کالمز

برچہ صاحب کی الوداعی تقریب کے لیے

(یہ مقالہ حلقہ ارباب ذوق گلگت کی طرف جناب شیر باز علی برچہ کی بڈلف لائیبریری سے ریٹائرمنٹ کے حوالے سے منعقدہ تقریب بمقام پیلس ہوٹل گلگت میں پڑھ کر سنایا گیا)

میں حلقہ ارباب ذوق گلگت کا خصوصی مشکور ہوں کہ انہوں نے گلگت بلتستان کے عظیم دانشور جناب شیر باز علی برچہ صاحب کی ریٹائرمنٹ پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے اور ان کی خدمات کا اعتراف کرنے کے لیے یہ خوبصورت محفل سجائی۔ اور ساتھ ساتھ اس بات کا بھی مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھ جیسے طالب علم کو جناب برچہ صاحب کی عقیدت میں محبت کے پھول نچھاور کرنے کا موقع دیا۔اس محفل میں بڑے بڑے علمی لوگ تشریف فرما ہیں۔ ان کی علمی و ادبی خدمات روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ پروفیسر عثمان علی جیسے لوگوں کی موجودگی میں مجھ جیسے بے مایہ طالب علموں کا کچھ کہنا کیا وقعت رکھتا ہے۔آج برچہ صاحب اپنی پروفیشنل زندگی کو خیر باد کہہ گئے۔ وہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں ایک کامیاب لائیبریرین کے نام سے اَمر ہوچکے ہیں۔

haqqani-logo-and-pictureجناب شیر باز علی برچہ صاحب میرے دوست ہیں۔برچہ صاحب صرف میرے دوست نہیں بلکہ ہر کتاب دوست انسان کے دوست ہیں ۔ اس کا ثبوت آج کی یہ محفل دے رہی ہے۔ ہاں! آپ یہ نہ سمجھے کہ بزرگ اور جوان کی دوستی کیونکر ممکن ہوسکتی ہے تو اصل راز کی بات ہے کہ برچہ صاحب مجھے اپنے دوست سمجھتے ہیں۔میں تو ان کو گلگت بلتستان کے معدوے سنجیدہ اورمعتدل لوگوں میں سے ایک فرد خیال کرتاہوں اور سنجیدگی میرے قریب سے بھی چُھو کرنہیں گزرتی تو بے ہودگی اور سنجیدگی کا کیا اتصال و اقتران؟۔اگر دنیا میں برے اور بے ہودہ لوگ نہ ہوتے تو صرف اچھے اور سنجیدہ لوگوں کی قدر ومنزلت کون کیوں کر جانتا اور کرتا۔دنیا کے تمام اچھے لوگوں کو برے لوگوں کا شکریہ اداکرنا چاہیے۔اگر برے لوگ نہ ہوتے تو اچھے لوگوں کی کوئی وقعت نہیں ہوتی۔

آج کی اس خوبصورت محفل اتنے عظیم لوگوں کی موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے محترم برچہ صاحب کی نئی دلہن پر کچھ کلمات عرض کرنا چاہونگا۔یہ تو ہم سب کے علم میں ہیں کہ ان کی ادبی و صحافتی خدمات بہت ساری ہیں۔ وہ انسان ساز انسان ہیں۔ان کی نئی کتاب عکس گلگت بلتستان پہلی زیارت نارتھ بک ڈپو میں ہوئی ،جس دن یہ کتاب وہاں پہنچی تھی۔اس کتاب پر تبصرہ کر تے ہوئے میں نے اپنے ایک گزشتہ کالم میں لکھا تھااس کے چند الفاظ آج کی اس عظیم ادبی محفل کے باوقار سامعین کے گوش گزار کرتا ہوں۔’’بالآخر برچہ صا حب کونئی نویلی دلہن پر مبارکباد دینے کے لیے فون کیا تو وہ کہنے لگے کہ میں نے ابھی تک کتاب نہیں دیکھی ہے اور نہ مجھے اطلاع ہے کہ کتاب طباعت کے بعد گلگت پہنچی ہے۔ بقول برچہ صاحب کے میں اولین مبارکباد دینے والوں میں ایک ہوں۔ انہوں نے بعد میں فون پربتایا کہ کتاب کا نسخہ آپ کے لیے رکھا ہوا ہے، جب بھی موقع ملے وصول کیجیے گا۔ یوں کافی دیر سے میں نے یہ خوبصورت کتا ب برچہ صاحب کے مزین دستخطوں کے ساتھ ان کے یدمبارک سے وصول کیا۔کتاب کو بہت غور سے دیکھنے کی کوشش کی۔گلگت بلتستان کے حوالے سے اتنی مفیداور تازہ ترین معلومات کسی کتاب میں یکجا نہیں۔ اگر گلگت بلتستان پبلک سروس کمیشن قائم ہوا تو برچہ صاحب کی کتاب مقابلہ جاتی امتحانات کے لیے سب سے اہم اور لازمی قرار دی جائے گی۔ پوری کتاب کی ورق گردانی کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچ چکا ہوں کہ معلومات کی فراہمی میں محترم برچہ صاحب نے قطعاً خیانت سے کام نہیں لیا ہے۔ ورنہ تو ہمارے ہاں مذہب، مسلک ، قومیت اور علاقائیت کی بنیاد پر تواریخ اور کتابیں لکھی جاتی ہیں۔اور سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی مکروہ کوششیں تو معمول کی بات ہے۔ 

برچہ صاحب نے خود بھی اعتراف کیا ہے کہ فراہمی معلومات میں بھول چوک کی گنجائش ہوسکتی ہے۔اور بھول چوک کی پکڑ تو خدا بھی نہیں کرتے، لہذا اگر کسی صاحب کو ایسی کوئی کمی نظر آئے تو حرفِ تنقید کے بجائے اصلاح کی غرض سے بذریعہ تحریر برچہ صاحب کو مطلع کریں، مجھے امید ہے کہ وہ اگلی اشاعت میں اس کمی کو پورا کردیں گے۔عکسِ گلگت بلتستان میں انتہائی اختصار کے ساتھ گلگت بلتستان کے حوالے سے تمام معلومات دی گئی ہیں۔سیاحت، مشہور جھیلیں،گلیشئر، درے،صحت، پولیس، معدنیات،فلک بوس پہاڑ،مقامی زبانیں، آثار قدیمہ،مواصلاتی نظام،جمہوری و سیاسی ادارے اور شخصیات و پارٹیاں،گلگت بلتستان اسمبلی کا ارتقائی سفر ، مذہب،عسکریات و انتظامیہ،نظام عدل،ادبی انجمنیں و سرگرمیاں، اخبار، میگزین، صحافی ،مشہور قلعے و مساجد،تعمیراتی ورثے، غرض ہر چیز کو مختصرا سمیٹا گیا ہے۔دو چیزوں کی معلومات تفصیل اور خوبصورتی کے ساتھ کتا ب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ ایک مطبوعہ مواد کی جامع فہرست، جس میں گلگت بلتستان کی تمام روزنامہ و ہفتہ روزہ اخبارت کی فہرست، ایڈیٹر ، رپوٹراور تمام عملہ اوردیگر تمام لازمی معلومات دی گئی ہیں۔ ساتھ ہی ماہ نامے و سہ ماہی رسائل، ڈائجسٹ، اور کتابچوں کی بھی مختصر معلومات بمع عہدہ داروں کے بیان کی گئی ہیں۔سرکاری صحافیوں اور عامل صحافیوں کے نام ، عہدہ اور ادارے کے تعارف کے ساتھ کتاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔انگریزی اخبارات کی فہرست اور عہدہ داروں کا ذکر بھی شامل کتا ب ہے۔ برچہ صاحب نے بخل سے کام نہیں لیا ہے بلکہ چھوٹے چھوٹے رپوٹروں کا ذکر بھی کیا ہے۔دوسری چیز کتاب کا دوسرا حصہ ہے۔ یہ حصہ بہت دلچسپ ہے۔یہ 134صفحات پر مشتمل ہے۔اس میں صاحب کتا ب نے گلگت بلتستان سے متعلق آٹھ سو کے قریب کتابوں کا مختصر تعارف انتہائی جامع انداز میں پیش کیا ہے۔میں نے جب اس حصہ کو پڑھنا شروع کیا تو ورطہء حیرت میں مبتلا ہوا کہ گلگت بلتستان کے حوالے سے اتنی زیادہ کتابیں لکھی گئی ہیں۔ برچہ صاحب نے انگلش ، اردو اور اردو تراجم پر مبنی تمام کتابوں کی تعداو و تفصیل دی ہے۔اس حصہ کو بغور پڑھنے کے بعد یہاں بھی مجھے اندازہ ہوا کہ محترم برچہ صاحب نے کسی قسم کے تعصب کو اپنی کتاب کا حصہ نہیں بنایا ہے۔ اور ڈنڈی مارنے کے مکروہ عمل سے حتی الواسع کوشش کی ہے۔ ہر مکتبہ فکر و علاقے اور زبان کے لوگوں نے جو بھی جس نام سے بھی لکھا ہے اس کی نشاندہی کی ہے۔ آفاقی لوگوں کی یہی خصوصیت باقی تمام خصوصیات پر بھاری ہوتی ہے۔وہ انسانیت کو خانوں میں تقسیم نہیں کرتے بلکہ ’’ الخلق عیال اللہ‘‘ کے مصداق تمام انسانوں سے بلاتفریق محبت کرتے ہیں اور بغیر تعصب و جانبداری کے معلومات فراہم کرتے ہیں۔جن شخصیات نے دامے درمے قدمے سخنے کتاب کی تیاری میں ان کی مدد کی ہے ان کا بغیر تامل کے شکریہ ادا کیا ہے۔اور جن کتابوں اور رسائل وجرائد اور اداروں سے معلومات و تصاویر لی ہیں ان کا بھی واضح حوالہ دیا ہے‘‘۔

سامعین ذی وقار، یہ تو آپ سب کے علم میں ہے کہ ہم مولویوں کو ہمیشہ وقت کم دیا جاتا ہے اور ہم بھی وقت کی پروا کیے بغیر تقاریر اور مقالوں کو طول دیتے ہیں ۔ قلت وقت کی وجہ سے میں مزید تفصیلات بتانے سے رہ گیا۔ کتا ب کامکمل مطالعہ سے گلگت بلتستان کا واضح عکس نظر آتا ہے۔ آپ بھی اپنے پاس محفوظ رکھیں۔ آنے والے وقتوں میں کام آئے گی۔ 

جناب والا یہ کون نہیں جانتا کہ شیربازعلی برچہ صاحب ایک معتبر قلمی نام ہے۔ ان کا لکھا ہوا مستند مانا جاتا ہے۔ برچہ صاحب کی کئی اور کتابیں اور علمی مقالے پہلے ہی زیور طبع سے آراستہ ہوکے دادِ عام پاچکے ہیں مگر سچ یہ ہے کہ عکسِ گلگت بلتستان ان کا اچھوتا کارنامہ ہے۔ جو انہیں صدیوں تک زندہ رکھنے کے لیے کافی ہے۔ مجھے کئی علمی شخصیات نے بتا یا کہ برچہ کا لکھا ہوا اکثر سچ ہوتا ہے ۔برچہ صاحب کے تراجم اور صحافتی خدمات سے تو پوری قوم واقف ہے ۔روزنامہ نوائے وقت اور روزنامہ جنگ جیسے معتبر اخبارات میں برچہ صاحب نے گلگت بلتستان کے مسائل اور علمی وادبی سرگرمیوں کو اجاگر کیا۔ برچہ صاحب کے علمی مقالات تو بڑی بڑی یونیورسٹیوں کے سلیبس میں شامل ہیں۔بڈلف لائیبریری گلگت کی تعمیر و ترقی میں برچہ صاحب کے پیشرو جناب اشرف صاحب کا بھی بڑا مرکزی کردار ہے۔ اس بوسیدہ عمار ت کو دونوں صاحبان نے عروج تک پہنچایا۔

آج ہم سب برچہ صاحب کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے جمع ہیں۔میں اس پر انہیں قطعاً مبارک باد نہیں دونگا۔ مجھے تو اب سے فکر لاحق ہوئی ہے کہ اگر ہم پبلک لائیبریری میں جائیں تو کس کے پاس جائیں اور اگر کوئی صاحب برچہ صاحب کی سیٹ پر براجمان ہوبھی تو ، کیا وہ مجھ جیسے طالب علموں کو اتنا مقام و عزت دے گا جو میرے بزرگ دوست برچہ صاحب دیتے تھے۔ یقناً جواب نفی میں ہے۔میں نے کئی دفعہ قلمی امور میں برچہ صاحب سے رہنمائی لی۔برچہ صاحب کہ ریٹائرمنٹ پر آپ سب کو مبارک مگر میرے لیے یہ ایک تکلیف دہ عمل سے کم نہیں۔مجھے تو یوں لگتا ہے کہ میں پبلک لائیبریری جانے اور استفادہ اور عزت حاصل کرنے سے قاصر رہا۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین، وآخر دعوانا عن الحمد للہ

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button