فٹ پاتھ
تحریر: ابو اِنشال
تین ہفتوں سے بیمار اللہ بخش چارپائی پہ پڑا تھا۔اِس کے درد میں اضافہ ہو رہا تھا،گورنمنٹ ہسپتال موجود تھے لیکن ڈاکڑ اور علاج موجود نہیں تھے۔پرائیوٹ علاج کی سکت نہیں تھی۔آسانی سے جو چیز فروخت کی جاسکتی تھی وہ گھر میں موجود دو مرغیاں تھیں۔یہ دونو ں مرغیاں سید عالم کی دوست تھیں جواللہ بخش کا چھوٹا بیٹا تھا۔دونوں مرغیاں محلے کے دکاندار کو 600کی بیچ دی گئیںیوں اللہ بخش کو پرائیوٹ کلینک تک رسائی مل گئی۔ڈاکٹر نے prescriptionلکھ دی اور ایک ٹسٹ تجویز کیا جو کسی بڑے ہسپتال سے ہی کرایا جاسکتا تھا۔
اللہ بخش prescriptionتھامے ایک سرکاری طبقے کے لئیے مخصوص ہسپتال کی طرف چل نکلا ۔ہسپتال ایک خاص احاطے کے اندرموجود تھا۔ہسپتال سے کافی فاصلے پر ایک بیریر لگا تھا۔باوردی گارڈنے اللہ بخش کو روک دیا۔اللہ بخش کا حلیہ ہی کافی تھااُس کو اِس مقام سے آگے نہیں دیا جاتا ۔۔۔۔۔وہی ہوا۔
اللہ بخش مایوس گھر لوٹا،درد میں پہلے سے زیادہ اضافہ ہو رہا تھا،سید عالم اگرچہ صرف چار سال کا تھامگر اپنے باپ کے افسردہ چہرے کو باآسانی پڑھ سکتا تھا۔اُس نے اپنی ماں کو کئی بار تنہائی میں روتے اور آسمان کی طرف ہاتھ اُٹھاتے بھی دیکھا تھا۔
اللہ بخش کی بیوی کا کل آثاثہ اُس کی انگوٹھی تھی جو اُس نے اینٹوں کی بھٹی پر کام کرکے خریدی تھی۔شوہر کے علاج کی خاطر محلے کے دکاندار کو 1500روپے میں بیچ دی اور روپے اللہ بخش کو تھما دیے۔
اگلی صبح اللہ بخش ایک پرائیوٹ ہسپتال کے کاوئنٹر پر موجود تھا۔Receptionپر موجود خاتون نے اللہ بخش پر نظر ڈالی،Prescripitonپر Rs.2,100/-لکھ دیا اور کہنے لگی۔
’’بینک میں جمع کرا کے رسید لے آنا۔۔۔۔۔Next‘‘
اللہ بخش گھر کی طرف روانہ ہوا،اب اُسے اپنے علاج سے زیادہ اپنی اولاد کی فکر ہورہی تھی۔
اللہ بخش کی آخری اُمید ایک ہومیو پیتھک طبیب تھا۔اُس سے دوا لی اور 5دن اللہ بخش کو کچھ آفاقہ ہوا،اُس کے گھر میں تھوڑی خوشیاں لوٹ آئیں،سید عالم اپنے باپ کو چارپائی سے اُترتا دیکھ رہا تھا اور ماں طبیب کو دُعائیں دے رہی تھی۔
ایک ہفتے بعد اللہ بخش کو شدید درد ہوا۔محلے کے ایک شخص کی مدد سے اُس کو قریبی شہر کے بڑے ہسپتال تک پہنچادیاگیا۔جہاں ڈاکڑ نے اُس کے دونوں گردے ناکارہ قرار دیے ؛؛؛؛؛ اللہ بخش کی لاش گھر پہنچ گئی۔
یوں ’’ ایٹمی پاور ‘‘’’Asian Tiger ‘‘اور’’ مسلمانوں کے قلعے‘‘ کا یہ باسی بے علاج اِس دُنیاسے رخصت ہوا۔
سید عالم ،اُس کی ماں اور دونوں بہنیں ریلوے اسٹیشن کے فٹ پاتھ پر زندگی گزار رہے ہیں ،کرائے کے مکان سے اُن کو اللہ بخش کی موت کے ایک ہفتے بعد نکال دیا گیاتھا۔اُن کے ذمے پچھلے ماہ کا کرایہ بھی واجب الادا تھا۔
سید عالم کو زندگی میں کبھی شاید یہ پتا چلے کہ اُس کا باپ جب بغیر علاج کرائے مرا تھا۔Civilizedدُنیا میںBiomimicryپر کافی کام ہو چُکاتھا۔