آئیں دیامرکی سیر کو چلیں
ضلع دیامر گلگت بلتستان کے سات ضلعوں میں سے ایک ہے۔ شاہراہ قراقرم خیبر پختونخواہ سے سیدھا ضلع دیامر سے ہوتا ہوا گلگت ‘ہنزہ اور چین تک جاملتا ہے۔ یہ گلگت بلتستان کیلئے گیٹ وے کی حیثیت رکھتی ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے دیامر کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ دیامر کے مشرق میں استور جنوب مغرب میں خیبرپختونخوا( کوہستان اوربابوسرٹاپ‘) جنوب میں نیلم ویلی آزاد کشمیر شمال مغرب میں ضلع غذر اور شمال مشرق میں گلگت کی سرحدملتی ہے۔ دیامر کی آبادی 1998ء کی مردم شماری کے مطابق ایک لاکھ پنتیس ہزار(۰۰۰،۱۳۵)اور حالیہ اندازے کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے زائدہے۔ انتظامی لحاظ دیامر تین تحصیلوں(داریل‘تانگیر اور چلاس) پر مشتمل ہے ۔ دیامراور استور کو ملاکر ایک ڈیژن بنایاگیا ہے۔ ضلعی ہیڈ کوارٹر چلاس ہے۔ دیامرپورٹی ایلیویشن پروگرام کے مطابق شرح تعلیم صرف ۹ فیصد ہے خواتین کی شرح تعلیم عشاریہ صفر بیس(۲۰۔۰) بتائی جاتی ہے۔ عصر سروے ۲۰۱۴ء کے مطابق سکول سے باہر بچوں کی شرح ۵۴ فیصد ہے۔
آثار قدیمہ میں قدیم تہذبوں کے نوادرات اور نقوش مختلف وادیوں میں پائے جاتے ہیں۔ جن میں داریل تانگیرسرفہرست ہیں۔داریل میں بہت قدیم زمانے کی درسگاہ (یوینورسٹی) کے آثار فکچ کے مقام پر ملے ہیں لیکن موجودہ زمانے کی کسی یونیورسٹی کے آثار دور دور تک نظر نہیں آتے ۔ ننگاپربت اور فری میڈوس سیاحت میں اہم مقامات میں سے ہیں اور موسمی سیاح یہاں سالہاسال آتے رہتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں جنگلات کے حوالے سے دیامر بہت مشہور ہے۔ یہاں سے لکٹری ملک کے دوسرے حصوں تک پہنچائی جاتی ہے۔ قدرتی وسائل سے دیامر مالامال ہے۔ تاریخی دفاعی لحاظ سے بھی دیامر کی ہر زمانے میں اہمیت رہی ہے۔ سنگلاخ پہاڑ اور جنگل سے بھرے وادیاں یہاں کیلئے قدرت کا عظیم تحفہ ہے۔یہاں کے رہنے والے دیندار‘ مہمان نواز اورسیدے سادے ہیں۔ ان کی اس سادگی کا بہت سے گروہوں نے غلط فائدہ اٹھاکر ان کو ترقی کی دوڑ سے دور رکھا ہوا ہے۔ گردش لیل ونہار اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے طوفان سے محفوظ رہنے کی امید سے صدیوں تک اپنے اقدار وروایات تھامے ہوئے ہیں۔ مگرطاقتور میڈیا اورجدیدیت کی لہریں ان وادیوں میں پہنچ چکی ہے۔ بڑی عمر کے لوگ تبدیلی کے اس طوفان کو روکنے کے لئے طرح طرح کے بند باندھ رہے ہیں لیکن نوجوانوں کی دنیا بینی اورشہری فکر تبدیلی کے سفر میں کمربستہ ہیں۔ اس سفر میں ان وادیوں سے بہت سے نوجوان ملک اور بیرون ملک سے تعلیم حاصل کرچکے ہیں لیکن ان کی تعداد بہت قلیل ہے۔ جن لوگوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی ہے وہ اسلام آباد‘ کراچی‘ گلگت یا غذر وغیرہ میں قیام پذیر ہے اپنے علاقے میں رہنا پسند نہیں کرتے ۔ دیامر میں بھی گلگت بلتستان کے دیگر علاقوں کی طرح تعلیم‘ صحت‘ صاف پانی‘ پکی سٹرک اور دیگر سماجی اداروں کی کمی ہے۔سیاسی لوگ ووٹ کے دنوں میں تشریف لاتے اور قومیت اور دیگر قبائلی اسلوب کے ذریعے ووٹ لیتے ہیں اور اگلے الیکشن تک گلگت اور اسلام آباد میں گم ہوجاتے ہیں۔ راقم نے دوہفتے ضلع دیامر کا تحقیقی سفر کیا۔ اس سفر میں داریل‘ تھک نیاٹ‘ بابوسر‘ گونرفارم،بٹو گہہ اور چلاس کے دوسرے گاؤں کا سفر کیا۔ اس سفر کے دوران علاقے کے عمائدین اور نوجوانوں سے ملاقات ہوئی۔ بابوسر سے سترہ دیہی تنظیمات کے ممبران سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے اپنے علاقے کے بارے میں تفصیلا اگاہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ’’ بابوسر کے باسی پر امن اور دنیدار لوگ ہیں۔ تعلیم اور شعور کی کمی کے باعث ان کے علاقے میں ترقی نہیں۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی وجہ سے اب وہ اس نعمت سے بھی ہاتھ دھو چکے ہیں۔ زراعت کے لئے ان کے پاس زمینیں ہیں لیکن اب پاشی کا کوئی مضبوط نظام نہیں۔ علاقے میں کوئی ہائی سکول نہ ہونے کی وجہ سے چلاس جانا پڑتا ہے جس کی وجہ سے بہت سے طالبعلم بہت جلد سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ علاقے میں پھل فروٹ کی اگاہی کم ہونے کی وجہ سے اس میدان میں بھی کوئی پیش رفت نہیں۔ مال مویشی پالنا اس زمانے بہت مشکل ہوگیاہے۔ ۱۹۷۸ء سے پہلے شاہراہ قراقرم ناراں ‘ کاغان‘ بیسل اور گٹی داس سے ہوتے ہوئے اسی نالے سے گزرتی تھی۔ بابوسر سے اب یہی شاہراہ گزرنے والی ہے اس سلسلے میں ایک ٹنل بھی بننے والا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ٹنل کے ملبے کو صحیح معنوں میں ایک ڈیم کی صورت دے تتووئے کے مقام پر بھی بجلی گھر بن سکتاہے اور اب پاشی کے لئے پانی کا بھی انتظام ہوسکتا ہے۔ ٹنل کے ملبے کو صحیح منتظم نہ کیا گیا تو ملبے کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔‘‘
تھک نیاٹ کے لوگوں نے بھی تعلیم اور صحت کی کمی کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ترقی کی روڈ میں دوسرے لوگوں کی طرح حصہ لینا چاہتے ہیں۔ علاقے میں امن کے قیام میں ہم کردار ادا کرنا چاہتے ہیں لوگوں کو ہمارے بارے میں غلط فہمی دور کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیم‘ صحت ‘ سیاحت کے ساتھ دوسرے سماجی شعبوں میں آگے آنے کے لئے سول سوسائٹی اور حکومت ہماری مدد کریں۔
اس کے بعد ہم نے داریل کا سفر کیا داریل جانے سے پہلے دل ودماغ میں ایک خوف اورشک تھی۔ جوں جوں ہم آگے جاتے رہے خوف اور شک میں کمی آتی گئی لوگوں نے ہمارا شاندار استقبال کیا اور مہمان نوازی کی۔مجھے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ حدیث یاد آئی’’ سنی ہوئی چیز دیکھی ہوئی چیزکے برابر نہیں‘‘۔ داریل کی ایک خاص تاریخ ہے یہاں کے باسی بھی اپنے تاریخی اقدار اور مذہبی ورثے کا محافظ رہے ہیں۔ قدیمی قبائلی اقدار کی وجہ سے اپنی ثقافت اور روایات سے چمٹے ہوئے ہیں۔ فی زمانہ ان کی نئی نسل اپنی قدیمی ورثے کے ساتھ جدید ترقی کو بھی اپنانا چاہتی ہے۔ تعلیم اور سماجی شعور کی کمی اور دیگر علاقوں سے کم تعلقات کی وجہ سے علاقے میں ترقی کی راہیں کم نظر آتی ہیں۔ سیاحت کے شعبے میں بہت شاندار مواقع موجود ہیں۔ پکی سڑک اور دیگر سیاحتی ضروریات نہ ہونے کی وجہ سے سماجی جرائم کے آثار موجود ہیں۔ یشوٹ‘ چوروٹی‘ گوماری اور گیال کے ۳۶ دیہی تنظموں کے ممبران سے ملاقات ہوئی ۔ انہوں نے ہمارا پرتپاک خیرمقدم کیا اور ان کی خواہش ہے کہ قومی اور سول سوسائٹی کے اداروں کے ساتھ میڈیا کے لوگ ان علاقوں میں آئیں اور ترقی کی نئی راہوں سے ہمیں اگاہ کریں۔ تعلیمی اداروں کی شدید کمی ہے۔ پوری وادی میں صرف ایک ہائی سکول موجود تھی جو اب بڑھ کر تین ہوچکے ہیں جن کی حالت بھی کوئی خاص نہیں۔خواتین کے لئے اب بھی کوئی خاص تعلیمی ادارہ نہیں۔ تعلیمی اداروں کی شدید کمی کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم کے اداروں کو داریل آنا چاہئے۔ سماجی ترقی‘ زراعت اور سیاحت کے ساتھ ساتھ صحت کے میدان میں بھی مدد کرنے والوں کو خوش آمدید کہیں گے۔ سب ممبران کا کہنا تھا کہ خواتین کی تعلیم و تربیت اور صحت کے مسائل زیادہ ہیں۔ جدید تعلیم ‘کمپوٹر‘ مواصلات کے دیگر ایجادات اور انٹرنٹ کی اشد ضرورت ہے کیونکہ وہ بھی اپنی اولاد کو مستقبل میں تعلیم یافتہ اور باشعور شہری دیکھنا چاہتے ہیں۔ بندوق کلچر سے سب تنگ آچکے ہیں ابھی وہ اس کلچر کو آمدن اور وقت کا ضیاح سمجھنے لگے ہیں۔ قلم کی طاقت کا اندازہ ہونے لگا ہے۔ محکمہ سیاحت اور زراعت نے بھی اس پوری وادی میں بہت کم کام کیا ہے۔گیال کے دیہی تنظیم کے ممبران نے بھی تعلیم کی کمی اور صحت میں سول سوسائٹی کی ضرورت کا اظہار کیا۔ داریل کے لوگ پر امن اور مہمان نوازہیں وہ گلگت بلتستان اور دیگر دنیا کے لوگوں کو بھی اپنی وادی میں خوش آمدید کہنا چاہتے ہیں۔ ماضی کے غلط فہمیوں کو دور کرنے ضرورت ہے۔ اس وادی کی سرزمین اتنی زرخیز ہے کہ اگر یہ لوگ تعلیم ‘ سیاحت اور زراعت پر توجہ دے تو انکے معیشت میں بہت اضافہ ہوسکتا ہے۔ جنگل کی بے دریغ کٹائی جاری ہے۔ گھروں کی تعمیر میں سینکڑوں پودوں کو ضائع کرتے ہیں ۔ مکانات کی چھت کے اوپر ایک اور چھت لکڑ کا بناتے ہیں۔ لوہے کی چادر کی ایجاد کے بعد درختوں کی اس طرح فضول ضائع کرنا اگلی نسل کے ساتھ زیادتی ہے۔ خیر اس معاملے میں چند مسائل حائل ہیں وقت کی دہار اور شعور کی قوت ان کو کسی وقت احساس دلا دے گی تب تک جنگل ختم ہوچکا ہوگا!
اس کے بعد ہم بٹو گہہ گئے بٹو گہہ چلاس میں پانی کی فراہمی کا واحد منبع ہے۔ یہاں کی آباد ی زیادہ تر چلاس میں مقیم ہے۔ صرف چند لوگ وادی کے آخری کنارے برف کے قریب رہتے ہیں۔ یہاں سے لوگ گرمیوں میں بابوسر ٹاپ تک بھی جاتے ہیں۔ اس علاقے میں بھی تعلیم اور صحت کے سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے۔ سماجی شعور کی کمی اور سول سوسائٹی کے نہ ہونے کی وجہ سے حکومتی ادارے اپنے مرضی کے مالک بنے ہوئے ہیں۔ منتخب نمائندے بھی اس علاقے میں بہت کم تشریف لاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کو شدید مسائل درپیش ہیں۔
ہم گونر فارم بھی گئے اس علاقے کے لوگ تعلیم کے میدان میں باقی دیامر کے علاقوں سے بہت آگے ہیں۔ اس کے باوجود بڑے تعلیمی اداروں کی کمی کا سامنا ہے۔ زراعت اور اب پاشی کے سرکاری محکموں کی کارکردگی یہاں بھی قابل تعریف نہیں۔ گونر فارم کے باشعور لوگوں نے وقت کی دہار کو سمجھتے ہوئے کیڈٹ کالج کو زمین مفت فراہم کی ہے یہ قربانی انہوں نے اپنی اولاد کی تعلیم اور تربیت کے لئے دی ہے۔ مستقبل میں یہ ایک اعلیٰ بااعتماد پیشہ ور تعلیمی ادارہ ہوگا۔ یہ بنجرقطعہ زمین مستقبل میں تعلیم اور شعور کی اب پاشی سے گل وگلزار ہوگا۔علامہ اقبال فرماتے ہیں؛
تعلیم کے تیزاب میں ڈال اُن کی خودی کو
ہوجائے ملائم تو جدھر چائیے اُدھر پھیر‘
چلاس شہر میں ایک انٹر کالج بنی ہے اس کی عمارت سے لگتا ہے کہ با کل نئی ہے۔ نومولود تعلیمی ادارے کو بھی سٹاف اور عملہ کی کمی کا سامنا ہے۔ محکمہ صحت کا چلاس شہر میں کردار بہت کم ہے۔ چلاس کالونی میں صفائی کا کوئی انتظام نہیں گلی کوچوں میں گندگی کے ڈھیر ہیں۔ سول سوسائٹی اور مقامی نجی ادارے نہ ہونے کی وجہ سے صفائی کا شعور بہت کم نظر آتا ہے۔ صاف پانی کی فراہمی ایک خواب بنی ہوئی ہے لوگ( بچے) دن بھر اپنے پائپوں کی مرمت کرتے نظر آتے ہیں۔
اس سفر کا خلاصہ یہ ہے کہ دیامر اب ترقی کی طرف بڑھ رہاہے۔ لوگ باشعور ہورہے ہیں۔ تعلیمی اور صحتی اداروں کی کمی کو ہر ایک محسوس کرتے ہیں۔ سماجی زندگی میں معیار اور ترقی کا ہر ایک متمنّی ہے لیکن نامعلوم وجوہات ان کی اس سفر میں حائل ہے۔ دیامر ڈیم کے پیسے سب دیامر کے باشندوں کو نہیں ملے ہیں۔ یہ صرف چند قبائل کے لوگ ہیں ۔ اس طرح جنگل کے مراعات اور ریئلٹی سب کو نہیں ملتی یہ بھی کچھ علاقوں اوروادیوں میں ہے۔ باقی لوگ بہت غربت کی زندگی کا شکار ہے۔ تعلیم کی کمی اس حد تک ہے کہ ۹۰ فیصد سے زائدناخواندہ ہیں ۔ صوبائی حکومت کو ضلع دیامر پر خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہاں مرد اور خواتین کے لئے اعلیٰ تعلیمی اداروں کا قیام ضروری ہے اور لوگ شدت سے انتظا رمیں ہیں۔ دیامر کا گلگت بلتستان کی ترقی میں بڑا کردار ہے اس لئے اس علاقے میں بھی ترقیاتی اور سماجی اداروں کی شدید ضرورت ہے۔ علماء ‘ عمائدین اور سیاسی نمائندوں کی مددسے سول سوسائٹی کے قیام سے ہی ترقی کی راہ ممکن ہے۔ بندوق کی جگہ قلم اورجہل کی جگہ شعور ہی سے قومیں ترقی کرچکی ہیں یہی فارمولا یہاں بھی ازمایاجاسکتا ہے۔ دیامر گلگت بلتستان کے لئے گیٹ وے اور سائن بورڈ کی حیثیت رکھتا ہے اگر گیٹ پر ہی ترقی کے مناظر نظر نہ آئے تو شہر تک کون آئے گا؟ سیاح اور دوسرے علاقوں کے لوگ یہی سے گلگت بلتستان کے بارے میں ایک تاثر بنالیتے ہیں۔دیامر کے عوام خاص کر نوجوانوں سے گزارش ہے کہ تعلیم کی طرف توجہ دے اور تبدیلی کی دوڈ میں اپنے علاقے کی خدمت کریں۔ جیسا کہ قرآن پاک کے سورۃ الانفال آیت ۵۳ میں اللہ کا فرمان ہے’’یہ اس لئے کہ جو نعمت اللہ کسی قوم کو دیا کرتا ہے جب تک وہ خود اپنے حالت کو نہ بدلے اللہ ان کی حالت کو نہیں بدلتا اور اس لئے کہ اللہ سنتا جانتا ہے‘‘۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہواہے ’’ کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جونہیں رکھتے ہیں کیادونوں برابر ہوسکتے ہیں؟ نصیحت تو وہ لوگ حاصل کرتے ہیں جو عقل مند ہیں‘‘ (سورۃ الزمرآیت ۸)۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی نعمتوں کا شکرادا کرنے اور اس دنیا میں امن و امان اور ترقی کی راہ پر چلنے کی توفیق دیں۔( امین)