کامیابی کی منزلیں
گندم سبسڈی کے خاتمے کے بعد عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی سے لیکر عوامی ایکشن کمیٹی کے نام سے مسائل کی حل کیلئے غیر سیاسی اور مذہبی پلیٹ فارم کا بننااور قلیل وقت میں ذیادہ پذئرائی ملنا بڑی ہی دلچسپ کہانی ہے ۔نہیں معلوم اس کمیٹی کے منتظمین نے کونسا طلسماتی کردار ادا کیاجس کی وجہ سے عوام ہڑتال سے لیکر لانگ مارچ تک پُرامن اور کامیابی سے پونچے ہیں. حالانکہ اس مشن کو ناکام بنانے کیلئے سرکار کی خواہش تھی کی مشینری استعمال کیا جائے لیکن عوام کے سامنے حکومتی بے چارگی دیکھ کر مہدی شاہ سرکار پر کیلئے گوشہ دل میں مقام بھی نظر آیاپھر اچانک دل دھڑکتا بھی تھا کہ آخر حکومت تو حکومت ہوتی ہے کوئی بھی اقدام اُٹھا سکتا ہے۔
جب دفعہ 144لگانے خبر ملی تو دل سے بے ساختہ دعا نکلی کیونکہ اس صورت حال میں مقامی فورسز کو جو خو د ان تمام صورت حال کے متاثرین میں شامل ہے۔انہیں عوام کے خلاف استعمال کیا جاسکتا تھا۔پھرمعلوم ہوا کہ ایسا نہیں ہوگا حکومت نے دفعہ واپس لے لیا لیکن اچانک سے پھر دفعہ لگا کر عوام کو تذبذب کا شکار کیا اور اس تذبذبی نے عوام کے حوصلے بلند کیا یوں حکومتی دفعات نافذ سے پہلے ہی عوام نے ڈھیرکرکے حکومت کو پیغام دیا کہ عوامی طاقت کے سامنے حکومتیں کوئی معنی نہیں رکھتی۔حکومتیں عوام کی مرضی سے بنتی ہے اور عوام چاہیں تو حکومتوں کا تختہ الُٹ سکتا ہے۔قصہ مختصر اس سفر میں گلگت بلتستان کے تمام اضلاعکی عوام نے بہترین قومی یکجہتی کا ثبوت دیتے ہوئے دھرنے کو لانگ مارچ تک پونچا دیا لیکن حکومت کی بے حسی ایک الگ موضع ہے جس پر پھر کبھی قلم اُٹھاوں گا۔آج کا یہ کالم صرف عوام اور عوامی ایکشن کمیٹی کے منتظمین کے نام ہے۔ یہاں مجھے الفاظ کی چناو میں مشکل پیش آرہا ہے کیونکہ اسمشن کیلئے الفاظ کا چُننا شائد میری اردو کی کمزوری ہے یا یہ قوم اتنی عظیم ہے کہ الفاظ سے حق ادا نہیں ہو سکتاکیونکہ اس قوم نے الفاظوں کی تعریف سے کہیں ذیادہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
خطے کے تمام مذہبی قومی نمائندوں کا قومی ایجنڈے پر ایک ہونا خود ایک بڑی کامیابی ہے ،لوگ سوال کرتے ہیں کہ اس دھرنے سے کیا نتیجہ نکل سکتا ہے میں کہتا ہوں نتیجہ 120فیصد نکل گیا ہے کل تک یہاں مسلکی بنیاد پر لوگ ایک دوسرے کی گلی سے گزرنا گوارہ نہیں کرتے تھے ایک دوسرے کی چائے خانے سے چائے نہیں پیتے تھے آج گھڑی باغکے مقام پر ہزاروں شیعہ ، دیوبندی،سُنی ،اسماعیلی،اور نوربخشی عوام کا مولانا خلیل قاسمی صاحب کی امامت میں نماز ادا کرکے مسلک کی بنیاد پر سیاست کرنے والوں کی تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔جو لوگ کل تک گلگت بلتستان کے عوام کو مسلک کے نام پر گمراہی کی تعلیم دے رہے تھے انہیں مایوسی ہوئی۔حکومتی سطح پر بھی کہا جارہا تھا کہ یہ ایشو بھی آخر میں پھر مسلکی اختلاف کے ذد میں آکر خود بخود تاریخ کا حصہ بن جائے گا انہیں بھی مایوسی ہوئی اور آج گلگت اور سکردو میں عوام کی جم غفیراور مستقبل کی سیاست کا آئینہ دیکھ کر ایوانوں میں کھل بلی مچی ہوئی ہے۔حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے پرنٹ میڈیا کا سہارا لیکر پاکستان اور گلگت بلتستان میں گندم کی ریٹ کا موازنہ کرکے اشتہارات چلائے جارہے ہیں یہ بھی ایک کامیابی ہے یوں عوام کی کامیابی کے لمبی فہرست ہے گندم کے بہانے سے۔مہدی شاہ کے شہر میں پچھے ایک ہفتے سے پورے بلتستان سے عوام جمع ہو رہے ہیں مگر زندگی بھی رواں ہے سکول کھلے ہوئے ہیں سڑکیں بحال ہے حکمران پریشان ہے مگر عوام انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں۔یہاں ایک بات اُس اشتہار کے حوالے سے کرنا چاہوں گا کیونکہ وزیر موصوف نے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جیسے گندم دوسرے شہروں میں گلگت بلتستان کی نسبت کہیں ذیادہ مہنگا ہے یہ لوگ اپنی انگوٹھہ چھاپ وزارت کو شائد آئینی حقوق سمجھ بیٹھے ہیں ورنہ کبھی یہ بات نہیں کرتے کیونکہ پنجاب کوہستان وغیرہ آئینی اور قانونی طور پر پاکستان کا حصہ ہے۔گلگت بلتستان کے عوام کو سبسڈی اقوام متحدہ کے چارٹرڈ کے مطابق دی جارہی ہے لہذا یہ کوئی احسان نہیں ہماری خدمات کے مقابلے میں یہ گندم کوئی معنی نہیں رکھتا ۔اصولی طور پر دیکھا جائے تو کئی اور غذائی اشیاء پر بھی سبسڈی ملنا چاہئے تھا جیسے انڈیا والے کشمیر لداخ اور کرگل کو دے رہے ہیں لہذا اس طرح من گھڑت اشتہارات سے حکومت کواور نقصان ہوگا کیونکہ عوام بیدار ہو چکی ہے پاکستانی میڈیا کی خاموشی کے باوجود سوشل میڈیا ایڈوانس ہوچکی ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ عوام طاقت کو تسلیم کرتے ہوئے 9 نکاتی ڈیمانڈ پر عمل درآمد کریں تاکہ ڈوبتی سیاسی کشتی کو کچھ سہارا مل سکے۔اب واپس اصل موضوع پر بات کرتے ہوئے دیامر کی صورت حال کا ذکر کریں تو معلوم ہوا کہ وہاں کی عوام کا پولیس کے ساتھ کافی آنکھ مچولی ہوئی شاہراہ قراقرم بند کردیا لیکن بعد میں منتظمین کی مداخلت پر کھول دی گئی یہی تابعداری کامیابی کی دلیل ہے۔مجھے نہیں معلوم احسان ایڈوکیٹ کون ہے لیکن مجھے اس شخص کے اندر قومی جذبہ نظر آتا ہے کیونکہ جذبہ اور خلوص کے بغیر کوئی بھی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوسکتا ۔ مضمون کی وسعت اشاعت کو مدنظر رکھتے ہوئے باقی رہنماوں کا نام نہیں لے سکتا لیکن ایک مرد مجاہد کا نام ضرور لوں گا جنہوں نے بلتستان بھر کے عوام کو یادگار شہداء سکردو پر جمع کیا ہوا ہے انکے خلاف ماضی میں بھی کئی ہتکنڈے استعمال ہوئے خطہ بدری سے لیکر گرفتار کرنے کی باتیں ہوئی.
آج بھی سکردو میں مہدی شاہ سرکار کے سرکاری غنڈے انہیں ضررپونچانینے کیلئے موقع کی تلاش میں ہے لیکن عوامی ایکشن کمیٹی کے اس طرح کے منتظمین بے خوف عوام کے ساتھ دن رات دھرنا دئے ہوئے ہیں ۔جوکہ انشاللہ بہت جلد مقاصد میں کامیابی کے ساتھ عوام کے سامنے سرخرو ہونگے ۔لیکن یہاں ایک بات تاریخ کے حوالے سے کرنا چاہوں گا کہ جنگ آذادی کے ہیرو کرنل مرزا حسن خان کا یہ مشن آج 66سال بعد ایک بار پھر عوام کی تعاون سے جاری ہے لہذا اس مشن کو کرنل مرزا حسن خان کے نام منسوب کرنا چاہئے اور قائد عوام ذولفقار علی بھٹو شہید کو بھی خراج تحسین پیش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ گلگت بلتستان کے عوام کو آذادی کے بعد پہلی بار بھٹو نے ہی جینے کا سلیقہ سکھایا تھا ہم جیسیعام آدمی کو ظلم اور استحصال کے خلاف قلم اُٹھانے کا موقع بھٹو نے دیا تھا ۔مگر بدقسمتی سے انہی کے نام نہاد دعوے داروں نے بھٹو ازم کی فلسفے کا شکل ہی بگاڑ دیا آج بھٹو کے نام پر کرپشن اقرباء پروری عام کیا ہوا ہے جو کہ اس عظیم قائد کے ساتھ ذیادتی ہے۔آخر ایک بار پھر بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کامیابی مل چکی ہے نفرتیں مٹ چکی ہے عوام ایک دوسرے کو سمجھ چکے ہیں عوام کواب دوست اور دشمن کی بھی پہچان ہوچکی ہے لہذا یہ سفر یہاں ختم نہیں ہونا چاہئے کیونکہ گلگت بلتستان میں بہت کچھ ٹھیک کرنا باقی ہے جسے عوام ہی کرسکتے ہیں حکومتیں تو بس فنڈز کھانے اور کرپشن کیلئے ہی آتے ہیں۔لہذا مسقبل کی سیاست پر بھی گہر ی نظر رکھنے ہوں گے ۔اللہ اس دھرتی کو اس کی بساط کے مطابق تعمیر اور ترقی عطا کرکے یہاں کے باسیوں میں یہی محبت برقرار رہے آمین