کالمز

جعلی کرنسی کی گردش ۔۔۔مشتری ہوشیار باش 

گلگت بلتستان کی عوام ہوشیار ہو جائیں جعلی کرنسی کے جانسے میں آنے سے پہلے اصلی اور نقلی کا فرق ضرور جان لیں، کیو نکہ پاکستان بھر کی طرح گلگت بلتستان میں بھی اصلی نوٹوں کی مماثلت رکھنے والے جعلی نوٹ گردش کرنے لگے ہیں جنہیں پہچاننا انتہائی مشکل ہے، حالیہ دنوں پاکستان میں جعلی نوٹوں کی گردش خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے ، ایک میڈیا سروے رپورٹ کے مطابق عام شہریوں کی جیب میں موجود ہزار اور پانچ سو کے نوٹ چیک کئے گئے جس سے معلوم ہوا کہ تقریبا ہر شہری کے پاس کم از کم ایک نوٹ جعلی تھا ،یہ صورت حال نہ صرف ملکی معیشت کیلئے نقصان دہ ہے بلکہ عام عوام بھی اس مافیا کے جانسے میں آتے ہیں ۔پشاور کے قریب علاقہ غیر میں نہ صرف پاکستانی کرنسی بلکہ ڈالر اور پاونڈ کے جعلی نوٹ بھی تیار کئے جاتے ہیں ،جہاں پچیس ہزار روپے میں ایک لاکھ مالیت کے جعلی نوٹ حاصل کئے جاتے ہیں ، پاکستان میں سرکولیٹ ہونے والے جعلی نوٹوں کی پہچان انتہائی مشکل ہے جو اصلی نوٹوں سے مماثلت رکھتے ہیں جسکی وجہ سے روزانہ عوام لاکھوں جعلی نوٹ وصول کرتے ہیں اور انہیں آگے منتقل کر دیتے ہیں ، ملک کوافراط زر کا شکار کر کے دیگردشمن ممالک کے ایجنٹ بھی جعلی کرنسی کا حربہ استعمال کرنے لگے ہیں ،تاکہ جعلی نوٹوں کو زیادہ سے زیادہ پھیلا کر ملک کے اندر مہنگائی میں اضافہ کیا جائے اور ملکی معیشت کو نقصان پہنچایا جا سکے۔ہزار روپے کے جعلی نوٹ کی سب سے بڑی نشانی یہ ہیکہ اس کے دونوں جانب پیلا رنگ قدرے گہرا ہوتا ہے،نوٹ کے بائیں جانب کاغذ کے اندر چھپی قائد اعظم کی تصویر بھی قدرے مدہم ہوتی ہے، سٹیٹ بینک نے عوام کیلئے جعلی نوٹوں سے متعلق کوئی مہم نہیں چلائی جس کی وجہ سے پڑھے لکھے لوگ بھی اس جانسے میں آتے ہیں ، ایسی صورت حال میں عوام بے بسی اور پریشانی کا شکار ہیں ۔

tahir-ranaقارئین!آپکی معلومات میں اضافے کیلئے میں اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یہاں ذکر کرتا چلوں ، حال ہی میں گلگت بلتستان میں جعلی نوٹوں کے بھر مار نے راقم کو لکھنے پر مجبور کیاتاکہ ایسا نہ ہو کہ گلگت بلتستان کے شہری جعلی کرنسی کی دہشت گردی کا شکار ہوں ، پچھلے دنوں راقم نیشنل بینک جوٹیال برانچ سے کیش لینے گیا ، جہاں سے لاکھ، لاکھ کے تین بنڈل دئیے گئے اب بینک پر تو اعتبار تھا اور دوسرا کہاں ہم ایک جعلی نوٹ کی پہچان اتنے سارے نوٹوں میں کر سکتے تھے ، حاضر قیاس وہاں سے نوٹوں کی گڈیاں لیکر نکل گئے اور ایک اور قریبی بینک میں یہ رقم کسی اور اکاونٹ میں ڈیپازٹ کیلئے کیشر کے سپرد کیا، صاحب بہادر نے ایک ایک نوٹ کو حساب کیا اور اس گڈی سے ایک نوٹ باہر نکالا اور مجھے کہا کہ یہ ہزار کا نوٹ جعلی ہے ، ایک لمحے کے لئے میں حیران اس نوٹ کو دیکھتا رہا ،،جو بلکل اصلی لگ رہا تھا لیکن شاید جس بینک سے میں نے رقم نکلوائی تھی اس بینک میں سرخ پین سے اس نوٹ پر کراس کے نشان بھی لگائے گئے تھے، اسکے باوجود مجھے یہ نوٹ پکڑوایا گیا تھا ، میں واپس نیشنل بینک گیا اور کیشر کو نوٹ پکڑا کے کہا کہ بھائی شاید آپ نے غلطی سے مجھے یہ نوٹ دیا ہے تو کیشر میری بات کو سنی ان سنی کر گیا اور کہا کہ پورا بنڈل واپس لاو ،ہم اس کے ذمہ دار نہیں ہیں،لو بھئی میں تورقم دوسرے بینک میں ڈیپازٹ کر چکا تھا کہاں سے لاتا ۔۔خیر ایک ہزار روپے بڑی رقم نہیں ہوتی میں وہاں سے نکل گیا ،راستے میں مجھے قلم قبیلے کا ایک ساتھی مل گیا اسے جب اس بابت بتایا تو انہوں نے انکشاف کیا کہ ایسا واقعہ انکے ساتھ بھی پیش آچکا ہے ، اسے ایک بینک سے ہزار کے دو جعلی نوٹ دئیے گئے تھے ، اب کیا تھا میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ جب شیڈول بینک جعلی نوٹوں کی مارکیٹ میں گردش کا سبب بنیں تو ان لوگوں کو کیا کہیں جو اس مکروہ کاروبار سے منسلک ہیں ۔ اس تحریر کا مقصدد کسی کے پگڑی اچھالنا نہیں نہ ہی ایک ہزار کی وجہ سے کوئی بہت بڑا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ عوام ہوشیار رہیں تاکہ کسی بڑے نقصان سے بچنے کے ساتھ ساتھ ملکی معیشت کو نقصان پہنچنے سے بچایا جا سکے۔گلگت بلتستان کی شیڈول بینکوں میں موجود رقم سے اگر جعلی نوٹ برآمد ہونا شروع ہو گئے ہیں تو یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس وقت شہر گلگت میں کتنے جعلی نوٹ گردش کر رہے ہونگے ۔بینکوں سے جعلی نوٹوں کی سرکولیشن پر جب مبصرین سے رائے لینے کی کوشش کی تو راقم کو چونکا دینے والی معلومات حاصل ہوئیں ،بقول انکے یہ بھی خارج از امکان نہیں کہ ان بینکوں سے وابستہ ملازمین کہیں ان مافیاز سے تو نہیں ملے ہوئے جو جعلی نوٹوں کا غیر قانونی کاروبار کرتے ہیں ، کسی نے کہا کہ بینکوں سے جعلی نوٹوں کی برآمدگی انتہائی تشویش کی بات ہے اسطرح مارکیٹ میں جعلی نوٹوں کی بھررمار ہوگی ۔ ۔وغیرہ وغیرہ ۔

پاکستان بھر میں تمام شیڈول بینک سٹیٹ بینک کے ماتحت ہوتے ہیں جبکہ ریجنل سطح پر نیشنل بینک تمام بینکوں کو رقم کی سپلائی دیتا ہے اور جمع کرتا ہے ، گلگت میں نیشنل بینک کی برانچ سے اگر جعلی نوٹ سرکولیٹ ہوتا ہے توقبل از وقت نیشنل بینک کے ذمہ داران کو چاہیے تھا کہ وہ اس حوالے سے اقدامات کرتے اور دوسرے شیڈول بینکوں کو بھی اس بابت پہلے سے آگاہ کرتے ، ایک بار کسی کو جعلی نوٹ پکڑانا کوئی بہت بڑا جرم نہیں لیکن اگر بینکوں میں جعلی نوٹوں کی سرکولیشن مسلسل ہو رہی ہو تو ایسے میں ہنگامی اقدامات کی ضرورت اور اسکے روک تھام کیلئے تشہیری مہم چلانے کے علاوہ دیگر بینکوں اور عوام کو بھی آگاہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ صوبے میں جعلی نوٹوں کی گردش کو روکا جا سکے ۔۔ آخر میں عوام سے اپیل ہیکہ وہ جب کیش لیں تو بیشک رقم جتنی بھی ہو یا بینک کا سٹیمپ لگا ہوا بنڈل ہی کیوں نہ ہو،اعتبار نہ کریں بلکہ بینک سے نکلنے سے قبل ایک ایک نوٹ کو ضرور چیک کریں ورنہ ایک بار بینک سے باہر نکلنے کے بعد آپکے پاس موجود جعلی نوٹ آپکے کسی کام کا نہیں رہیگا.

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button