آئینی حقوق اور گندم سبسڈی
تحریر: محمد ابراہیم اسدی
عوامی ایکشن کمیٹی کی کال پر پہلی بار گلگت بلتستان کے عوام تمام مسلکی اورسیاسی اختلافات کو بھلا کر 9نکاتی ایجنڈے پر ایک ہیں اور مسلسل دس دنوں سے دھرنے دیئے ہوئے ہیں ان کے مطالبات میں سرفہرست گندم سبسڈی کی بحالی ہے گلگت بلتستان میں پہلی بار ذوالفقار علی بھٹو نے گندم پر سبسڈی دی۔ذوالفقار علی بھٹو نے گندم پر سبسڈی دے کر گلگت بلتستان کے عوام پر کوئی احسان نہیں کیا بلکہ عالمی قوانین کے تحت جب تک گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت نہیں دیتے گندم سمیت دیگر اشیاء پر وفاقی حکومت سبسڈی دینے کی پابند ہے یہ سلسلہ مشرف دور تک جاری رہا مگر پی پی حکومت جن کا نعرہ ہی روٹی کپڑا اور مکان تھا نے سلسلہ وار سبسڈی ختم کرنے کی کوشش کی جس پر عوامی ایکشن کمیٹی وجود میں آئی پہلے تو عوامی ایکشن کمیٹی نے ڈیڈلائن دی اورپھر ہڑتال کی کال دی کامیاب ہڑتال کے بعد حکومت کو مہلت پھر نوبت دھرنوں کی کال تک آپہنچی اور آج گلگت بلتستان میں مسلسل دس دنوں سے دھرنے جاری ہیں ان دھرنوں کو توقعات سے بڑھ کر کامیابی مل رہی ہے صوبائی حکومت اس کو وفاق کے اختیارات جبکہ وفاقی حکومت اس کو صوبائی حکومت کی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں مگر اس سلسلے میں دونوں برابر کے ذمہ دار ہیں اگر صوبائی حکومت بری الذمہ ہے تو ان کو ایک لمحے کیلئے بھی اپنی حکومت کو قائم نہیں رکھنا چاہیے ان کو فوراً احتجاج کے طور پر استعفے دے کر عوام کے ساتھ سڑکوں پر ہونا چاہیے ہم جانتے ہیں کہ یہ اخلاقی جرات ان میں نہیں دس دنوں کے دھرنوں نے ثابت کیا ہے کہ اب مہدی شاہ کی ٹیم کو ایک لمحے کیلئے بھی حکومت میں رہنے کے اخلاقی جواز موجود نہیں اور وفاقی حکومت کو شاید گلگت بلتستان کے عوام سے کوئی سروکا رہی نہیں آج دس دنوں سے گلگت بلتستان کے
پرامن عوام سڑکوں پر موجود ہیں نظام زندگی درہم برہم ہے مگر افسوس وزیراعظم پاکستان کے پاس حامد میر کیلئے ٹائم ہے طالبان کیلئے ٹائم ہے گلگت بلتستان کے مظلوم عوام جو دس دنوں سے دھرنے دیئے ہوئے ہیں ان کے مطالبات سننے کیلئے ٹائم نہیں۔ صدر پاکستان،وزیراعظم،چیف جسٹس،آرمی چیف اور میڈیا کی گلگت بلتستان کے حوالے سے خاموشی خطے کیلئے کوئی اچھا پیغام نہیں۔ پاکستان کے تمام ریاستی ادارے بشمول میڈیا،انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے گلگت بلتستان کے تاریخی دھرنوں اور عوامی مطالبات پر کوئی ایکشن اور دلچسپی کا اظہار نہ کرنا اس بات کی نشاندہی کرتاہے ان تمام سربراہان اور اداروں کو گلگت بلتستان کے عوام سے کوئی دلچسپی نہیں اس رویے سے گلگت بلتستان کے عوام کو کیا سمجھنا چاہیے یہ تو واضح ہے مگر خوش آئند بات یہ ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی نے گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق کی راہ دکھائی ہے اور گلگت بلتستان کے عوام جن کو فرقہ واریت کی طرف دھکیلنے کی بھرپور سازشیں کی گئیں اس کے باوجود آج عوامی ایکشن کمیٹی کے پرچم تلے ایک ہونا ایکشن کمیٹی کے تاریخی کارناموں میں سے ایک ہے اب سوال یہ ہے کہ حکومت کیوں خاموش ہے؟ تو صاف نظرآتاہے کہ حکومت اپنے رویے سے یہ واضح کررہی ہے کہ جب تک اس ملک میں عوام اسلحہ نہیں اٹھائیں گے ریاستی اداروں کو چیلنج نہیں کرینگے گلگت بلتستان کی پرامن وادی کو بھی بلوچستان اور وزیرستان نہیں بنائیں گے حکومت بات چیت یا مسائل حل کرنے کیلئے تیار نہیں مقام افسوس یہ ہے کہ پاکستان میں ستر ہزار افراد کے قاتلوں سے مذاکرات کیلئے حکومت کمیٹی بھی بناتی ہے اور ان کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے مذاکرات کیلئے بھی بھیجتی ہے اور ایک صحافی زخمی ہو تو خود وزیراعظم عیادت کیلئے جاتے ہیں مگر افسوس گلگت بلتستان کے پرامن عوام اس قابل نہیں ان کے مطالبات تسلیم کئے جائیں اور ان سے بات چیت کی جائے ان کیلئے کابینہ میں سے کسی اہم وزیر کو گلگت بلتستان بھیج کر ایکشن کمیٹی کے ممبران سے بات کریں یہ تو حالات ہیں وفاقی ودیگر ریاستی اداروں کا، دوسری طرف میڈیا جو امریکہ کے کتوں کے کیٹ واک تو دکھاتے ہیں ایک کرکٹر کی شادی کو چوبیس گھنٹے کوریج ملتی ہے ایک صحافی کے زخمی ہونے پر شور مچاتے ہیں ان کیلئے لائیوٹرانسمیشن ہوتی ہے میڈیا تو میڈیا انسانی حقوق کے تمام چیمپئن بھی گلگت بلتستان کے مظلوموں کے حقوق پر بات چیت کرنے کیلئے تیار نہیں یہ امتیازی سلوک گلگت بلتستان کے ساتھ پہلی با رنہیں ہے یہ چھیاسٹھ سالوں سے جاری ہے گلگت بلتستان کو پاکستان کے ساتھ غیرمشروط طور پر الحاق کی سزا ہے ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کے عوام اب اپنی منزل کے قریب ہیں حکمرانوں کے پاس گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دینے کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں اس میں جتنی جلدی کی جائے ملکی مفاد میں ہے لہٰذا حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے گلگت بلتستان کے عوام کو آئینی حقوق دینے کیلئے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے۔گلگت بلتستان ہرصورت وطن عزیز پاکستان کا پانچواں آئینی صوبہ بنے گا اور جو لیڈر گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے میں کامیاب ہوگا وہ تاحیات گلگت بلتستان کے محسن شمار ہونگے لہٰذا اب عوام کا یہ مطالبہ شدت اختیار کرگیا ہے کہ حکومت فوری طور پر قومی اسمبلی اور سینٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر آئین میں ترمیم کریں اور گلگت بلتستان کو ملک کا پانچواں آئینی صوبہ بنائیں اوریہ کریڈٹ میاں محمدنوازشریف کو لینا چاہیے۔