عوامی سونامی ۔۔فیصلہ کن مرحلے میں داخل
عوامی سونامی غذر ، چلاس اور ہنزہ نگر سے گلگت شہر میں داخل ہو گئی ،منگل کے روز گلگت کے تا ریخی مقام گھڑی باغ میں ہزاروں کی تعداد میں عوام نے عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ ساتھ چارٹر آف ڈیمانڈ کی منظوری تک دھرنہ جاری رکھنے کا بھی اعلان کر دیا ، لانگ مارچ میں عوام کی متوقع تعداد نے شرکت کی اور عوام کا اپنے حقوق کے حصول کیلئے جذبہ دیدنی تھاشرکاء دن بھر صوبائی حکومت کے خلاف اور گندم سبسڈی کی بحالی کیلئے نعرہ بازی کرتے رہے ، تسلسل کے ساتھ جاری دھرنہ انتہائی منظم انداز میں چل رہا ہے جو آئندہ چند دنوں میں صوبائی حکومت کا تختہ الٹنے کا منظر پیش کر رہا ہے ، حوصلہ افزاء امر یہ ہیکہ گزشتہ سات دنوں سے جاری دھرنوں میں کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقع پیش نہیں آیا جو ایکشن کمیٹی کے سپریم کونسل اور ایگزیکٹیو کونسل کی دانشمندی کا ثبوت پیش کرتا ہے
گلگت بلتستان کی موجودہ صورت حال کسی بڑی تبدیلی کی راہ ہموار کر رہی ہے، عقل یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہیکہ حکومت اس حوالے سے کیوں آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں ،عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے حکومت اگر گندم سبسڈی بحال کرتی تو یہ صورت حال پیدا ہی نہیں ہوتی، وزیر اعلی گلگت بلتستان ان مسائل کے حل کیلئے وزارت امور کشمیر پہنچ گئے جس کے بعد ایک اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو گلگت بلتستان کی موجودہ صورت حال کے حل کیلئے کوئی پائیدار حل تلاش کرے گی ، لیکن سوال پھر یہ پیدا ہوتا ہے کہ گزشتہ 2 ماہ سے اس عوامی ایشو پر احتجاج ہو تا رہا ہے لیکن صوبائی حکومت وفاق میں یہ مسئلہ اٹھانے سے کیوں کتراتی رہی ، ناقدین کا یہ بھی کہنا ہیکہ گلگت بلتستان میں بحرانی صورت حال پیدا کرنے میں خود وزیر اعلی اور اسکی کابینہ کا ہاتھ ہے اور اسکے پیچھے ایک بہت بڑی سازش کی بو آرہی ہے ۔
عوام کا ہزاروں کی تعداد میں گلگت میں جمع ہونا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ لوگ موجودہ حکومت کی غلط پالیسیوں سے تنگ آ چکے ہیں اور وہ کسی فیصلے پر پہنچنا چاہتے ہیں ، گندم کے دانے نے پیشک لوگوں کو اکٹھا کیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عوامی محرومیاں بھی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔
منگل کے روز عوام نے ایکشن کمیٹی کی کال پر لبیک کہ کر موجودہ حکومت پر عدم اعتماد کا اعلان کر دیا ہے ، عوام چاہتے ہیں کہ اسمبلی میں بیٹھے ہوئے افراد گزشتہ چار سالوں سے عوام کو مسائل میں دھکیلنے کا حساب دیں۔
آج رات یا کل صبح تک اگر مطالبات منظور نہیں ہوتے ہیں اور سکردو اور استور کے قافلے بھی گلگت پہنچ گئے تو اس کے بعد کی صورت حال انتہائی غیر یقینی ہو جائیگی ، عوام کا صبر کا پیمانہ کسی وقت بھی لبریز ہو سکتا ہے اور خدا نخواستہ اگر حالات نا خوشگوار ہو گئے تو اسکے بعد کیا ہوگا یہ سوچ کر ہی رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں ، لگتا یہی ہیکہ موجودہ صوبائی وزراء کے دن پورے ہوگئے ہیں ، موجودہ کابینہ کو چاہئیے تھا کہ وہ عوام کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہو جاتی لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ شاید وہ بھی کسی بڑے بھونچال کا انتظار کر رہے ہیں ، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت نے عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات کو نظر انداز کر کے گلگت بلتستان میں اپنا مستقبل تاریک کر دیا ہے ۔
منگل کے روز گلگت میں جاری دھرنے میں مقرریں نے پاکستان کے استحکام اور مملکت خداداد کے ساتھ وفاداری کا اعلان کر کے ان کے اوپر لگائے گئے الزامات کی بھر پور انداز میں مذمت کی انہوں نے کہا کہ ہم مملکت خدادا پاکستان کے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کیلئے بھی تیار ہیں لیکن گلگت بلتستان کی صوبائی نا اہل حکومت نے عوامی وسائل کا بے دریغ استعمال کے علاوہ کرپشن کا بازار گرم کئے رکھا اور عوامی مسائل کے حل کے بجائے مسائل میں اضافہ کرنے کے موجب بنے لہذا موجودہ صورت حال کے ذمہ دار صوبائی حکومت کے نمائندے ہیں او ر سزا بھی انہی کو ملنی چاہئیے ۔
لانگ مارچ سے ایک روز قبل صوبائی وزراء نے ایک ہنگامی پریس کانفرنس میں کہا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات بلا جواز ہیں اور مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد اس احتجاج کو جاری رکھنے کا کوئی مقصد نظر نہیں آتا بلکہ یہ صوبے کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی سازش ہو رہی ہے ، اگر کسی قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تو اس کی پوری ذمہ داری ایکشن کمیٹی پر ہوگی ، دوسری طرف عوامی ایکشن کمیٹی کے نمائندوں نے 22 تاریخ کو گلگت کے تاریخی مقام گھڑی باغ میں اپنے خطابات میں اس بیان کی بھر پور تردید کرتے ہوئے کہا کہ ایک ہفتے سے جاری احتجاجی مظاہروں میں کسی پر ایک پتھر بھی نہیں پھینکا گیا اور عوام نے یکجہتی اور امن کا عالمی مظاہرہ کیا لیکن اس کے باو جود اگر کچھ ہوا تو اس کی ذمہ دار حکومت ہوگی ۔ عوام اتحاد و اتفاق جاری رکھیں گے ۔
گلگت بلتستان کو موجودہ غیر یقینی صورتحال سے نکالنے کیلئے ضرورت اس امر کی ہیکہ حکومت عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے مطالبات تسلیم کرے، اس حوالے سے مرکز میں بنائی گئی کمیٹی کو اپنا کلیدی کردار ادا کرتے ہوئے فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے وگرنہ اگر یہ دھرنہ مذید ایک دو دن جاری رہا تو اس کے نتائج انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں ۔