ایکشن ہو تو ایسا ۔۔۔۔۔!
15فروری 2014 سے شروع ہونے والی مہم جب اپنے ابتدائی سرگرمیوں میں مصروف تھی تب بہت سوں کا خیال تھا کہ یہ مہم بھی بادل نخواستہ سابقہ مہمات کی طرح ختم ہوجائے گی۔عوامی مسائل کے حل کیلئے شروع کی گئی اس مہم میں یہ کسی نے بھی سوچا نہیں تھا کہ جو لوگ ایک دوسرے سے مختلف فروعی اختلافات کی وجہ سے دور تھے اتنے قریب آجائنگے۔جو کام صوبائی حکومت ، آل پارٹیز کانفرنس،مساجد بورڈ اور صوبائی انتظامیہ آج تک نہیں کر سکی وہ کام عوامی ایکشن کمیٹی نے 2 ماہ کے قلیل عرصے میں کر دکھایا ، راقم نے اپنے گزشتہ کالم میں بھی اس کا تذکرہ کیا تھا کہ یہ کمیٹی ایک عوامی تحریک بنتی جا رہی ہے کیونکہ اس ایکشن کمیٹی نے حقیقی معنوں میں عوامی مسائل کو اجاگر کیا اور اپنے چارٹر آف ڈیمانڈ کے ذریعے عوام کو متحد کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ 10 مارچ کو اس کمیٹی نے گلگت بلتستان کی سطح پر تاریخ میں پہلی بار عوامی مسائل کے حل کیلئے بھر پور پر امن احتجاج کو کامیاب بنا کر اپنی اہمیت کو واضح کیا ، تحریک آزادی گلگت بلتستان کے بعد گلگت بلتستان میں ایسی تحریکیں زیادہ دیر تک کامیاب نہیں رہیں ہیں لیکن موجودہ دور میں عوامی ایکشن کمیٹی صحیح معنوں میں عوام کی ترجمان تحریک ثابت ہو رہی ہے.
تمام مکاتب فکر نے اس ایکشن کمیٹی کے کردار کو نہ صرف سراہا ہے بلکہ اس تحریک کو ہر طرح کا تعاون بھی پیش کیا ہے۔15 اپریل کو مطالبات کی منظوری کیلئے عوامی ایکشن کمیٹی کی طرف سے ایک بار پھر احتجاج کی کال نے نہ صرف صوبائی حکومت کو سوچنے پر مجبور کیا ہے بلکہ انتظامیہ کی بھی نیندیں حرام ہو کر رہ گئی ہیں ، اسی لئے صوبائی انتطامیہ نے گلگت ،سکردو،استور سمیت ساتوں اضلاع میں دفعہ 144 نافذ کر دیا ہے اور 5 پلاٹون ایف سی گلگت منگوائی ہے تاکہ ایک عوامی طاقت کو بذریعہ طاقت کچلا جا سکے لیکن حالات و واقعات اشارہ دے رہے ہیں کہ ایسا کوئی بھی اقدام انتظامیہ کو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے۔صوبائی حکومت اس بات کی متحمل کبھی نہیں ہو سکتی کہ ایسا کوئی ناخوشگوار واقع پیدا ہو جس سے ان کی کرسی کو خطرہ لاحق ہو سکے اس لئے ان کے بیانات میں بھی لچک پیدا ہو گئی ہے اور سب سے بڑی بات عوامی ایکشن کمیٹی کی اہمیت کو مانتے ہوئے مزاکرات کا عمل شروع ہو گیا ہے۔ مساجد بورڈ نے اس نیک کام میں پہل کی اور عوامی ایکشن کمیٹی کے کردار کو سراہتے ہوئے بھر پور تعاون کی یقین دہانی بھی کروا لی ہے۔مساجد کمیٹی نے واضح طور پر اس بات کا اعتراف کیا کہ جو کام وہ ایک طویل عرصے میں نہیں کر سکے وہ اس عوامی تحریک چند مہینوں میں کر دکھایا ہے ، انہوں نے انتظامیہ اور عوامی ایکشن کمیٹی کے مابین پل کا کردار ادا کرنے کی بھی یقین دہانی کروا دی ہے۔عوامی ایکشن کمیٹی نے بھی مذاکراتی عمل کیلئے اپنی 8رکنی کمیٹی فائنل کر دی ہے ، ان کا مطالبہ ہیکہ اگر 15 اپریل تک گندم سبسڈی کا مسئلہ حل کیا گیا تو کمیٹی احتجاج کو ختم کرنے سے متعلق سوچ سکتی ہے۔موجودہ صورت حا ل میں لگتا یوں ہے کہ وزیر اعلی گلگت بلتستان و کابینہ بھی عوامی ایکشن کمیٹی سے ملاقات کریگی اور مسائل کے حل کیلئے کوئی نہ کوئی لائحہ عمل تیار کیا جائے گا ، اگر صوبائی حکومت عوامی رائے کا احترام کرتی ہے تو وہ ضرور عوامی ایکشن کمیٹی سے مزاکرات کریگی ، دوسری صورت میں کسی بھی غیر یقینی صورتحال گلگت بلتستان میں ایک بہت بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے۔ کچھ نادیدہ قوتیں اس تحریک کو آڑے ہاتھوں لینا چاہتی ہیں لیکن شاید اب یہ ان کیلئے بھی ممکن نہیں رہا کیونکہ جس اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ ایکشن کمیٹی سے منسلک مختلف الخیال افراد نے کیا ہے اس کے بعد دنیا کی کوئی طاقت انہیں ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتی ہے ، کشروٹ رابطہ کمیٹی اور برمس/ کھر یوتھ رابطہ کمیٹی کی طرف سے عوامی ایکشن کمیٹی کی بھر پور حمایت کے اعلان نے اس مہم کو مذیدتقویت بخشی ہے ۔
خیال یہ پیداہوتا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان کے عوام کے حقوق کی واحد ضامن ثابت ہوگی ۔ ایکشن کمیٹی کے ارکان نے یہ واضح کیا ہیکہ انکا اتحاد الیکشن کیلئے نہیں بلکہ الیکشن کے بعد بھی جاری رہیگا ۔ یہ کمیٹی کسی خاص پارٹی یا گروہ کیلئے نہیں بلکہ عوامی مسائل کے حل کیلئے بنی ہے۔ اگر مذاکرات کامیاب ہوتے ہیں اور ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدر آمد ہو تا ہے تو یہ گلگت بلتستان کے 18 لاکھ عوام کی خواہشات کابہترین ثمر ہوگا۔ عقلمندی کا تقاضا یہی ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی کی راہ میں رکاوٹیں حائل کرنے کے بجائے صوبائی حکومت اور صوبائی انتظامیہ اس کمیٹی کے مطالبات پر غور و خوص کرے تاکہ عوام کو بنیادی حقوق کا حصول ممکن ہو سکے۔