًً یضمن‘‘ اگر کوئی مسلمان کسی ذمی(غیر مسلم) کی شراب ضائع کریں یا کسی عیسائی کی صلیب توڑ دیں تو بطور جرمانہ اس سے شراب اور صلیب کی قیمت ادا کرنی ہوگی۔( جلد ۷،ص ۱۶۷)۔

معاہدہ بیت المقدس‘ذمی رعایا کے حقوق کی ایک مقدس دستاویز ہے۔ حضرت عمرؓ نے بیت المقدس کے فتح کرنے کے بعد وہاں کے شہریوں سے ایک معاہدہ کیا۔ذمیوں کو جو سماجی حقوق حضرت عمرؓ نے عطا کیے وہ اس زمانے کی غیرمسلم سلطنتیں غیر قوموں کے لیے سوچنا بھی ناگوار کرتیں تھی۔بیت المقد س کا معاہدہ خود حضرت عمرؓ کے الفاظ میں ترتیب دیا گیا،اس کے چند جملے یہاں درج کیے جاتے ہیں۔شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی نے الفاروق(سوانح عمری حضرت عمرفاروقؓ) میں لکھا ہے 

’’ہذا مااعطی عبداللہ عمر امیر المؤمنین اھل ایلیا من الامان اعطاھم امانا لِأنفسہم واموالہم وکنا یسہم وصلبانہم وسقیمہا وبریھا و سایرملتہا انہ لایسکن کنایسہم ولاتہدم ولا ینتقض منہا ولا من خیرھا ولامن صلبہم

ولامن شئی من اموالہم ولایکرھون علی دینہم ولا یضار احدہم‘‘یعنی:’’یہ وہ امان ہے جواللہ کے غلام امیر المؤمنین عمر نے ایلیا کے لوگوں کو دی‘ یہ امان ان کی جان ومال‘ گرجا‘ صلیب‘تندرست‘بیمار اوران کے تمام مذہب والوں کے لیے ہے اس طرح کہ ان کے گرجاؤں میں نہ سکونت کی جائے گی ‘ نہ ڈھائے جائیں گے‘ نہ ان کو یا نہ ان کے احاطے کو کچھ نقصان پہنچایا جائے گا۔نہ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی کی جائے گی۔ مذہب کے بارے میں ان پرجبر نہ کیا جائے گا اور نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا‘‘۔(ص۲۵۸)

غیرمسلم رعایا کے شرائط کو پورا کرنے کا حکم بھی اسلامی احکام میں واضح طور پر ملتا ہے۔شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی نے الفاروق میں لکھا ہے کہ’’ حضرت عمرؓ نے شام کی فتح کے بعد حضرت ابوعبیدہؓ کو غیرمسلم رعایا کے حوالے سے جو خصوصی حکم جاری کیا اس میں یہ یادگار اور بے مثا ل الفاظ مرقوم تھے’’وامنع المسلمین من ظلمہم والاضراربہم واکل اموالہم الا بحلہا ‘ ووفّ لہم بشرطہم الذی شرطت لہم فی جمیع مااعطیتہم‘‘یعنی’’مسلمانوں کو منع کرنا کہ ذمیوں پر ظلم نہ کرنے پائیں‘ نہ ان کو نقصان پہنچائے‘ نہ انکے مال بے وجہ کھانے پائیں اور جس قدر شرطیں تم نے ان سے کی ہیں سب وفا کرو‘‘۔(ص۲۶۱)

اسلام سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی انسا ن نہ سفاک ہوسکتا ہے نہ دہشت گرد اور نہ ہی درندہ صفت، اور نہ ہی بے گناہ انسانوں کے قتل عام سے اسے کوئی ذہبی و قلبی راحت مل سکتی ہے۔ اسلا م جس طرح غیر مسلموں کے ساتھ امن و معاشرتی رواداری کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے اسی طرح اسلام آپس میں بھی اتفاق او اتحاد اور امن وآشتی کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ 

سورۃ النساء آیت نمبر ۹۳ میں خدائے ذوالجلال کا واضح ارشاد ہے :[ومن یقتل مؤمنا متعمداََ فجزاہ جھنم خالداََ فیھا و غضب اللہ علیہ و لعنہ اعدلہ عذابا عظیما] جو مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو عمداََ یعنی قصدا جان بوجھ کر قتل کر ڈالے تو اس کی سزا ہمیشہ دوزخ میں رہنا ہے‘ اللہ رب العزت کا غضب ہے‘ اس کی لعنت اور پھٹکارہے‘ اور ایسے لوگو ں کے لئے بڑا دردناک والمناک عذاب تیار ہو چکا ہے۔

امام بخار ی ؒ نے اپنی کتاب صحیح بخاری میں ایک حدیث نقل کی ہیں جو حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے: [ لایشیر احدکم علی اخیہ بالسلاح فانہ لایدری لعل الشیطان ینزع مافی یدہ ‘ وفی روایۃ ینزع بالعین فیقع فی حفرۃ من النار] یعنی فرمایا کہ کبھی بھی اپنے مسلمان بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کیا کرو‘ ممکن ہے کہ ہتھیار میں جو کچھ ہے وہ لگ جائے تو تم جہنم کے گڑھے میں گر پڑو یعنی آپ کے اشارہ کرنے سے تلوار چل گئی اور مسلمان کا خون ناحق ہوگیا تو ایک ایسے فعل کا ارتکاب ہو جائیگا جس کے پاداش عذاب جہنم ہے۔

قارئین کرام! آپ نے آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ ملاحظہ کیا کہ اللہ تعالی ٰ نے قتل مسلم کو کتنا بڑا جرم قرار دیا ہے اور اس آدمی کا انجام جہنم بتایا ہے اور اس پر لعنت و پھٹکار کی ہے اور آپ ﷺ نے بھی واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ مسلم کا خون کتنا قیمتی ہے ۔ حدیث مذکورہ سے تو واضح ہو جاتا ہے کہ از روئے مزاق اور دل لگی کے لئے بھی کسی مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ اٹھانا یا اس کو ڈرانے کے لئے کسی بھی قسم کا ہتھیار کا ر خ اس کی جانب کرنا یا اشارہ کرنا شرعاََ جائز نہیں ہے۔ ذرا ہمیں اپنی حالت زار کا جائزہ لینا چاہیے کہ ہم نے خون مسلم کو کتنا ارزاں سمجھا ہوا ہے۔

ایک اورحدیث حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے مرفوعاََ مروی ہے: [ زوال الدنیا کلھا اھون علی اللہ عن قتل رجل مسلم‘] اسی روایت کی تخریج امام نسائی نے ان الفاظ میں کی ہے [ قتل المؤمن اعظم عنداللہ من زوال الدنیا] یعنی آقائے نامدار نبی رحمت سرور کائنات ﷺ نے فرمایا ہے کہ’’ اللہ کے نظروں میں تمام دنیا کے زائل یعنی نیست و نابود ہوجانے نے بھی بڑھ کر جو چیز ہے و ہ ایک مؤمن مسلمان کا قتل ہے۔قارئین دل کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں قتل مسلم مزاق بن چکا ہے ، خدا تعالی ٰ کے ارشادات اور نبی کریم ؐ کے فرمودات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ ایک مسلمان کے لئے شرک کے بعد اس سے بڑھ کر کوئی اور کفر نہیں ہوسکتا کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کے خون ناحق سے اپنے ہاتھ رنگین کرے۔روشنیوں کا شہر کراچی غریبوں کے خون سے سرخ ہوگیا ہے۔کراچی ایک شہر ہے جہاں پورے ملک کے باسی رہتے ہیں۔پورے ملک کے ہر علاقے کے نام سے کراچی میں کالونیاں بنی ہوئی ہیں مثلاََ گلگت کالونی، کشمیر کالونی‘ پنجاب کالونی‘ مانسہرہ کالونی‘بلوچ کالونی‘غرض ہر صوبے کے مختلف علاقوں کے ناموں والی کالونیاں کراچی میں ہیں اور وہاں اس علاقے کے لوگ فروکش ہیں مگرلسانیت، علاقائیت پر روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں بے گناہ لوگوں کو بے دردی سے قتل کیا جاتا ہے۔ نہ قاتل کو معلوم نہ مقتو ل کو۔ بلوچستان تو مشرفی آمریت کے دور سے مسلسل جل رہا ہے اور جلانے کے لئے ایندھن مہیا کرنے والے کوئی بھی ہوں مگرماچس کی تلی سے آگ بھڑکانے والے اپنے مسلمان بھائی ہیں۔ گلگت بلتستان بھی کھبی امن کا گہوارہ ہوا کرتا تھا۔ سالوں میں کوئی قتل ہوتا تھا، اگر کوئی ذاتی دشمنی میں قتل ہوتا تو قاتل کبھی بھی اپنے آپ کو چھپاتا نہیں تھا بلکہ وہ فخریہ اعلان کرتا کہ جی ہاں! میں نے قتل کردیا ہے۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا تھا کہ دوسرے لوگ اذیت اور خوف و ہراس سے بچ جاتے تھے۔مگر چند سالوں سے یہ پرامن علاقہ بے گناہ مسلمانوں کے خون سے بھر چکا ہے، خون آشامی کا یہ سلسلہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔خونیں ورادتیں روز کا معمول بن چکیں ہیں۔گلگت میں بھی قتل و خون کی ہولی کھیلنے کے لئے پلان جوبھی تیار کرتا ہو اور اس کے لئے فنڈنگ کوئی بھی کرتا ہو مگر ایک دوسروں کے گلے کاٹنے کی ’’ خدمت عالیہ‘‘ مقامی لوگ ہی انجام دیتے ہیں۔ پتنگ کی ڈوری جہاں کہیں سے بھی ہلائی جائے مگر پتنگ گلگت سے ہی اُڑے گا اور گلگت کا ہی پتنگ کٹے گا‘ اور کٹ کر کرچی کرچی ہوکر ہواؤں کے دوش بکھر جائے گا۔

سیرت نبویؐ اور احادیث نبویؐ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ قتل مسلم سے بڑھ کر کون سا فعل ہے جو خدا کے عرش جلال وغیرت کو ہلا دے اور اس کی لعنتیں بارش کی طرح آسمانوں سے نہ برسے‘ جس مؤمن کا وجود اللہ کو اس قدر محبوب و محترم ہواور لائق و فائق ہوکہ تمام دنیا کا زوال اس کی ہلاکت کے مقابلے میں ہیچ بتلائے‘ اسی کا خون خود ایک مسلمان کے ہاتھوں سے ہو ‘ اس سے بڑھ کر شریعت الہی کی کیا توہین ہوسکتی ہے؟ جس بدبخت انسان کا احساس ایمانی یہاں تک مسخ ہو جائے کہ باوجود دعوائے مسلم ومؤمن کے مسلمانوں کا خون سے اپنے ہاتھ رنگین کرے بلکہ اس کو کار خیر بھی سمجھے‘ تو یاد رہے کہ وہ یقیناًمسلمانوں کا خون نہیں بہاتا بلکہ وہ توپروردگار عالم کے کلمہ توحید کو ذلیل و خوار کرتا ہے اور شانِ کبریائی کو بٹہ لگانا چاہتا ہے۔سَو‘ ایسوں کو [ ان عذابی لشدید] کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ وماعلینا الا البلاغ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button